لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ

بندہ کس کا یقین کرے اور کس کا نہ کرے۔ دونوں آنکھ کا تارہ ہیں۔ ایک ضد کرتا ہے اوماڑا پر حملہ کرنے والے ایران سے آئے تھے وہاں ان کے تربیتی کیمپ ہیں۔ دوسرا مصر ہے پاکستانی سرزمین سے ایران پر حملے ہوتے ہیں۔

پہلے کے بہت سارے نام ہیں یہ مخدوم امین فیہم ہے، یہ بینظیر بھٹو کے دور کا وکیل افتخار گیلانی ہے، کبھی اس کا نام مشاہد حسین اور کبھی چوہدری نثار اور کبھی اعتزاز احسن۔ اس کی بات کا کیوں یقین نہ کریں اگر پہلا دوسرے کے دورہ ایران سے ایک روز قبل کہتا ہے کوسٹل ہائی وے پر ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے ایرانی خفیہ ایجنسیاں ہیں تو یہ وہی بات ہے جب ایرانی صدر کے عین دورہ پاکستان کے دوران کلبھوشن یادو پکڑ لیا تھا اور جنہوں نے پکڑا تھا وہ بعد میں سعودی اتحاد کے سربراہ بن گئے تھے۔ یہ بات تو چین اف کمانڈ کا تسلسل ہے غلط ہو ہی نہیں سکتی۔ افغانستان سے شام تک یہ ایک ہی کڑی کا تسلسل ہے۔

دوسرا بھی تو غلط نہیں ہو سکتا۔ وہ تو اس دور کا نواز شریف ہے بقول جنرل حمید گل ماضی کا ایجنسوں کا فخر۔ دوسرا کہتا ہے پاکستانی سرزمین ایران میں دہشت گردی کے لئے استمال ہوتی رہی ہے اب نہیں ہو گی۔ دوسرا شوکت عزیز ہے۔ کبھی اس کا نام چوہدری شجاعت جسین ہوتا ہے کبھی معین قریشی اور کبھی میر ظفر اللہ جمالی۔ اگر یہ اس الزام کا اعادہ کرتا ہے جو پاکستان دشمن بھارت اور اس کی پراکسی افغانستان کی لیڈر شپ لگاتی ہے تو پھر یقینی طور پر کوئی مسئلہ ہے۔

پاکستان کا کوئی وزیراعظم کیسے تسلیم کر سکتا ہے پاکستانی سرزمین ہمسایہ ملکوں میں دہشت گردی کے لئے استمال ہوتی ہے اور وہ بھی اس عالم میں آئی ایس آئی کے سربراہ بھی دورے میں ہم رکاب ہیں اور ایران ایسے حساس ملک میں بیٹھ پاسدران انقلاب کے نائب سربراہ کا حالیہ ماضی کا یہ الزام کس طرح درست قرار دیا جا سکتا ہے ایران میں دہشت گردی کرنے والے جند اللہ کے لوگ پاکستانی سرزمین استمال کرتے ہیں۔

معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے اور ہمارے پاس تجزیہ کرنے کے لئے درکار معلومات کا فقدان۔ جو سامنے ہے وہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی اور افغان طالبان کے ساتھ امریکیوں کے امن مذاکرات کا معاملہ ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکر ات کی ڈور پیچ لگنے سے پہلے ٹوٹ گئی ہے۔ زلمے خلیل کا خیال تھا طالبان سے اب افغان حکومت بات چیت کرے گی بھلے افغان وفد میں افغان حکومت کے نمائدنے شامل نہ ہوں وفد کی تشکیل تو صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی ہے یعنی امریکیوں اور بھارتیوں کا وفد ہو گا۔ افغان طالبان بھی کائیاں ہیں انہوں نے کہا 250 رکنی وفد کیا کسی شادی میں آیا ہے۔ مذاکرات معطل ہو گئے ہیں اور امریکی غصہ میں آ گئے شاید پاکستان کو اب ایران کی ضرورت ہے۔

ایک اور بات سامنے ہے سعودی پاکستان کو موخر ادائیگیوں پر پٹرول دینے سے انکار کر رہے ہیں۔ امارات والے تین ارب ڈالر کا وعدہ کر کے منکر ہو گئے ہیں۔ سی ہیک پر پاکستان میں گزشتہ دو سال سے جاری امریکہ چین کشمکش میں ابھی تک امریکیوں کا پلڑا بھاری ہے۔ سی پیک پر جنگی بنیادوں پر کام کرانے والا نواز شریف پناما کی بھینٹ چڑ ہ گیا ہے۔ سی پیک پر کام کی رفتار بتدریج سست ہوتی ہوئی منجمد حالت میں پہنچ گئی ہے اور پاکستان دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ایران سعودی کشمکش کے عروج کے دوران اگر دوسرا ایران کا دورہ کرتا ہے اور ایرانی قیادت کی خوشی کے لئے وعدہ کرتا ہے پاکستانی سرزمین ایران میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی، تو یہ بات اس وقت زیادہ معنی خیز ہو جاتی ہے جب امریکی صدر ایرانی آئل مصنوعات کی برامد پر مکمل پابندی کا اعلان کرتا ہے۔

خطہ سے امریکیوں کے جانے کا وقت ہے اور اس کے ساتھ اگر یہ بات بھی سچ ہے پاکستان روسی، چینیوں اور ایرانیوں کے ساتھ مل کر طاقت کا ایک نیا مرکز بنانے جا رہا ہے تو پھر ایران پاکستان تعلقات میں سرد مہری ہی ختم نہیں ہو چاہے جنرل راحیل شریف کو بھی اپنا عہدہ چھوڑنا چاہیے۔ لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے جہاں سے چلی تھی پہلا کہتا ہے پاکستان میں دہشت گردی کے لئے ایران میں بلوچ عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپ ہیں۔ ہم تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہیں پہلے اور دوسرے نے جو کچھ بھی کہا وہ ایک حکمت عملی تھی۔ جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملانا تو زبان کا پھسلنا ممکن ہے پہلے اور دوسرے کے بیانات میں یہ جواز ممکن نہیں۔

تھک ہار کر یہی کہا جا سکتا ہے ہم ہمیشہ کی طرح دو کشتیوں کے سوار ہیں کبھی سعودیوں کو دھمکاتے ہیں ایرانیوں کی طرف چلے جائیں گے اور کبھی ایرانیوں کو ورغلاتے ہیں دیکھو ہم اس وقت تمہارے ملک آئے ہیں جب امریکیوں نے تماری تمام پٹرولیم مصنوعات کی برامدات پر پابندی لگا دی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے