پازیٹو پاکستان اوریتیم خانے کا اداس بچہ

پازیٹو پاکستان ایک رضاکار اصلاحی تنظیم ہے جو معاشر ے میں مثبت فکرو عمل کے فروغ،شعور کی بیداری ، اعلیٰ اقدار کے احیاء اور نظریہ پاکستان کی پرچار کے لیے کوشاں ہے۔ یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو غیر سیاسی ،غیر مذہبی اور غیر منافع بخش ہے۔ پازیٹو پاکستان کی فیصل آباد کی ٹیم کے ہمراہ مورخہ 17فروری کو بروز اتوار کو فیصل آباد کے ایک یتیم خانے”اپنا گھر” جانے کا موقع ملا ۔عمارت کی دہلیز پار کرتے ہی احساس ہوا کہ گھر وہی ہوتا ہے جو اپنا ہو، جہاں والدین کی شفقت ہو ، بہن بھائیوں کی قربت ہو۔

اتوار کے روز سکول سے چھٹی ہونے کا باعث بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ کچھ سو رہے تھے ،یا شاید کمبل میں منہ چھپائے رو رہے تھے۔ جب ان کو ہال میں بلایا گیا تو دیکھا کہ بڑھے ناخنوں والے،پھٹی ہوئی ایڑھیوں والے اور کچھ میلے لباس میں ملبوس بچے ہال میں اکٹھے ہونے لگے ۔بھاگ بھاگ کر دیوار سے لگے غبارے پھاڑنے لگے ۔ سیٹیاں بجا بجا کر اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محظوظ ہونے لگے۔مگر جب ان کے دل کو کُریدا گیا تو تب اندازہ ہوا کہ ان پھولوں کی خوشبو کتنی درد ناک ہے ۔

جب ایک بچے نے اپنا حال دل اس طرح سنایا کہ میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے۔ جہاں بچپن میں ہی پائوں غربت کی زنجیروں میں قید تھے۔میں ابھی چھوٹا ہی تھا کہ والد صاحب خالق حقیقی سے جا ملے ۔ان کے اس دنیا فانی سے رخصت ہو جانے کے بعد معاشی حالات اور زیادہ تنگ ہونے لگے۔بچوں کے بڑھتے ہوئے اخرجات اور کم آمدنی سے تنگ آکر ایک روز میری ماں نے مجھے صبح صبح نہلا دھلا کر اچھے کپڑے پہنائے۔وہ نم آنکھوں سے تیار کرتے ہوئے بار بار مجھے چوم رہی تھی ۔میری انگلی پکڑے گھر سے یوں نکلی جیسے کسی لمبی مسافت پہ مسافر کو روانہ کرنے جا رہی ہوں ۔ میں ان سے پوچھ رہا تھا کہ ہم کہاں جا رہے مگر ان کے لب میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے میرے لیے دعا گو تھے ۔ گھر سے کافی دور وہ مجھے ایک ایسی جگہ پہ لے آئی جہاں میں پہلے کبھی نہیں آیا تھا ۔وہاں وہ ایک کمرے میں ایک آدمی کے پاس گئی ۔اپنا تعارف کروانے لگی ،اور میں کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا جہاں میرے ہم عمر بچے کھیل کود رہے تھے اور میں ان کو دیکھنے میں اس قدر مگن تھا کہ مجھے معلوم ہی نہ ہوا کہ میری ماں اور اس آدمی کی آپس میں کیا بات چیت ہوئی ۔

کچھ دیر بعد جب میری ماں نے کہا اچھا بیٹا اب میں چلتی ہوں ۔تم اب یہاں پر اس انکل کے پاس رہو گے ۔ تمہارے یہاں پہ بہت سے دوست بن جائیں گے اور میں تمہیں ملنے کے لیے آتی رہوں گی۔ماں کا اس طرح چھوڑ کر جانا مجھے یوں محسوس ہوا جیسے بدن سے جان کھینچ لی گئی ہو ۔ڈھلتا سورج اور ماں کے جدا ہونے کا لمحہ بہت درد ناک تھا ۔رات کو بہت سے بچے میرے ساتھ تھے مگر ممتا کی جدائی کے باعث مجھے تنہائی محسوس ہو رہی تھی ۔ ماں کی محبت کے حصار میں سونے والا اس رات دکھ اور کرب کی لپٹ میں سر کے نیچے ماں کا بازو ہونے کی بجائے بغیر تکیے کے سو رہا تھا۔ یہ رات بہت اذیت ناک اور صدیوں کی مانند لمبی تھی۔لیکن وقت چاہے کسی تخت نشین بادشاہ کا ہو یا کسی جھونپڑی میں بستر مرگ پہ پڑے علیل کا ، گزر ہی جاتا ہے ۔

وقت کی یہی خوبصورتی ہے کہ وہ جیسا بھی ہو گزر جاتا ہے ، بس نوعیت میں فرق ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ میں بھی اس ماحول کا عادی ہو گیا ۔ماں کے ہاتھوں سے نوالہ کھانے والا اب اپنے ہاتھوں سے کھانا کھانے لگا ۔ دوست ، کھیل کود اور پڑھائی میں مصروف رہنے لگا ۔تاکہ گھر اور ماں کی یاد کم آئے ۔مگر ماں کی یاد تو سمندر کی لہروں کی مانند بڑی منہ زور ہوتی ہے ۔جسے روکا نہیں جا سکتا ۔بعض اوقات ماں بہت یاد آئی ۔جب میں گرتا ہوں تو اپنی جانب ماں کے بھاگتے ہوئے قدموں کی آہٹ کا انتظار کرتا ہوں۔چوٹ لگنے پہ ماں ماں پکارتا ہر کمرے میں بھاگ کر جاتا ہوں۔وہاں ماں کو نہ پا کر چوٹ کا درد بھلا کر ماں کی جدائی میں آبدیدہ ہو جاتا ہوں ۔ کیونکہ وہاں سے چوٹ کا مرہم تو مل جاتا ہے مگر ممتا کا مرہم نہیں ملتا ۔

رات کو سوتے ہوئے ڈر جاتا ہوں تو اٹھ کر ماں کی چارپائی ڈھونڈتا ہوں۔جو میرے ڈر اور گھبراہٹ کو کم کرنے کے لیے مجھے سینے سے لگائے ۔میں روز صبح اٹھنے سے پہلے کچھ لمحے آنکھیں موند کر اس انتظار میں لیٹا رہتا کہ کبھی تو میری ماں مجھے میرا ماتھا چوم کر اٹھائے گی ۔ سکول جاتے وقت اللہ حافظ بولنے کے لیے لب اور مسکراہٹ بھرا جواب سننے کے لیے میرے کان ترس گئے ہیں۔ سکول سے واپسی پہ ماں کی طرح کسی کو میرا انتظار نہیں ہوتا ۔

میں سوچتا ہوں کہ رات کو میں ماں سے باتیں کروں اور ان سے کہانیاں سنوں ۔ مگر میں تو ماں کا لمس پانے کے لیے ریگستان میں کسی پیاسے کی طرح تڑپتا ہوں۔ یہاں پر میرے بہت سے ساتھی ہیں جن کے پھول نما چہرے والد کی شفقت ،ماں کی محبت اور بہن بھائیوں کی الفت کی حرارت نہ پانے کی وجہ سے مرجھائے رہتے ہیں۔کیونکہ جہاں ہم رہتے ہیں وہ ایک ایسا باغ ہے جہاں بروقت آبپاشی کے لیے الیکٹرانک آلات نصب ہیں مگر پھولوں کے بدلتے ہوئے رنگ اور بکھرتے ہوئے وجود کی وجہ جاننے کے لیے مالی نہیں ہے۔اسی طرح ہمارا بھی ایک ایسا باغیچہ ہے جہاں انواع و اقسام کے پھول ہے ۔ضروریات زندگی پوری رہی ہیں مگر سرپرست الیکٹرانک آلات کی طرح احساس سے عاری ہے ۔جن سے اپنائیت ،الفت اور شفقت کی خوشبو نہیں آتی ۔

یہاں اشیائے خورو نوش کی کمی نہیں، یہاں کمی ہے تو محبت اور شفقت بھرے اس لمحے کی جو کوئی ہمارے ساتھ گزارے تاکہ اس کمی کے باعث ہمارے دلوں کی سر زمیں بنجر ہونے سے بچ جائے ۔ میں یتیم خانے کا ایک رہائشی ہوں اور ان سب لوگوں سے درخواست کرتا ہوں جنہیں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ اور گھر جیسی نعمت سے بہرہ ور کیا خدا کا شکر ادا کریں ۔والدین کی خدمت کریں اور دنیا میں اس جنت نما گھر کی قدر کریں تاکہ روز محشر کو وہ حقیقی جنت کے مستحق ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے