محترم اعجاز شاہ وزیر داخلہ بن چکے۔ پوری کابینہ میں یہ واحد وزیر ہیں کہ جو سب سے بڑھ کر اپوزیشن کی زد میں ہیں۔
الفاظ کے نشتر چبھوئے گئے ہیں۔ جملوں کے تیر تاحال برسائے جا رہے ہیں۔ اعجاز شاہ کو ان کے والد محترم پیر احمد شاہ مرحوم اور ان کی والدہ محترمہ سلیم مرحومہ پیار سے گُل شاہ کہا کرتے تھے۔ گُل فارسی زبان کا لفظ ہے‘ اسی سے گلستان ہے۔ گلستاں‘ بوستاں وہ ادبی کتابیں ہیں ‘جو الفاظ اور جملوں کے پھول ہیں۔ کیا اعجاز شاہ بھی ایسے ہی پھول ہیں‘ جو صبح صبح شبنم سے تر بھینی بھینی خوشبو دیتا ہے یا کانٹا بن کر ہاتھ کو خون آلود کرتا ہے؟ آج کے کالم میں اسی حقیقت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے سے قبل یہ عرض کر دوں کہ جب جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف بنے تھے تو وہ اعجاز شاہ سے کہیں بڑھ کر تیروں کی بوچھاڑ میں آ گئے تھے۔ میں نے اس وقت ان کی شخصیت کے بارے میں جو کالم لکھا‘ اس میں واضح کیا تھا کہ وہ دھیمی طبیعت کے مالک ہیں۔ حوصلہ برداشت کے حامل اور متواضع انسان ہیں۔
حضرت محمد کریم رحمت دو عالمؐ سے محبت کرنے والے ہیں۔ جی ہاں! اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو لکھا وہی سامنے آیا۔ تصدیق کیلئے محترم مولانا منیب الرحمن کے کالم کا ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں‘ جو 20اپریل 2019 ء کو روزنامہ ”دنیا‘‘ کی اسی جگہ شائع ہوا‘ جہاں آج ”اعجاز شاہ‘ گُل شاہ‘‘ شائع ہو رہا ہے۔ لکھتے ہیں ”جناب جنرل قمر جاوید باجوہ کی علمائے کرام کے ساتھ چند نشستیں پہلے بھی ہو چکی ہیں۔ وہ جب بھی مکالمے کیلئے دعوت دیتے ہیں تو طبیعت میں تناؤ معلوم نہیں ہوتا۔ عجلت میں نہیں ہوتے۔ ریلیکس رہتے ہیں اور کھلے ڈلے انداز میں بے تکلفی کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ ہر بات کو سنتے ہیں اور ہر بات کا جواب دیتے ہیں۔ اس کے برعکس وزیراعظم جناب عمران خان زیادہ مصروف رہتے ہیں اور طویل مجلس کے عادی نہیں ہیں‘ اسی لئے اختصار کو پسند کرتے ہیں‘‘۔
کسی شخصیت کا تجزیہ کرنے کے لئے خاندانی پس منظر اور علاقائی سیاسی صورتحال کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ اس حوالے سے ننکانہ صاحب اور گرد و نواح کی صورت گری کچھ اس طرح ہے کہ کھرل اور بھٹی خاندان ننکانہ کی سیاست پر چھائے ہوئے تھے۔ دونوں قومیں ہی مارشل اور جنگجویانہ طبیعت کی حامل ہیں۔ کھرلوں میں تو باہمی خونریزی بھی خوفناک حد تک تھی میں جن دنوں گورنمنٹ گرونانک ہائی سکول میں زیر تعلیم تھا ‘میرے کلاس فیلو کا بھائی اقبال ابیانوالہ گاؤں میں خاندانی دشمنی میں قتل کر دیا گیا اور پھر میرا کلاس فیلو بھی اسی راہ پر چل نکلا۔ یہ بھی ہوا کہ تین بھائیوں نے زمین کے جھگڑے پر اپنے سگے دو بھانجوں کی ٹانگوں کو ہتھوڑے کے ساتھ توڑا اور پھر اوپر پرالی ڈال کر آگ لگانے لگے تھے کہ پولیس نے پہنچ کر انہیں بچایا۔ ہم ننکانہ میں بیساکھیوں پر ان بھائیوں کو دیکھا کرتے تھے‘ مگر رائے منصب علی خان مرحوم جو ننکانہ میں رہائش رکھتے تھے‘ انتہائی شریف اور باوقار سیاستدان تھے۔
قومی اسمبلی کی سیٹ ان کی پکی ہوا کرتی تھی۔ پکے مسلم لیگی تھے۔ 1977ء میں جب قومی اتحاد کی تحریک چلی تو میرے نانا مولانا تاج الدین مرحوم ننکانہ قومی اتحاد کے صدر تھے۔ میں سٹیج پر پرجوش تقریر کرتا۔ رائے منصب میری غیر حاضری کا نوٹس لیتے۔ جب وہ محمد خان جونیجو کے دور میں وزیر بنے تو مٹھائی کا پہلا ڈبہ لے کر کمیٹی والی مسجد میں میرے نانا کے پاس آئے۔ رائے منصب کی شرافت تھی کہ ننکانہ میں امن رہا۔ ان کی بیٹی شذرہ منصب سے نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ملاقات ہوئی۔ مقررین میں راقم‘ شذرہ اور مشاہد حسین سید تھے۔ محترمہ شذرہ بھی باپ کی طرح باوقار اور انتہائی شریفانہ مزاج رکھتی ہیں۔ بھٹی برادری میں بشیر بھی مرحوم اور ان کے مرحوم بھائی رشید بھٹی پیپلز پارٹی سے الیکشن لڑتے تھے۔ رشید بھٹی بھی شریف طبیعت کے حامل تھے۔ میں نے ننکانہ میں ان کا ایک فلاحی پروگرام رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمائے۔
ننکانہ سے کوئی تین کیلو میٹر کے فاصلے پر نبی پور سیراں کا گاؤں ہے۔ اعجاز شاہ کا یہی گاؤں ہے۔ ابیانوالہ گاؤں ان سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ننکانہ مانگٹانوالہ روڈ پر ہے۔ اعجاز شاہ کا تعلق قریشی برادری سے ہے۔ نبی پور ڈیک والا‘ گنجی پیراں اور پنڈی پیراں وغیرہ میں ان کی برادری ہے اور اعجاز شاہ کا خاندان پوری برادری میں سب سے بڑھ کر اثر و رسوخ والا ہے۔ اس برادری کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں زمین پر لڑائی اور خاندانی دشمنی میں کسی قتل اور مقدمے بازی کی روایت موجود نہیں۔ اعجاز شاہ کے والد پیر احمد شاہ مرحوم پانچ وقت کے نمازی تھے۔ یونین کونسل کے چیئرمین ہوا کرتے تھے۔ نجابت و شرافت میں اپنا مقام رکھتے تھے۔ اعجاز شاہ کے دادا محترم پیر سرور شاہ مرحوم اپنے گاؤں کی مسجد کے بانی تھے۔ ساتھ مدرسہ تھا‘ جس کی مالی سرپرستی کرتے تھے۔
ملک بھر سے آئے ہوئے طلباء سے جو یہاں مقیم تھے‘ ان سے شفقت کیا کرتے تھے۔ مفتی منیب الرحمن اور دیگر علماء کو مدارس کے حوالے سے اعجاز شاہ سے ملنا چاہیے اور ان کے دادا کے حوالے سے مدارس کے سلسلہ میں گفتگو کرنی چاہیے۔ ننکانہ چھوٹا شہر ہوا کرتا تھا۔ اردگرد کے دیہات کے لوگ اور ننکانہ شہر کے نمایاں لوگ آپس میں شناسا ہوا کرتے تھے۔ یہ وہی پرانی شناسائیاں ہیں‘ جن کی بدولت لکھ رہا ہوں۔ افسوس کہ یہ خوبصورت روایات اب دم توڑتی جا رہی ہیں۔ سیاستدان جو رہنما ہوا کرتے ہیں ‘وہ ایک دوسرے پر ایسے ایسے الزامات لگاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ ہی مانگی جا سکتی ہے۔
حلم و حوصلہ‘ برداشت‘ پردہ پوشی‘ شرافت و وقار تیزی کے ساتھ رخصت ہو رہا ہے۔ افسوس اور حیرت اس بات پر ہے کہ اقدار کا اختتام اقتدار کے ایوانوں سے ہو رہا ہے۔ میرے وطن ِعزیز اور اہل پاکستان کیلئے یہ بہت بڑا المیہ تھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو مرحومہ دہشت گردی کا شکار ہوئیں۔ محترمہ‘ پاک فوج کے سات ہزار جوان اور پاکستان کے63ہزار لوگ دہشت گردی میں شہید ہوئے۔ کل تعداد ستر ہزار ہے‘ مگر برا ہو ایسی سیاست کا کہ سیاسی بازار میں محترمہ کی شہادت کا الزام چودھری پرویز الٰہی‘ جنرل حمید گل مرحوم‘ ارباب غلام رحیم اور موجودہ وزیر داخلہ بریگیڈ (ر) اعجاز شاہ پر لگا دیا گیا۔ جنرل حمید گل میرے بزرگ مشفق اور دوست بھی تھے۔ کتنی ہی ملاقاتیں اور اکٹھے سفر تھے۔ اس گُل کی خوشبو ہم میں نہیں رہی‘ مگر اب الزام سے تو اہل ِ سیاست کو ہاتھ اٹھا لینا چاہیے۔ چودھری پرویز الٰہی اور ارباب غلام رحیم بھی ایسی ہی شخصیات معلوم ہوتی ہیں۔
یقین جانیے اعجاز شاہ بھی ایسی ہی شخصیت ہیں۔ میں نے ان کا خاندانی اور علاقائی منظر واضح کر دیا۔ اب اپنے تجزیے میں ان کا ایک اور واقع عرض کرنے لگا ہوں۔ پیر احمد شاہ مرحوم نے ا پنے دو بیٹوں اعجاز شاہ اور ضمیر شاہ مرحوم کو فوج میں بھرتی کروایا۔ دونوں کرنل بن گئے۔ اعجاز شاہ کے سب سے چھوٹے بھائی کا نام حسن شاہ ہے۔
حسن شاہ کا اپنے کزن سے جھگڑا ہوا۔ کزن نے بندوق کا فائر کیا‘ حسن شاہ بچ گیا۔ ایسی ہی مڈھ بھیڑ پھر ہوئی تو حسن شاہ نے اپنے تحفظ میں گولی چلائی اور کزن کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ اثر و رسوخ کے باوجود اعجاز شاہ نے ترلے منتیں کر کے صلح و صفائی سے معاملے کو نبٹا دیا۔ جب سے کشیدگی چل رہی تھی تو اس خاندان کی شرافت کا گواہ محض اتفاق کے ساتھ میں یوں بھی بن گیا کہ اعجاز شاہ صاحب کی والدہ محترمہ اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ننکانہ میں آئیں۔ گرمیوں کے دن تھے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ میں مارکیٹ کمیٹی والی مسجد میں جا رہا تھا۔ گورونانک بازار کی سائیڈ والی گلی سے گزر رہا تھا کہ سائے میں ایک کار کھڑی دیکھی۔ پاس سے گزرنے لگا کہ برقعہ میں ملبوس ایک بزرگ خاتون نے مجھے آواز دی۔
میں پاس آیا تو انہوں نے میرے ذمہ ایک کام لگایا۔ دراصل انہیں شک پڑا تھا کہ کوئی دشمن ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ میں نے اردگرد کی گلیوں میں دیکھا اور آ کر رپورٹ دی کہ کچھ بھی ایسا نہیں ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اثر و رسوخ کے با وجود محتاط زندگی گزار ی۔ صلح صفائی کرلی ‘مگر تنازعہ کو بڑھنے نہیں دیا۔ اعجاز شاہ کیوالدین ان کے دادا محترم‘ جنرل حمید گل سب نیک لوگ تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو مرحومہ کی بھی ملک کے لئے خدمات ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ ہم سب نے بھی آخر کار وہیں جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب فیصلے ہو جائیں گے‘ مگر ہمیں یہاں الزامات‘ بہتانات وغیرہ سے بچنا چاہیے۔ آج پاکستان کو اقتدار کے ایوانوں سے اچھے گمان اور شائستگی کی ضرورت ہے۔
اعجاز شاہ صاحب کو پرویز مشرف کے دور میں جو ذمہ داریاں ملیں ‘ان کی بہت بات ہوتی ہے ‘مگر ان کی ان ذمہ داری کی بات نہیں ہوتی ‘جس میں انہوں نے ہزاروں اور لاکھوں خاندانوں کو تباہی سے بچایا۔ وہ پنجاب میں محکمہ انسداد منشیات کے سربراہ ہے۔ اس مافیا کو انہوں نے کیسے ختم کیا۔ اس پر کسی صحافی کو شاہ صاحب سے انٹرویو لے کر ان کی زندگی کا یہ پہلو بھی سامنے لانا چاہیے‘ جس میں انہوں نے معاشرے کے خاندانوں میں پھول کھلائے اور کانٹوں کو چن چن کر ختم کیا۔ بیکسوں کی مدد کے سلسلہ میں ایک واقعہ اس طرح ہے کہ 1947ء میں سکھوں کا ایک خاندان انڈیا چلا گیا۔ ان کا ایک لڑکا یہیں رہ گیا۔
وہ مسلمان ہو گیا ‘اس کا نام سائیں مشتاق تھا۔ انتہائی نیک بزرگ سائیں مشتاق مرحوم نے مجھے بتایا: جب میں بیمار ہوتا ہوں‘ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کے پاس چلا جاتا ہوں‘ وہ میرا علاج بھی ملٹری ہسپتال میں کراتے ہیں۔ خدمت بھی کرتے ہیں۔ عمران خان کی ٹیم کو ایسا ملا ہے ؛وزیر داخلہ!میری دعا ہے ‘وہ پاکستان کے ایک ایسے پھول ثابت ہوں کہ کانٹوں کو چننے کے ساتھ ساتھ پھول کی پتیوں جیسا نرم کلچر میرے دیس کی سیاست میں قائم کر کے دکھا دیں کہ پیر سرور شاہ اور احمد شاہ کو اگلے جہان میں مولا کریم کی طرف سے ایسی خوشبو کا تحفہ ملے تو اعجاز شاہ کا اگلا جہاں شاندار بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت کی فکر عطا فرمائے۔ (آمین)