اصل فحاشی صرف ایک ہے

فحاشی کی بہت سی قسمیں ہیں مثلاً جھوٹ بولنا فحاشی ہے، وعدہ خلافی فحاشی ہے، اشیائے خورونوش میں ملاوٹ فحاشی ہے، جعلی ادویات تیار کرنا اور اُنہیں فروخت کرنا فحاشی ہے، غبن کرنا اور رشوت یا کمیشن لینا فحاشی ہے، اربوں روپے قرض معاف کرانا فحاشی ہے، لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنا فحاشی ہے، اسمگلنگ فحاشی ہے، ججوں کی خرید وفروخت فحاشی ہے، وکیلوں کی مار کٹائی فحاشی ہے، دین کے نام پر دین فروشی فحاشی ہے، انتہا پسندی فحاشی ہے، غیر ملکی فنڈنگ سے بنائی گئی این جی اوز کے ذریعے غیروں کے ایجنڈے کے لئے کام کرنا فحاشی ہے، سیاستدانوں اور ایجنسیوں کی فہرست پر ہونا فحاشی ہے، آئین توڑنا فحاشی ہے، اِس طرح کی اور بھی بہت سی فحاشیاں ہیں جن کے شکنجے میں پاکستانی عوام آئے ہوئے ہیں اور اُن کا سانس لینا بھی محال ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ برداشت ہو سکتا ہے لیکن ایک فحاشی ایسی ہے جو کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں کیونکہ وہ ان تمام فحاشیوں سے بڑھ کر ہے۔

چنانچہ اُس کے خلاف بجا طور پر بڑے بڑے جلوس نکلتے رہتے ہیں۔ یہ فحاشی میوزک کنسرٹ ہیں، جن کی وجد آفرینی سے نوجوان نسل کے اخلاق خراب ہو رہے ہیں۔ مخلوط تعلیم فحاشی ہے، عورتوں مردوں کا ایک دوسرے سے گفتگو اور میل جول فحاشی ہے بلکہ میرے نزدیک تو عورت ذات کو گھروں میں بند رکھنا چاہئے، نہ یہ گھر سے باہر قدم رکھے گی اور نہ کسی کے دل میں فاسد خیالات پیدا ہوں گے، مگر میرا ایک دوست میری اِس رائے سے متفق نہیں۔

اُس کا کہنا ہے کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ موسیقی اور عورتوں کے گھروں سے باہر قدم رکھنے سے نوجوان نسل کا اخلاق تباہ ہو رہا ہے، تو اِن افعال سے قوم کے اخلاق ہی نہیں بلکہ پوری قوم مکمل طور پر تباہ ہو رہی ہے۔ جن فحاشیوں کی لسٹ یعنی چور بازاری، آئین شکنی، جعلی ادویات، اسمگلنگ وغیرہ تم نے اپنے کالم کے آغاز میں جاری کی ہے، تمہارے نزدیک فحاشی کی وہ قسمیں تو قابلِ برداشت ہیں یا کم از کم تم اُن کے بارے میں اتنے شدید جذبات نہیں رکھتے جو جذبات تمہارے اِن افعال کے حوالے سے ہیں جو ذاتی نوعیت کے ہیں جبکہ اجتماعی گناہوں کو وہ اہمیت نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں۔

میں نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو لیکن میرے خیال میں اولین اہمیت اخلاق کو حاصل ہے اگر ہماری قوم موسیقی ایسی مکروہات سے توبہ تائب کر لے تو ان شاءاللہ اُس کی معیشت بھی ٹھیک ہو جائے گی۔ غربت وافلاس، استحصال اور لوٹ مار کا خاتمہ بھی خود بخود ہو جائے گا۔ ملاوٹ، لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنا، جعلی ادویات وغیرہ سب کا سلسلہ خود بخود رک جائے گا مگر میرا یہ دوست کج بحثی پہ اُترا ہوا تھا۔ بولا قوم بچے گی تو اُس کا اخلاق بھی ٹھیک کر لیں گے اور دوسرے یہ کہ موسیقی سے تمہارا اخلاق خراب ہوتا ہو گا، مجھے تو موسیقی، شاعری، مصوری اور دوسری بہت سی چیزیں جنہیں تم لہو و لعب قرار دیتے ہو، میرے جذبات میں ٹھہراؤ پیدا کرتی ہیں۔ چنانچہ اِن چیزوں سے جن کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں، اُنہیں واقعی ایسی محفلوں میں جانے کی اجازت نہیں ہونا چاہئے۔

مجھے اپنے اُس دوست کی یہ باتیں اچھی نہیں لگ رہی تھیں چنانچہ میں نے موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا یار آج کل موسم کا کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا، اے سی چلائیں تو سردی لگتی ہے نہ چلائیں تو گرمی برداشت نہیں ہوتی، اِس کا کیا کِیا جائے۔ اُس پر میرے اُس بدبخت دوست نے ہنستے ہوئے کہا، موسیقی پر پابندی عائد کردی جائے تو موسم بھی بھلے مانس ہو جائے گا۔ میں نے یہ سنا تو جل کر کہا کیا تم کسی اور موضوع پر بات نہیں کر سکتے۔ بولا کر سکتا ہوں۔ میں نے کہا تو پھر کرو۔

بولا یہ جو نوجوان لڑکیاں پھٹے پرانے کپڑوں میں سڑکوں پر بھیک مانگتی نظر آتی ہیں، کیا تم اِسے فحاشی سمجھتے ہو۔ میں نے عرض کی اگرچہ تم پھر اِس موضوع پر آگئے ہو تاہم میں اِسے بہرحال فحاشی سمجھتا ہوں۔ اُس نے پوچھا یہ جو ایک کمرے کے مکان میں میاں بیوی اور اُن کے نوجوان بیٹے بیٹیاں زمین پر ایک ساتھ سوتے ہیں کیا یہ فحاشی ہے، میں نے کہا بالکل فحاشی ہے۔ بولا اور یہ جو شادی کی عمر تک پہنچنے کے باوجود غربت کی وجہ سے نوجوان نسل بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچ جاتی ہے کیا یہ فحاشی نہیں ہے۔ میں نے کہا ہاں بلکہ اِس سے فحا شی کو فروغ ملتا ہے۔

اُس نے پوچھا اور یہ جو لوگ گھر میں چولہا نہ چل سکنے، بچوں کو تعلیم نہ دے سکنے اور مکان کا کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے جسم فروشی کی راہ پر چل نکلے ہیں یہ کیا ہے۔ میں نے کہا یہ تو سراسر فحاشی ہے اور آخر میں اُس نے پوچھا، اِن تمام فحاشیوں کا راستہ روکنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ میں نے جواب دیا اِس مسئلے کا اور شروع میں میں نے جتنے مسائل کا ذکر کیا تھا، اُن کا صرف یہ حل ہے کہ میوزک کنسرٹس پر پابندی عائد کردی جائے اور ملک بھر میں مخلوط اجتماعات نہ کروائے جائیں۔

یہ سن کر وہ بولا اور ابھی میں نے غربت کے ہاتھوں وجود میں آنے والی جن فحاشیوں کا ذکر کیا ہے اُن کا کیا کیا جائے۔ میں نے کہا صبر کیا جائے کیونکہ یہ اللہ کے کام ہیں۔ وہ ہر شخص کو اُس کے ظرف کے مطابق دیتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ میری اِس مسکت دلیل کے سامنے لاجواب ہو جائے گا اور میرا یہ خیال صحیح نکلا۔ چنانچہ اُس نے اپنے سامنے دھری ایش ٹرے اٹھا کر اپنے سر پہ ماری اور پاؤں پٹختا ہوا باہر نکل گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے