مقابلہ اب یہ ہے کہ کون زیادہ دریدہ دہن ہے۔
تبدیلی یہ آئی ہے کہ عمران خان صاحب نے اس انفرادی عمل کو ادارے کی صورت دے دی۔ پاکستانی سیاست میں اس کا با جماعت اظہار، تحریکِ انصاف سے پہلے نہیں تھا۔ خان صاحب کی جماعت نے اسے سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ بنایا اور پھر یہی سیاست کا چلن ٹھہرا۔ جب کسی نے توجہ دلائی تو جواب ملا: چور کو چور نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ اب اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے؟ تاہم اس طرزِ سیاست کے بانی وہ نہیں ہیں۔ ہر دور میں اکا دکا لوگ ایسے رہے ہیں جنہوں نے اس فن کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔ اس باب میں شیخ رشید صاحب کی امامت تو مسلمہ ہے۔ ماضی میں ان کی کوئی مثال موجود تھی نہ حال میں پائی جاتی ہے۔ مستقبل میں بھی شاید ہی کوئی مائی کا لال اس بلندی کو چھو سکے۔
گزشتہ چند سالوں میں سب سیاست دانوں نے اس سیاسی کلچر کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ مولانا فضل الرحمان جیسا قادرالکلام اس کا محتاج نہ تھا‘ مگر وہ بھی اپنا دامن بچا نہ سکے۔ ان کے ایسے جملے اگر جمع کیے جائیں تو ایک کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ ایسی کتاب اگر مصنف کے نام کے بغیر طبع ہو تو قاری کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے کہ اس کا مصنف کون ہے؟ مولانا فضل الرحمان یا عمران خان؟ بعض جملوں پر تو شیخ صاحب کا گمان ہوتا ہے۔ سیاست کا یہ وہ افسوس ناک پہلو ہے جس کا دفاع کرنا مشکل ہے۔
عمران خان صاحب پر تنقید ضرور کی جائے لیکن پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود یہ گناہ نہ کیا ہو۔ شہباز شریف صاحب نے اظہارِ افسوس کیا‘ لیکن مناسب ہوتا کہ وہ پہلے اپنی وہ تقریریں سن لیتے جو وہ انتخابی مہم میں کرتے رہے۔ شاید یہ انہیں خود پر افسوس کا موقع فراہم کرتا۔ پیپلز پارٹی کے احباب بھی جناب ذوالفقار علی بھٹو کے وہ تبصرے یاد کر لیتے‘ جو وہ اصغر خان اور خان عبدالقیوم خان پر کرتے رہے۔ مسلم لیگ کے خواجہ آصف اور ان کے دیگر ہم جماعت بھی اگر اپنی اداؤں پر غور فرماتے۔ یہاں سب چھاج ہیں، کوئی چھلنی نہیں۔
شگفتہ بیانی ہونی چاہیے کہ اس سے ماحول کشیدہ نہیں ہوتا؛ تاہم خوش تقریر ہونا اور ہے دریدہ دہن ہونا کچھ اور۔ اس فرق کا تعلق ذہنی سطح سے بھی ہے۔ کچھ لوگ ہیں جنہیں اپنی ساکھ کا خیال ہوتا ہے ورنہ سب عوام کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ کیا پسند کرتے ہیں۔ جب معیار ایسا بن جائے تو پھر ابتذال غالب آ جاتا ہے۔ سیاست کا ماحول بد قسمتی سے ایسا ہی ہے۔ پست ذوق ہیں اور ان کا غلبہ ہے۔
پاکستانی سیاست زوال کا شکار ہے۔ کوئی آدرش نہ کوئی مقدمہ، الا ماشااللہ۔ اس کا سب سے بڑا سبب سیاسی عمل کا بار بار انقطاع ہے۔ سیاست کا پانی صاف تب ہی رہ سکتا ہے جب رواں رہے۔ جب اسے روکا گیا تو لازم تھا کہ یہ جوہڑ میں بدل جائے۔ جب بھی مارشل لا آیا، ہر آمر نے فطری سیاسی عمل کو معطل کر دیا۔ اپنی مرضی سے سیاست دانوں کی ایک فصل اُگائی۔ ہر فطری سیاست دان کو سیاسی عمل سے الگ کر دیا یا اس کے لیے سیاست کو مشکل بنا دیا۔ جو سخت جان تھے انہوں نے مزاحمت کی لیکن وہ سیاسی کلچر کو ایک حد سے زیادہ متاثر نہ کر سکے۔
میں اس حوالے سے اکثر مولانا مودودی کا ذکر کرتا ہوں۔ نواب زادہ نصراﷲ خان کی بات کرتا ہوں۔ انہوں نے کس کے آغوشِ سیاست میں پرورش پائی؟ یہ دونوں مولانا ابوالکلام آزاد کے متاثرین میں سے تھے۔ دونوں نے مولانا آزاد کو آئیڈلائز کیا۔ تا دیر، مولانا مودودی کے اسلوبِ سیاست سے لے کر اسلوبِ تحریر تک، ہر ادا پر ابوالکلام کا اثر رہا۔
یہاں تک کہ حکومتِ الٰہیہ کا چراغ بھی انہی کے چراغ سے روشن کیا گیا۔ نواب زادہ نصراﷲ خان کے بارے میں بھی معلوم ہے کہ تا دمِ مرگ مولانا کے اسیر رہے۔ صرف مولانا آزاد ہی نہیں، ان لوگوں کا بچپن جس سماجی فضا میں گزرا، اس میں سیاست ہو یا صحافت، ان کی باگ اعلیٰ لوگوں کے ہاتھ میں تھی۔ مبتذل لوگوں کے لیے مشکل تھا کہ انہیں سیاست کی صفِ اول یا دوم میں جگہ مل سکے۔ خان عبدالولی خان اور شیخ مجیب الرحمن میں بھی عامیانہ پن نہیں تھا۔ مولانا مودودی جیسی بات نہ سہی لیکن یہ لوگ بھی سطحیت سے کوسوں دور تھے۔
سیاسی عمل معطل ہوا تو سیاسی جماعتیں غیر فعال ہو گئیں۔ سیاسی جماعتوں کے بغیر سیاسی کلچر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جب سیاسی جماعتوں کو مصنوعی طور پر تخلیق کیا گیا تو غیر سیاسی لوگوں نے عہدیداروں اور قیادت کا انتخاب کیا۔ اس قیادت نے سیاسی جماعتوں کو اپنے وفا دار لوگوں کا گروہ بنا دیا۔ اس ملک میں کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جس نے کارکنوں کی تربیت کا کوئی انتظام کیا ہو۔ جماعت اسلامی کا استثنا ہے، وہ بھی اس لیے کہ خود کو سیاسی جماعت نہیں، ایک اسلامی تحریک سمجھتی ہے۔ اس تربیت کا یہ اثر بہر حال ضرور ہے کہ جماعت اسلامی کے سٹیج پر سوقیانہ کلام مشکل ہے۔
نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی شخصیات سیاسی ارتقا سے گزریں۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ ان کے بعد کے ادوار ان کی ابتدائی سیاسی دور سے کہیں زیادہ بالغ نظری کا مظہر تھے؛ تاہم اپنی سیاسی جماعتوں کے کلچر کو بدلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش انہوں نے نہیں کی۔ طلال چوہدری اور دانیال عزیز نواز شریف کے سائے ہی میں گل افشانی کرتے تھے۔ ظاہر ہے ان کی تائید کے ساتھ۔ مؤقف یہ تھا کہ بادلِ نخواستہ کر رہے ہیں کہ یہ سیاست کی ضرورت ہے۔ میں کبھی اس دلیل کا قائل نہیں ہو سکا۔ گالی دینا اگر سیاست کی ضرورت بن جائے تو اس سیاست سے پناہ مانگنا چاہیے۔
اس دریدہ دہنی کا دوسرا سبب عمومی اخلاقی زوال ہے۔ اخلاقی پستی ایک معاشرتی مسئلہ ہے۔ اس کی ایک وجہ ذوق کی پستی ہے۔ پست اور گھٹیا درجے کے مزاح پر لوگ ہنستے ہیں۔ دریدہ دہنوں کو عوامی جلسوں اور میڈیا میں پذیرائی ملتی ہے۔ میڈیا جب ایسے لوگوں کو اپنے وقت میں سے، ان کے سیاسی جُثے سے زیادہ حصہ دیتا ہے تو دراصل وہ اخلاقی زوال کے اس عمل میں شریک ہو جاتا ہے۔ پھر اہلِ سیاست کی نئی نسل بھی یہ خیال کرتی ہے کہ پاپولر ہونے کا یہی درست طریقہ ہے۔
ہمیں اس کلچر کو شعوری طور پر بدلنا ہو گا۔ کوئی ضابطہ اخلاق بنانا ہو گا، کوئی قدغن لگانی ہو گی۔ میثاقِ جمہوریت کی طرز پر اختلاف کے آداب بھی طے کرنا ہوں گے۔ اس عمل کو سیاسی مفادات سے آزاد بنانا ہو گا۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ صرف سیاسی مخالفین کی بات بری لگے اور سیاسی اتحادیوں کو اسی طرح کی باتوں پر دادِ سخن دی جائے۔ میڈیا اگر چاہے تو اس کلچر کی تبدیلی میں مدد دے سکتا ہے۔ وہ ان لوگوں کی باتیں شائع یا نشر نہ کرے جنہیں اپنی زبان پر قابو نہیں۔
سیدنا علی ؓ کا فرمان ہے: ‘گفتگو کرو تاکہ پہچانے جاؤ‘۔ کیا اہلِ سیاست یہ چاہتے ہیں کہ ان کو ایک یاوہ گو کے طور پر یاد رکھا جائے؟ آج ہم مولانا مودودی کو یاد کرتے ہیں۔ ہم نواب زادہ نصراللہ خان کا نام لیتے ہیں۔ اس روایت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا آغاز سوشل میڈیا سے کرنا ہو گا۔ اگر اس طرزِ عمل کو نہ بدلا گیا تو پھر کسی کا گریبان سلامت نہیں رہے گا۔ گریبان تو علامت ہے، کچھ سلامت نہیں رہے گا۔
عمران خاں صاحب کی تقریر پر ردِ عمل کا ایک زاویہ وہ ہے جس کا تعلق خواتین کے احترام سے ہے۔ یہ بھی اہم ہے لیکن اس حساسیت کا دائرہ سب کو محیط ہونا چاہیے۔ ہر صنف اور ہر طبقہ محترم ہے۔ اہلِ سیاست، اہلِ مذہب، اہلِ صحافت، مرد، عورت، خواجہ سرا، احترام سب کا بنیادی حق ہے۔ ہمارے ہاں ایک رویہ یہ بھی ہے کہ لبرل مذہبی لوگوں کا تمسخر اڑانا اپنا حق سمجھتے ہیں‘ اور مذہبی طبقہ لبرلز کا۔ احترامِ آدم کو روایت بنانا ہے تو پھر ہمیں اس تقسیم سے بلند ہونا ہو گا۔