میں اپنی فیملی کے ساتھ ایک نجی میڈیکل سنٹر میں کھڑا تھا اور رات کے نو بج چکے تھے۔ یہ کسی سرکاری ہسپتال کی کہانی نہیں ، یہ اسلام آباد کے پوش سیکٹر کے ایک ہسپتال کی کہانی ہے۔ یہ میں اس لیے لکھ رہا ہوں اہل اقتدار میں شاید کوئی پڑھ لے ، شاید کسی کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو جائے۔
ڈاکٹر کے ساتھ ہمارا رات نو بجے کا وقت طے تھا ۔ شدید بارش کے باوجود ہم مقررہ وقت پر وہاں پہنچ گئے۔ پہلا منظر ہی تکلیف دہ تھا ۔ ایک بوڑھی عورت استقبالیہ پر آئی اور وہاں بیٹھے شخص سے پوچھا : بیٹا میں صوابی سے آئی ہوں ، کیا میرا چیک اپ ہو جائے گا ۔ جواب ملا : ساڑھے گیارہ بجے تک انتظار کریں ۔ ڈاکٹر صاحب ساڑھے گیارہ بجے بتائیں گے کہ ’’ ویٹنگ پیشنٹس‘‘ کو چیک کرنا ہے یا نہیں ۔ میں سوچتا ہی رہ گیا کہ ایک انسان ان بنیادی قدروں سے یوں بھی بے نیازہو سکتا ہے؟ بے شرمی اور رعونت دیکھیے ، لوگ رات ساڑھے گیارہ بجے تک انتظار کریں ، اس کے بعد شاہ معظم بتائیں گے کہ ’’ ویٹنگ پیشنٹس ‘‘ چیک کیے جائیں گے یا نہیں ۔
ہر مریض سے چیک اپ فیس کے ساتھ ساتھ رجسٹریشن فیس کے نام پر الگ سے رقم بٹوری جا رہی تھی ۔ ایک مریض چیک اپ کرانے آیا ہے۔ آپ کو بھاری فیس دے رہا ہے۔ شاید دوبارہ آئے ہی نہیں ۔ رجسٹریشن فیس کس بات کی؟ اس فیس کے عوض مریض کو کیا سہولیات مل رہی ہیں ؟ رجسٹریشن کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ حکومت کے علم میں ہے؟ یہ بندر بانٹ اوپر وزیر صحت تک پہنچائی جاتی ہے یا یہیں ہضم کی جاتی ہے؟ کیا ریاست اور متعلقہ وزارتوں کا کام نہیں وہ اس لوٹ مار پر نظر رکھے اور عوام کا اس بے شرمی سے استحصال نہ ہونے دے؟
ہمارا ارادہ یہ تھا کہ چیک اپ کروا کر سرگودھا چلے جائیں گے ۔ میں بچوں کو لے کر باہر گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا ۔ اہلیہ والدہ کے ساتھ ہسپتال میں تھیں ۔ دس بج گئے تو ان کا فون آیا کہ ابھی ہمارا نمبر آنے میں دو گھنٹے لگ جائیں گے کیونکہ ڈاکٹر صاحب ابھی کچھ دیر پہلے آئے ہیں ۔ میں نے کہا ارجنٹ فیس دے کر چیک کروا لو، کہنے لگیں یہ آپشن دے چکی ہوں وہ نہیں مان رہے۔ میں نے کہا پھر فیس واپس لے کر آجائو سرگودھا سے واپسی پر چیک کرا لیں گے۔ جواب ملا : وہ فیس بھی واپس نہیں کر رہے۔ میں نے کہا چلو فیس بھی چھوڑو ، ہم آدھی رات تک نہیں بیٹھ سکتے ، آپ امی کو لے کر آ جائو ۔
فون بند ہوا تو اچانک مجھے خیال آیا فیس کیوں چھوڑ دی جائے؟ جب ہمیں نو بجے کا وقت دیا گیا ہے اور دس بج گئے ہیں اور ابھی اگلے دو گھنٹے باری آنے کا امکان نہیں تو انہیں تو معذرت بھی کرنی چاہیے اور شرمندہ بھی ہونا چاہیے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ الٹا دادا گیری کریں کہ فیس بھی واپس نہیں کرتے ۔ کیا ہم جانور ہیں کہ علی میڈیکل کی انتظامیہ ہمیں جیسے چاہے ہانک لے۔
مجھے یاد آیا اپائنٹمنٹ کا ایس ایم ایس میرے ہی نمبر پر آیا تھا ۔ میں نے موبائل نکالا ، ایس ایم ایس کے آخر پر ان کا فون نمبر لکھا تھا۔ میں نے کال ملائی اور ان سے عرض کی کہ دیکھیے ہمیں اس وقت ایمرجنسی ہے ، ہم اپنے وقت پر پہنچے ہیں ، ڈاکٹر صاحب تاخیر سے آئے ۔اب ہم رات بارہ بجے تک نہیں بیٹھ سکتے۔ کیا آپ فیس واپس کر دیں گے۔ جواب ملا : فیس واپس نہیں ہو سکتی۔ آپ انتظار کریں یا چلے جائیں ۔ فون بند ہو چکا تھا۔
میں نے دوبارہ فون ملایا ۔ اس دفعہ میں نے سرگودھا کی پنجابی زبان میں ان سے درخواست کی کہ یہ تمہارے ابا حضور کا راجواڑہ نہیں ایک ملک ہے۔ اس ملک میں تمہارے والد محترم کا قانون نہیں ہے ریاست کا قانون ہے۔ ہم تمہارے ابا جان کی رعایا نہیں ریاست کے شہری ہیں ۔ معاملات تمہارے قبلہ ابا جان کے حکم کے مطابق نہیں چل سکتے اس میں کچھ قانونی پیچیدگیاں بھی ہیں ۔ قومی زبان میں کی گئی درخواست کو جس رعونت سے رد کیا گیا پنجابی میں کی گئی درخواست کو اس سے زیادہ سعادت مندی سے قبول کر لیا گیا اور فورا فیس واپس کر دی گئی۔
معاملہ محض فیس کا نہیں ، مریض کی عزت نفس ، اس کے حقوق اور ریاست کی ذمہ داریوں کا بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریاست نے ان پرائیویٹ ہسپتالوں کے چیک ایند بیلنس کے لیے کیا کوئی نظام وضع کر رکھا ہے؟
ایک اور ہسپتال کا حال دیکھ لیجیے جہاں مریض کا سب کچھ لٹ جاتا ہے مگر اسے شفا ء کم ہی ملتی ہے ۔ 8 ایکڑ زمین اس ہسپتال کو حکومت نے محض ایک سو روپے مربع فٹ پر الاٹ کی تھی ۔عوام کی زمین پر ہسپتال بنا کر عالم یہ ہے کہ ان کے بارے میں شکایات ہیں یہ لاش کو یرغمال بنا لیتے ہیں کہ بھاری بل ادا کرو ورنہ لاش نہیں دیں گے۔ کیا بل وصول کرنے کے لیے لاش کو یرغمال بنایا جا سکتا ہے؟
صحت کی سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری اس پر آئین نے عائد کر رکھی ہے لیکن حکمرانوں کے نزدیک آئین کی بالادستی کا مطلب صرف ان شقوں کی بالادستی ہے جن کا تعلق ان کے اقتدار سے ہے۔عوام کی کوئی حیثیت نہیں ۔ عوام کے لیے دو ہی راستے ہیں ۔ سرکاری ہسپتالوں میں کم خرچ میں ذلیل ہوں یا پرائیویٹ ہسپتالوں میں مہنگے داموں ۔
اب تو یہ رجحان بھی سامنے آ رہا ہے کہ ادویات وہ لکھی جاتی ہیں جو مخصوص میڈیکل سٹورز سے ملتی ہیں ۔ بعض ڈاکٹر میڈیکل ریپس کو خوش کرنے کے لیے ڈھیروں ادویات لکھ دیتے ہیں ۔ جواب میں میڈیکل کمپنیاں ان ڈاکٹروں کو غیر ملکی دورے کراتی ہیں اور نئی گاڑیاں تحفے میں دیتی ہیں ۔ ڈاکٹرز نسخے لکھتے رہیں تو کمپنی گاڑی کی قسط دیتی رہتی ہے۔ سخے بند تو قسطیں بند ۔
اہل اقتدار کو کوئی مسئلہ نہیں ۔ یہ اپوزیشن میں بھی ہوں تو انہیں کوئی مسئلہ نہیں۔ نواز شریف حکومت میں تھے تو بیرون ملک علاج کے نام پر قومی خزانے کو جس بے رحمی سے استعمال کیا گیا اس کی تفصیلات اب قومی اسمبلی میں پیش کی جا چکی ہیں ۔ تین لاکھ ستائیس ہزار پائونڈ ۔ موبائل فون اور اخبارات تک سرکاری خرچ پر لیے جاتے رہے اور جب میاں صاحب جیل میں بیمار ہوئے تو ان کے لیے خصوصی میڈیکل یونٹ قائم کر دیا گیا ۔ لیکن عام آدمی ایک عذاب سے دوچار ہے۔ اس کے لیے تعلیم کی سہولت ہے نہ صحت کی ۔ اسے اس ملک میں سب کچھ خریدنا ہے۔
سوال ایک ہی ہے: کیا مریض کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں؟