آج استاذی پروفیسر حمید احمد خان کی ایک روایت سے بات شروع کرتے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے ’علامہ اقبال کے ہاں ایک شام‘ کے عنوان سے 10نومبر1937کی ایک نشست کا احوال لکھا تھا۔ اقتباس ملاحظہ کیجئے:
’علی بخش نے آکر مہر صاحب اور سالک صاحب کے آنے کی اطلاع دی، مدیران ’انقلاب‘ کے آتے ہی گفتگو کا رخ سیاسیات کی طرف پھر گیا۔ اُن دنوں تھوڑا ہی عرصہ پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس لکھنو میں ہوا تھا اور پنجاب کی یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ میں باہمی میثاق کے چرچے تھے۔ مہر صاحب نے یقین دلایا کہ سر سکندر عنقریب پارٹی اور مسلم لیگ کے اتحاد کے متعلق اعلان کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب کے انداز سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا اُنہیں شبہ ہے کہ ایسا کوئی بیان شائع ہو گا یا نہیں۔ پھر ہم سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ میں سے کوئی صاحبHistorian (مورخ) ہیں؟ ہم نے اپنے عجز کا اعتراف کیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا تاریخ انگلستان میں ایک عہدہ دار ہوا کرتا تھا جسےKeeper of the King’s Conscience (بادشاہ کا ضمیر بردار) کہتے تھے۔ مہر صاحبKeeper of the Premier’s Conscience (وزیراعظم کے ضمیر بردار) ہیں‘۔
پسِ منظر اِس کا یہ ہے کہ علامہ اقبال پنجاب کے تعلیم یافتہ شہری متوسط طبقے کی نمائندگی کرتے تھے۔ اُنہوں نے پنجاب کے تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کو اُس وقت مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع رکھا جب سر فضل حسین اور سر سکندر حیات جیسے دیہی جاگیردار برطانوی راج کی چھتری تلے اقتدار کی سیاست کر رہے تھے۔ 1937کے آتے آتے پنجاب کا ازلی کاسہ لیس طبقہ نواب اسماعیل اور لیاقت علی خان کے قریب آنے لگا۔ یہ دولت اور رسوخ کا ملاپ تھا، اِس میں اقبال جیسے صاحبِ علم اور درویش طبع مفکر کے لئے جگہ نہیں تھی۔ علامہ اقبال اُس وقت پنجاب پراونشل مسلم لیگ کی صدارت کر رہے تھے۔
اُنہیں سکندر حیات سے شدید اختلاف تھا۔ دوسری طرف غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک کا اخبار انقلاب طرے دار گروہ کا ترجمان سمجھا جاتا تھا۔ اقبال مہر و سالک کی اِسی وابستگی پر چوٹ کر رہے تھے اور یہ جو اقبال نے بادشاہ کے ضمیر بردار کا اشارہ دیا تو یہ منصب انگلستان میں 1534تک موجود تھا۔ عام طور پر یہ منصب کلیسا کے اعلیٰ ترین عہدے دار کے لئے مختص تھا۔ ہنری ہشتم نے ویٹیکن سے علیحدگی اختیار کر کے چرچ آف انگلینڈ کی بنیاد رکھی تو یہ عہدہ بھی ختم ہو گیا۔
عزیزانِ محترم، کوئی خطہ ہو، کوئی زمانہ ہو، بادشاہ سلامت کو ضمیر برداروں کی ضرورت تو ہوتی ہے اور اگر ہمارے دیس کا معاملہ ہو تو مشکل کسی قدر بڑھ جاتی ہے۔ پہلے تو یہ معلوم کیا جائے کہ بادشاہ سلامت (حقیقی)کون ہیں اور پھر یہ کہ سطوت شاہی کی ترجمانی کا کس کس کو دعویٰ ہے۔ ابھی دیکھئے، 17اپریل کی شام تک جہلم کے ایک بطل بلند آہنگ خسروئے وقت کا ضمیر اٹھائے پھر رہے تھے۔ اگلے روز شام ڈھلتے ڈھلتے سیالکوٹ کی مہارانی نے بادشاہ کے ضمیر کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر لے لیا۔ حافظ شیراز یاد آ گئے
بہ ملازمان سلطان کہ رساند این دعا را
کہ بہ شکر پادشاہی ز نظر مران گدا را
ترجمہ کرنا چاہا۔ پھر خیال آیا کہ مفہوم تو اردو شاعر نے پہلے سے ادا کر رکھا ہے۔ بیٹھے ہیں زمیں زادے، کشکول نظر کھولے، اِدھر نازک مزاج شاہاں نے ایک ضمیر بردار تو مستقل مقرر کیا ہے اور اب 26آزمودہ رجال کار کی ایک فہرست جاری کی ہے کہ ٹیلی وژن کی اسکرین پر اِنہیں دفاعی تجزیہ کار کے مرعوب کن تعارف کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اِن اصحاب نے اپنے سابقہ محکمے سے ضروری اجازت نامہ حاصل کر لیا ہے۔ اِس چرخ نیلگوں کا خورشید ہونے کے لئے کوئی دیگر مشتری ہو تو آواز دے۔ درویش بے نشاں کو کیمرے اور روشنیوں کی چندھیا دینے والی آزمائش میں بارہ برس گزر گئے۔ 2007کے ہنگامہ پرور دن تھے۔ پرویز مشرف کے اورنگ سلطانی میں تزلزل آچکا تھا۔ اُن دنوں سابق عسکری افسروں کی تنظیم نے پے در پے بیانات جاری کئے۔ معلوم ہو گیا کہ وقت کی رفتار بدل گئی ہے۔ اختیار کے مرکزے میں خلل آ گیا ہے۔ اُسی تجربے سے صحافتی منظر پر دفاعی تجزیہ کار نمودار ہوئے۔ اور پھر 2008آن پہنچا۔
درویش سرکاری ٹی وی پر سیاسی تبصرے کی خدمت پر مامور تھا۔ غیر محسوس طریقے سے خاص طرح کے چہرے اسکرین پر نظر آنے لگے۔ دفاعی تجزیہ کار کی اصطلاح پہلے پہل وہیں سنی۔ پروگرام کے میزبان اقتدار کی غلام گردشوں کے رازداں تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے نووارد اصحاب گفتگو کا محور قرار پائے۔ رنگروٹ صحافی حاشیے پر چلے گئے۔ ایک روز خلافِ معمول بحث میں آنچ بڑھ گئی۔ درویش تلخی کلام کا ذوق نہیں رکھتا۔ اگلے روز حاضری سے معذرت کر لی۔ کوئی ارتعاش پیدا نہیں ہوا کہ حاشیہ برداروں کی طویل فہرست پہلے سے موجود تھی۔
اِن گزرے برسوں میں دفاعی تجزیہ کار برقیاتی صحافت کا جزو لازم قرار پائے۔ اطلاع ملی کہ ہم ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہیں اور اختلافی آواز عدو کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ صاحبان، صحافت تو اختلافی رائے کے اظہار ہی سے مرتب ہوتی ہے۔ حقیقی خبر وہی ہے جسے روکنے کی خواہش کہیں پائی جائے۔ اِن دنوں صحافت پر پیغمبری وقت آن پڑا ہے۔ صحافی کو روزگار کے لالے پڑے ہیں۔ خبر دینے والے تتربتر ہو چکے۔ خاموشی کی ثقافت گہری دھند کی مانند اتر آئی ہے۔ بادشاہ کے ضمیر بردار البتہ اپنی رائے بیان کرنے میں یکسر آزاد ہیں۔ اطمینان کا پہلو البتہ یہ ہے کہ صاحبِ اعتبار قلم اور آواز نے سپر نہیں ڈالی۔ خاموشی کی اپنی ایک آواز ہوتی ہے اور اُس کی گونج صاف سنائی دے رہی ہے۔ صدرِ محترم عارف علوی نے گزشتہ روز بتایا کہ صدارتی نظام مسلط کرنے یا اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے کی کوئی تجویز زیرِ غور نہیں۔
سربراہ مملکت کی اس یقین دہانی سے کچھ ڈھارس تو بندھی لیکن حاشیہ برداروں کا جمِ غفیر بدستور تانیں اڑا رہا ہے۔ اب بادشاہ کے ضمیر بردار فرمان شاہی سے لیس ہو کر میدان کے بیچ گرجیں گے تو خاموشی کی ثقافت مزید گہری ہو جائے گی۔ ایک طرف اہل حکم کا ارادہ ہو گا تو دوسری طرف بے دست و پا صحافی کی ناتواں رائے۔ ایسے میں حقیقی خبر اور بنیادی سوال کے لئے راستہ نکالنا دشوار ہو جائے گا۔ ہم نے اِس ملک میں الطاف حسین، حمید نظامی اور زیڈ اے سلہری جیسے بادشاہ گر صحافیوں کا جلال بے اماں دیکھ رکھا ہے۔ ہم اس تیرہ و تاریک وادی سے گزر آئے تو ماندگی کا یہ وقفہ بھی گزر جائے گا۔ جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے۔