سیکولر احباب کا موضوع ،عقائد وعبادات نہیں بلکہ زمینی حقائق ہوا کرتے ہیں- مزید یہ کہ سیکولرزم میں، کسی بھی مذہبی سرگرمی کی نہ تو تقدیس تسلیم ہے اور نہ ہی تضحیک گوارا ہے-
اپنی بات کو واضح کرنے، ایک خاص گھوڑے کی مثال لے لیتے ہیں-
ایک شیعہ مسلمان،اگراس گھوڑے کو ذوالجناح قرار دے کراسے سجائے سنوارے اور اسکی تعظیم کرے تواسکی مرضی مگر ایک سیکولر کیلئے یہ ایک گھوڑا ہی رہے گا-
تاہم،اہل تشیع حضرات،اگراس گھوڑے کو” جانور” بولنے پر منقبض ہوتے ہوں تو ایک سیکولرکو چاہیئے کہ وہ بھی اسے ذوالجناح ہی کے نام سے پکارے کیونکہ کسی کے عقیدے کی قصداً اور بلاوجہ تضحیک کرنا بھی سیکولرزم کی روح کے خلاف ہے-
یہاں تک تو فردی رویوں کی بات ہے- لیکن اگرمختلف العقائد معاشرے میں یہ مطالبہ کیا جائے کہ اس گھوڑے کے باہر آنے پر اس کی خاطر عام ٹریفک روک دی جائے توپھر سیکولر حکومت کو اس پہ ایکشن لینا ضروری ہوجائے گا-
آمدم برسرمطلب! ہم مسلم سیکولرز، عام طور پر مذہبی رسومات و موضوعات پہ بات کرنے سے احتراز کیا کرتے ہیں تاوقتیکہ یہ ہمارے روزمرہ امورمیں دخیل ہونے لگ جائیں-
جنرل ضیاء الحق مرحوم نے احترام رمضان آرڈننس نافذ کیا تھا جسکے مطابق، رمضان کے دنوں میں سرعام خورونوش کرنا ، کھانا پکانا یا ہوٹل کھولنا، جرم قرار دیا گیا تھا- یہ آرڈننس، سماجی زندگی پہ اثر انداز ہونے کے ناطے، ہمارا موضوع بنتا تھا مگر ماضی میں دو وجوہ کی بنا پراس پہ اظہارِ خیال سے کتراتے رہے- ایک یہ کہ پولیس کو دئے گئے بھتے کوکھانے کے ریٹ میں ایڈجسٹ کرنے کے بعد، اکثر ہوٹل پردے کے پیچھے کھلے ہی رہتے ہیں- دوسرے یہ کہ اگر ایک ماہ واقعی ہوٹل بند کرنا پڑے تو بھی یہ کوئی ایسا بڑا قومی المیہ نہیں ہے- پاکستان جیسے ملک میں سیاسی پارٹیوں کی ہڑتال یا اپنی یونین والوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے خود ہوٹل مالکان اور نانبائ وغیرہ کئی کئی دن دکانیں بند کردیا کرتے ہیں-
اب مگر اس موضوع پر قلم اٹھانا ضروری محسوس ہوا ہے- وجہ اسکی”امیرِ تحریک لبیک” کا یہ اعلان بنا کہ اگر حکومت رمضان میں ہوٹل بند نہیں کرا سکتی توہمارے کارکنان زبردستی یہ فریضہ انجام دیں گے-
دیوبندی طالبان، داڑھی کی عظمت کی خاطر، حجاموں کی دکانوں کو بم سے اڑا دیا کرتے تھے- لگتا ہے اب بریلوی طالبان، رمضان کی عظمت کیلئے، چھپرہوٹل اور کھوکھے اڑایا کریں گے (کیونکہ میریٹ ہوٹل یا پرل کانٹی ننٹل ہوٹل کو ہاتھ لگانے کی مجال نہیں)- البتہ ہمہ قسم طالبان ایسے حکومتی دفاتر کو کبھی نشانہ نہیں بناتے جہاں غریبوں سے برسرعام رشوت وصولی جاتی ہے-
بہرحال، اس آرڈننس یا قانون بارے اپنی عاجزنہ معروضات پیشِ خدمت ہیں-
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کا مذہبی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیئے، بالخصوص روزہ دار سے تو اسے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیئے- یہ عبادت تو خدا اور بندے کے درمیان اس قدر پرائیوٹ معاملہ ہے کہ اس کا اجروثواب بھی خدا نے کانفڈنشل رکھا ہوا ہے-
قرآن نے مریض اور مسافر کو روزے کی چھوٹ دی ہے- مریض کون؟- کینسر سے لے کر نزلہ زکام تک، ٹیکنکلی مرض ہی گنا جاتا ہے- مسافر کون؟- کسی بھی وجہ سے کہیں جانے کیلئے کوئی گھر سے نکلا تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک 80 کلومیٹر مسافت پہ اور امام شافعی کے نزدیک گھر سے نکلتے ہی، شرعاً مسافر ڈکلئر ہوگیا-
اب اگر مریض یا مسافر کو خدا نے روزہ سے استثنی دیا ہوا ہے تو کیا حکومت، بزور اسے روزہ رکھوائے گی؟-
مذکورہ بالا بحث سے یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ روزہ، ہرکسی کے اندرون کا معاملہ ہے اور ہر اس آدمی کے لئے آسان ہے جو اپنی روحانی ترقی کا خواہاں ہے-مگر وہ آدمی جو “مشق” اور”مشقت” کا فرق جانتا ہے- (فوجی لوگ “ایکسر سائز” اور “پٹھو لگنے” کا فرق بخوبی جانتے ہیں)- ہم جب کیڈٹ کالج کوہاٹ میں پڑھتے تھے تو ہر صبح کو ڈرل (یا پی ٹی) کیلئے جانا لازمی تھا- ڈسپلن توڑنے پر کسی کیڈٹ کو سزا ہو جاتی تو دوپہر کو اسی گراونڈ میں اوراسی کِٹ میں، “ایکسٹرا ڈرل” کا سامنا کرنا پڑتا- دونوں صورتوں میں ایک جیسی جسمانی تھکاوٹ ہوتی تھی مگر پہلی کیلئے ہم خوشی خوشی جاتےکہ اس میں اپنی نشوونما سمجھتے تھے جبکہ دوسری کیلئے جانے سے جان جاتی تھی- پس “مشق” اور”مشقت” صورت میں ایک ہوتے ہیں مگر ہدف میں متضاد ہوتے ہیں- روزہ ، خشیت الہی رکھنے والوں کیلئے بہت شیریں عبادت ہے کہ وہ اسے “مشقت” نہیں بلکہ “مشق” سمجھتے ہیں- جو آدمی اس رمز کو نہیں سمجھتا تووہ روزہ کوایک سزا سمجھ کربھگتے گا-
ماہ رمضان کا ایک مقصد، یہ ٹریننگ لینا ہے کہ کیسے ایک مومن، بھوک پیاس کی حالت میں بھی نارمل لائف گذار سکتا ہے؟- کسی خاص ماحول کیلئے ٹریننگ، ویسا ہی ماحول مہیا کرکے دی جاتی ہے نہ کہ اس ماحول سے کاٹ کر- کسی کو اخلاق کریمانہ سیکھنے ہوں تو تبلیغ میں تشکیل کرا کر، مختلف المزاج لوگوں کے ساتھ کچھ دن بسرکرنےکی ٹریننگ لے- لوگوں سے کٹ کر، کسی کمرے (خانقاہ) میں بند رہنے والا، اخلاق پہ بھاشن دینا تو سیکھ سکتا ہے مگرعملی اخلاق نہیں-
روزہ کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ معمولات زندگی درہم برہم کر دئے جائیں بلکہ یہ سیکھنا ہے کہ عام نارمل حالات میں، معمول کے کاروبار انجام دیتے ہوئے بھی محض اللہ کیلئے بھوک وپیاس برداشت کی جاسکتی ہے-( یورپ میں ہمارے مسلمان بھائی، عام معمولات کے ساتھ 20 گھنٹے کا روزہ بھی رکھ لیا کرتے ہیں)- اگر آپ نے ساری دنیا کے لوگوں کو پابند کر دیا کہ ہمارے نازک مزاج روزہ دار کو کھانے کی شکل نہیں دکھانی تو پھراس روزہ دار نے خاک ٹریننگ لی؟
اس ٹریننگ کے دوران بھی شریعت نے یہ خیال رکھا ہے کہ جذبات میں آکر کوئی اپنی جان کو زیادہ تکلیف میں نہ ڈال بیٹھے-اس لئے تو غیریقینی حالات (مرض اور سفر) کے دوران، روزہ سے استثنی دیا گیا ہے-جو شریعت، خود روزہ دار کی جان جوکھوں میں نہیں ڈالنا چاہتی، وہ اس کی وجہ سے سارے شہر کو بھلا کیوں پابند سلاسل کرنے لگی؟- جبکہ ملک پاکستان کی 21 کروڑ آبادی میں سے تقریباً 7 کروڑ نابالغ بچے ہیں جن پر روزہ فرض نہیں- 7 کروڑخواتین میں سے چوتھائ پر روزہ فرض نہیں ہوتا- مریض اور مسافروں کے علاوہ ایک کروڑ غیرمسلموں پر روزہ فرض نہیں ہے(یوں تو ہرفرقہ والے، دوسرے فرقہ کے مولوی کے ہاں غیرمسلم ہی شمارہیں)- پس جب ملک کی آدھی آبادی پر روزہ فرض ہی نہیں تو رمضان میں ہوٹل کیوں بند رکھے جائیں؟-
خاکسار کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ احترام رمضان کہ وجہ سے ہوٹل بند رکھنے میں آخرکونسی حکمت پوشیدہ ہے؟-
اگر رمضان میں ہوٹل بندش کی یہ حکمت ہے کہ ہوٹل کا کھانا دیکھ کر روزہ دار کی بھوک چمک اٹھے گی تو پھر رمضان کے دنوں میں مٹھائی، پھل فروٹ وغیرہ کی دکانیں بھی بند کرنا ضروری ہے کہ انکی وجہ سے بھی روزہ دار کی بھوک چمک سکتی ہے- بلکہ بھوک سے زیادہ چونکہ پیاس پریشان کرتی ہے تورمضان کے ایام میں، پانی کے نلکے، ٹونٹیاں وغیرہ بھی ڈھانپ دینا چاہئیں-روزہ دار کو سب سے زیادہ بھوک عصر کے وقت محسوس ہوتی ہے- عین اسی وقت ہر گلی بازار میں گرماگرم پکوڑے، سموسے تلے جاتے ہیں اور گاہک، گھنٹوں لائین میں لگے رہتے ہیں- ہم نے تووہاں کسی روزہ دار کو پکوڑے تلتے دیکھ کر بیہوش ہوتے نہیں دیکھا- منطقی طور پر تو احترام رمضان میں افطاری سے پہلے، سموسہ سازی اور پکوڑہ فروشی پہ پابندی لگانا زیادہ ضروری معلوم ہوتا ہے مگر یہ کہ مولوی صاحب کی افطاری بھی گرم پکوڑوں کے بغیر مکروہ ہوجاتی ہے-
رمضان میں صرف ہوٹل بند کرنا چہ معنی دارد؟- کیا آپکو معلوم ہے کہ عیسائی بھی ایسٹر کے روزے رکھا کرتے ہیں مگر ان کے روزے میں صرف آگ پہ پکی ہوئی چیز کھانا منع ہوتا ہے- اب اگر رمضان، اپریل میں آن پڑے تو اس ہوٹل بندش کو “احترامِ رمضان آرڈننس” سے زیادہ”احترامِ ایسٹر آرڈننس” کا نام دینا زیادہ موزوں ہو گا-
بھائ دوستو! ایک آدمی نے اللہ کیلئے روزہ رکھا- ہر انسان کو دوسرے انسان کی عبادت میں مددگار ہونا چاہیے-نمازی کے سامنے سے نہ گذرے-روزہ دار کے سامنے نہ کھائے(وغیرہ ) مگر یہ سب اخلاقی ادب و آداب ہیں-اس عام انسانی رویے کو قانون بنا کر مسلط کرنا، کونسی منطق ہے؟-
دراصل پاکستان کے بدعتی مولوی صرف رمضان کے روزے ہی جانتے ہیں- ہم برسوں قبل سعودی عرب آئے- یہاں دفتر کی ہفتہ وار میٹنگ میں قہوہ، چائے اور کھجور لازمی سرو کی جاتی ہے-ہمارے چند عرب کولیگ مگر اسے ہاتھ نہ لگاتے تھے- ایک بار کسی سے پوچھا تو کہا “انا صائم”- بعد میں پتہ چلا کہ یہاں کثیر تعداد میں لوگ ایام بیض (سوموار اور جمعرات) کے سنت روزے رکھتے ہیں- ان روزہ داروں کے سامنے کھانا پینا ہوتا رہتا ہے مگر ان کو مرگی کے دورے نہیں پڑتے-
دیکھئے، روزہ 2 ہجری میں فرض ہوا- اس سے پہلے میثاق مدینہ ہوچکا تھا جسکے نتیجہ میں مدینہ کی ریاست میں حتمی فیصلہ سازی کا اختیار، جناب پیغمبر کو دیا گیا تھا- اس زمانے میں ہوٹل تو نہیں ہوا کرتے تھے تاہم مدینہ کے یہودی، صابی اور دیگر غیرمسلم شہری، اپنے گھروں میں کھانا پکایا کرتے تھے-( گھر کیا تھے؟ بس گلی میں ایک دیوار کا احاطہ ہوتا تھا)- تاجدار مدینہ نے ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا کہ احترام رمضان کی خاطر کسی گھر کے چولہے سے دھواں اٹھتا نظر نہ آئے- میرے ناقص علم میں خلفائے راشدین کا کوئی ایسا حکم نامہ موجود نہیں کہ مفتوحہ علاقوں میں ایام رمضان میں طباخی پر پابندی لگائی گئی ہو-
خاکسار کی یہ اوقات نہیں کہ اس قانون کو خلاف شریعت قرار دے مگر اسے غیرمنطقی ضرور سمجھتا ہے اور اس لئے چند طالب علمانہ سوالات اٹھائے ہیں- خاکسار کویہ بھی یقین ہے کہ جن علمائے کرام نے احترامِ رمضان آرڈننس کا مسودہ ترتیب دیا ہے، انکے پاس ضرور کوئی نہ کوئی شرعی حوالہ موجود ہوگا- جس ملک میں ایسے علامے موجود ہوں جو استنجاء میں زیادہ پانی استعمال کرنے کی وجہ سے ” نیچے سے” روزہ ٹوٹنے بارے شرعی حوالے برآمد کرسکتے ہوں تو ان کے لئے ہوٹل بندش کو فرض عین ثابت کرنا بھلا کیا مشکل کام ہے؟-
ہماری گذارش فقط یہ ہے کہ ایک جمہوری ملک کی پارلیمنٹ، کسی خاص گروہ کے عقیدہ وعبادت کی ترویج یا بیخ کنی کی خاطر نہیں تشکیل دی جاتی بلکہ اس کا اصل کام، امن عامہ اور معاشی نمو کی خاطر قانون سازی کرنا ہے- اس کو اپنے اصل کام پہ توجہ دینی چاہیئے-