لوک ادب کسی بھی معاشرے کے عوامی جذبات اور خیالات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔کسی بھی معاشرے، قوم اور علاقے کو جاننے کے لیے یہ آسان طریقہ ہے کہ اس کی لوک تاریخ کا مطالعہ کر لیا جائے۔شہر کے ہنگاموں سے دور، کسی پہاڑ کی چوٹی پر یا کسی گھنے جنگل میں ایک چرواہا جو اپنوں سے دور اور انجانی منزلوں کی جانب گامزن ہوتا ہے۔اور اس سمے وہ اپنے جذبات اور خیالات کو مجتمع کر کے جب بانسری سے دھنیں بکھیرتا ہے تو اس کا درد پورے عالم میں سما جاتا ہے۔
ان دھنوں میں ہجر و فراق، غم و حزن اور وصال کی خواہش سمیت سب کچھ موجود ہوتا ہے۔گوجری لوک ادب بھی ان ہی روایات کا امین اور اپنے اندر بہت وسعت اور اپنے ماننے والوں کا ایک سمندر اور طویل تاریخ کا حامل ہے۔گوجری لوک ادب کا ایک بڑا اثاثہ خونی لکیر نے مہیا کیا۔جو ہزاروں انسانوں کو نگل گئی۔اور لاکھوں انسانوں کے درمیان ایک سد راہ کی طرح آج بھی حائل ہے۔قومی ادارہ لوک ورثہ اور اس کی ہونہار میڈم ذوبیہ قابل تعریف ہیں کہ انھوں نے جنگلوں، پہاڑوں ، صحراوں اور دور دراز پروان چڑھنے والے درد اور عوامی سوچ کے آئینہ دار ادب کو پوری دنیا تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا۔اور ان کی خوش قسمتی کہ گوجری لوک بیٹھک کے لیے ان کو ہجر و فراق کے درد میں ڈوبے اور خود پر بیتنے والے شاعر ، ادیب ، مغنی ، موسیقار ،کالم نگار منیر احمد زاہد اور ان کی اہلیہ جو کہ سراپا سفیر ہیں گوجری ثقافت کی اور شاعرہ اور ادیبہ ہیں۔اور قوم کا درد رکھتی ہیں ، میسر آ گئیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ نوجوان ڈاکٹر عابد منیر اور ثاقب منیر کے ساتھ مل جانے سے پوری لوک بیٹھک ترتیب پا گئی۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ لوک ورثہ نے قومی ورثہ کو محفوظ کرنے اور اس کی حوصلہ افزائی کے لیے پندرہ روزہ لوک بیٹھک کا آغاز کیا ہے اور اس روایت کی امین میڈم زوبیہ ہیں۔اسی روایت کی کڑی کی طور پر پاکستان میں قومی سطح پر گوجری لوک بیٹھک کا پہلی دفعہ انعقاد کیا گیا۔اور اس کو چار چاند لگائے منیر احمد زاہد اور صفورہ زاہد نے ، خیال سے عمل تک ، تحریر سے پیشکش تک، شاعری سے نظم اور تاریخ تک اور لوک دھنوں پر بہترین آواز کا جادو جگانے تک کاعمل، جس کے لیے ایک ادارے کی ضرورت تھی صرف دو افراد نے کر کے دکھایا۔یقینا یہ ایک قابل تعریف اور قابل تقلید عمل ہے۔گوجری ادب ، ثقافت اور تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے اس جوڑے کی جدوجہد تا دیر یاد رکھی جائے گی۔
منیر زاہد نے جب اس محفل کے انعقاد کے بارے میں بتایا تو میں لاہور کے لیے رخت سفر باندھ چکا تھا۔اور وزیر اعلی پنجاب کے ساتھ ایک اہم میٹنگ تھی۔چندلمحے غور کیا اور پھر فیصلہ گوجری لوک بیٹھک کے حق میں تھا۔اپنے ہمدم دیرینہ قاری محبوب الرحمن جو کہ ایک یونین کونسل کے چئیرمن بھی ہیں۔ایک سوشل ورکر بھی اور علماء کے خادم اور ہمیشہ میرے ساتھ چلنے والے بھی، ان کو ساتھ لیا اور شکر پڑیاں کے دامن میں گھنے درختوں کے جھنڈ اور خوب صورت و خوب سیرت لوگوں کی محفل میں لوک ورثہ جا پہنچے۔تقریب کی میزبانی کے فرائض ڈائریکٹر محترمہ زوبیہ ، منیر احمد زاہد اور صفورہ زاہد نے مشترکہ طورانجام دیے۔ تقریب کے آغاز میں ڈائریکٹر محترمہ زوبیہ نے لوک بیٹھک کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔
محترمہ زوبیہ لگتا ہے کہ اسی مقصد کے لیے تخلیق کی گئی ہیں۔جس وارفتگی اور لگن کا مظاہرہ کیا اور شروع سے آخر تک بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کیا وہ میں نے اس سطح پر کم ہی دیکھی ہے۔ میاں محمد بخش کے حمدیہ کلام سے پروگرام کے باقاعدہ آغاز کے لیے منیر احمد زاہد کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی۔ جس کے بعد ان ہی کی لکھی ہوئی گوجری نعت بھی پیش کی گئی ۔ بعد ازاں لوک بیٹھک کی جانب سے منیر احمد زاہد اور صفورہ زاہد کو گوجری زبان و ثقافت پر گفتگو کی دعوت دی گئی۔
اس موقع پر منیر احمد زاہد نے ریاست جموں وکشمیر میں گوجری زبان وثقافت کی تاریخ ترویج اور اس کی ترقی کے لیے ہونے والے اقدامات پر روشنی ڈالی اور ویڈیو پروجیکٹر پر ویڈیو اور تصاویر کے ذریعے (جن میں گوجری کے افسانہ نگار محترم امین قمر صاحب کی پگڑی والی تصویر بھی نمایاں تھی) ریاست جموں وکشمیر میں گوجری زبان بولنے والوں کی زبان رہن سہن بودوباش طرزِ زندگی طرز تعمیر رسوم ورواج اور ادب کا احاطہ کیا خواتین کی زندگی اور گوجری زبان و ثقافت میں ان کے کردار کا احاطہ گوجری شاعرہ و لکھاری صفورہ زاہد نے کیا۔گوجری زبان کے شاعر و ادیب ڈاکٹر رفیق انجم ادیب و شاعر ڈاکٹر جاوید راہی کی خدمات کا بھی تذکرہ ہوا۔امین قمر صاحب کا ذکر خیر خصوصی طور میڈم ذوبیہ کے ساتھ ہوا امین قمر صاحب اتنے دور رہ کر بھی لگتا ہے کہ ہمارے پاس ہیں۔ گوجری ادب کی ترویج کے لیے اس پار جو کام ہوا ہم اس سے کوسوں دور ہیں۔پاکستان کے قومی اداروں کو لوک ورثہ کی تقلید کرنی چاہیے اور اس اہم ترین ادب اور ثقافت کو پروان چڑھانے کے لیے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے ۔
اس موقع پر بچوں کے حوالے سے طرزِ زندگی کا احاطہ گوجری کے نو آموز اور عمدہ نوجوان شاعر صفی ربانی نے کیا انہوں نے گوجری بچوں کے لیے ترنم سے نظم بھی پڑھی جسے بہت پسند کیا گیا۔ معروف محقق فاروق بیٹن نے تاریخی شواہد پر روشنی ڈالی جبکہ چن زیب نے لوک گیت پیش کیا جس میں اپنے بچھڑے ہووں کو ملنے کی خواہش کی گئی تھی ۔اس کے بعد تقریب کی میزبان محترمہ زوبیہ نے منیر احمد زاہد سے گوجری بیت سنانے کی فرمائش کی جنہوں نے معروف بیت ” دل ڈولتو ڈولتو ڈولتو رہ: عمدہ ترنم میں گا کر سامعین سے بھرپور داد وتحسین حاصل کی۔
اس کے بعد گوجری لوک گیتوں کا مرحلہ شروع ہو ا جس میں گوجری کے نوجوان ابھرتے ہوئے فن کاروں نے ڈاکٹر عابد اور ثاقب منیر نے گٹار اور ہارمونیم کی دھنوں پر مختلف گوجری گیتوں کے رنگ بکھیرے جنہیں سامعین نے بے حد سراہا اور کھل کر داد بھی دی۔
گیتوں کے مرحلے کے بعد شاعری کا دور شروع ہوا جس کے آغاز میں منیر احمد زاہد نے گوجری میں لکھی گئی اپنی معروف منظوم کہانی”باہر ملخ جان کا شونکی پوت کو ماں نال مکالمو ” پیش کیا جسے گوجری سمجھنے والوں کے علاوہ وہاں موجود دوسری زبانوں کے مصنفین ومحققین نے بہت زیادہ پسند کیا۔ اور اسے بہترین سبق آموز اور بیک وقت قاری و سامعین کو رلانے اور مسکرانے اور سوچنے سمجھنے پر مجبور کر دینے والی پر اثر اورسبق آموز کہانی قرار دیا منظوم مکالمے سنتے ہوئے اکثر سامعین سنجیدگی حیرت مسکراہٹ اور بے اختیار آنسو بہانے کی کیفیات سے گزرتے ہوئے نظر آئے ۔منتخب شاعری کے اس مرحلے میں بابائے گوجری رانا فضل حسین راجوروی کے فرزند رانا سرور نے ان کا کلام پیش کیا جبکہ گوجری کے ہر دل عزیز شاعر چودھری عبدالرشید نے مزاحیہ گوجری غزل” ہوں تے میرا ادا ” پیش کرکے سامعین کے قہقہوں سے ماحول کو خوش گوار بنادیا جس کے بعد سامعین کی پرزور فرمائش پر اس کا منظوم پہاڑی ترجمہ لکھنے والے شاعر منیر احمد زاہد سے "مہاڑے پہاپا” کے عنوان سے پہاڑی غزل سنی گئی۔
آخر میں صفورہ زاہد مقدم زادی نے بابائے گوجری کی لکھی گوجری لوک بار گوجری اور اردو دونوں زبانوں میں سناکر سماں باندھ دیا۔ اس لوک بار میں گوجر سردار جنہیں مقدم کہا جاتا تھا اور دیگر راجاؤں ڈوگروں کے درمیان چپلقلش جنگ اور جدوجہد کو عمدگی سے پیش کیا گیا ہے جس میں گوجر سردار مقدم وارث برسیا کو نڈر بے باک اور دلیر بتایا گیا ہے اور اس کی ماں اور بیوی کو انتہائی سمجھدار …. جسے سنتے ہوئے سامعین کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی کیفیت بار بار محسوس کی گئی۔
لوک بار کے بعد ہاؤس کو سوال وجواب کے لیے اوپن کیا گیا جس میں پیش کردہ مواد پر کھل کر بحث کی گئی اور اس کی خامیوں اور خوبیوں کا احاطہ کیا گیا۔
آخر میں محترمہ زوبیہ اور منیر احمد زاہد اور صفورہ زاہد نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا جس کے بعد سامعین کی چائے سے تواضع کی گئی۔ چائے کے دور میں منیر احمد زاہد سے لوک دھن میں عارفانہ گوجری کلام بھی سناگیا ۔
یہ خوبصورت تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔لیکن اس کی اہمیت اور افادیت اپنےاثرات دور تک مرتب کر گئی۔اور ہمارے جیسوں کو سبق بھی سکھا گئی کہ اس جانب توجہ کی اشد ضرورت ہے۔منیر احمد زاہد اور صفورہ زاہد داد کے مستحق اور ان کی قومی سطح پر پذیرائی اور حوصلہ افزائی دراصل گوجری ادب کی سرپرستی اور اس کو نہ صرف محفوظ کرنے بلکہ اس کوبہت آگے تک لے جانے کا سبب ہو گی۔