پیسہ نہ پلے، ہار گھناں کہ چھلے!

پھر وہی ہم دوستوں کی رات گئے محفل اور ملکی حالات کا رونا۔

ہم بیٹھتے تو گپ شپ کیلئے ہیں لیکن بات پھر ملکی حالات پر پہنچ جاتی ہے۔ ارشد شریف، راجہ عدیل، خاور گھمن، علی، ضمیر حیدر مستقل‘ تو باقی یار دوست آتے جاتے رہتے ہیں۔ بات پھر وہیں سے چھڑ گئی ملک کا قرضہ بڑھ گیا ہے‘ کیا ہو گا۔ ڈالر آسمان کو چھو رہا ہے۔ حکومتوں کے پاس ایک ہی حل ہے۔ غیر ملکی قرضہ لے لو، مقامی بینکوں سے کمرشل قرضہ لے لو۔ پٹرول، بجلی، گیس کی قیمتیں بڑھا دو۔ نئے ٹیکس لگا دو۔ اگلے سال چوبیس ارب ڈالرز کے قرضے ہم نے واپس کرنے ہیں۔ یہ پیسہ کہاں سے آئے گا۔ کوئی پتہ نہیں۔

ڈالرز کمانے کے چار طریقے ہیں۔ بیرون ملک سے پاکستانی گھر پیسے بھیجتے ہیں۔ ایکسپورٹس، ٹورازم اور آخری‘ راہداری فراہم کرکے کرایہ ڈالروں میں وصول کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب آخری لیڈر تھے جنہوں نے کوششیں کیں جن کی وجہ سے آج بھی ڈالر پاکستان آتے ہیں۔ بعد میں حکمرانوں نے عربوں سے ذاتی تعلقات بنائے لیکن مجال ہے مین پاور پر زور دیا ہو تاکہ ڈالر آتے اور اکانومی مضبوط پائوں پر کھڑی ہوتی۔ ہر حکمران ہمیں ایک ہی کہانی سناتا ہے‘ فلاں عرب ملک نے ایک لاکھ نوکریاں دینے کا کہا۔ یہ ایک لاکھ نوکریاں ابھی تک پاکستان نہیں پہنچیں۔ پھر ہنر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی صرف تعمیراتی سیکٹر میں ہی کام کر سکتے ہیں۔ عربوں سے حکمرانوں کی دوستیاں مثالی ہیں۔ سب نے اپنی ذات کیلئے استعمال کیں ملک کیلئے نہیں۔

پیپلز پارٹی نے دو ہزار تیرہ میں حکومت چھوڑی تو ایکسپورٹس چوبیس ارب ڈالرز کی تھیں۔ ہمیں یہ منجن بیچا جاتا رہا کہ اگر تاجروں اور بزنس مینوں کی حکومت ہو تو ملک بہت ترقی کرتے ہیں‘ یہ زمینداروں اور جاگیرداروں جیسے فرسودہ لوگ بھلا کیا جانیں جدید دور میں حکومتیں کیسے چلاتے ہیں۔ ان تاجروں نے جب پانچ برس بعد حکومت چھوڑی تو ایکسپورٹس اٹھارہ سے بیس ارب ڈالرز تک گر چکی تھیں۔ یہ تھے تجربہ کار حکمران۔ خرم دستگیر صاحب آج کل ہر ٹی وی چینل پر مخالفین کے منہ بند کر رہے ہوتے ہیں لیکن انہی کے دور میں ایکسپورٹس چار ارب ڈالرز گریں جبکہ نواز شریف نے انہی برسوں میں ایک سو سے زائد ممالک کے دوروں کے مزے لیے۔ جب بھی نئی حکومت آتی ہے تو تاجر اور بزنس مین وفد بنا کر وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور وزیر تجارت کو ملنے پہنچ جاتے ہیں۔ وہی پرانا راگ الاپا جاتا ہے کہ جناب پچھلی حکومت نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ۔ مارے گئے، لٹ گئے، برباد ہو گئے۔ ہمیں اگر نیا ریلیف پیکیج دیں تو ملکی خزانہ بھر دیں گے۔ پھر یہ سب مل کر اپنے لیے اربوں روپوں کا پیکیج لیتے ہیں جو عوام کی جیب سے ہی ان کی جیبوں میں جاتا ہے۔

پانچ سال بعد وہ پھر نئے وزیر اعظم کے سامنے بیٹھے وہی رام لیلا پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ فیورز لینے کے بعد بھی ایکسپورٹس کیوں نہ بڑھ سکیں؟ آج بھی اربوں ڈالرز کے لیپ ٹاپ اور فون امپورٹ ہو رہے ہیں۔ کسی نے کوشش نہ کی کہ یہی کارخانے پاکستان میں لگائے جاتے جیسے بھارت اور چین کر رہے ہیں۔ جتنی رعایتیں پاکستانی تاجروں نے لی ہیں‘ شاید ہی کسی نے لی ہوں لیکن اربوں کے قرضے معاف، اوور اور انڈر انوائسنگ کے نام پر مال بنانے اور ڈیوٹی میں رعایتیں لینے کے بعد بھی یہ لوگ خوش نہیں ہیں۔ رہی سہی کسر اب سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں پوری کر دی گئی ہے کہ اکثر ایکسپورٹر ڈالرز کا ریٹ اوپر لے جا کر ایکسپورٹ بڑھاتے بھی ہیں تو فائدہ وہ خود اٹھاتے ہیں نہ کہ ملکی معیشت۔ وہ انہی ڈالروں کو واپس لانے کی بجائے ان سے بیرون ملک جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ اور کرو ڈالر مہنگا!

اب رہ جاتا ہے ٹورازم۔ اس ملک میں کوئی کیسے آئے گا جہاں ایک سڑک بھی سلامت نہیں۔ روزانہ حادثوں میں لوگ مرتے ہیں اور حکمرانوں سے کہیں تو وہ کہتے ہیں: یہ ہمارا کام نہیں۔ ہر طرف گندگی ملتی ہے۔ شہروں کے شہر گندگی سے بھرے ہوئے ہیں۔ تاریخی مقامات‘ جہاں ٹورسٹ کو دلچسپی ہو سکتی تھی وہ تباہ ہو چکے ہیں۔ سکھ خوش قسمت نکلے کہ وہ پنجاب سے تھے لہٰذا ان کے مقامات کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔ ہندوئوں کے مقدس مقامات کا برا حال ہے۔ ہر جگہ قبضے کر لیے گئے یا مندروں کو گرا دیا گیا۔ بھارتی ہندو بڑی تعداد میں ہڑپہ، ٹیکسلا اور موہنجوداڑو آسکتے تھے لیکن یہ باتیں ہماری ترجیح نہ تھیں۔ ہمارے پاس نہ سڑکیں، نہ ہوٹل اور نہ ہی ہم نے بھارت کی طرح تاریخی مقامات کو محفوظ رکھا ہے‘ جس سے ہم بھی اربوں ڈالرز کما سکتے تھے۔ ہر دفعہ شمالی علاقوں کے ٹورازم کی کہانی بیچی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔ آپ لاکھ آن لائن ویزہ کر دیں‘ جب تک آپ شہر صاف، سڑکیں ٹھیک، تاریخی مقامات کی حفاظت اور مرمت اور اپنے لوگوں کی تربیت نہیں کریں گے، کوئی نہیں آئے گا۔

اب آجائیں راہداری کے ایشو پر۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم کون لوگ ہیں۔ دنیا بھر سے بھیک مانگیں گے لیکن جو اپنا حق ہے وہ نہیں لیں گے کیونکہ ہمارا دل بہت بڑا ہے۔ امریکیوں کو گیارہ ستمبر کے بعد افغانستان میں اپنی فوجوں کیلئے پاکستان سے راستہ چاہیے تھا۔ جنرل مشرف نے وہ راستہ دیا۔ دو ہزار تیرہ میں یہ راز کھلا جب فارن افیئرز کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر صغریٰ امام نے سرتاج عزیز اور جلیل عباس جیلانی سے پوچھا: پاکستان نے امریکیوں سے فی کنٹینر کیا ڈیل کی تھی؟ جواب ملا: سب کچھ فری جا رہا ہے۔ صغریٰ نے پوچھا: جب سلالہ حملے کے بعد یہ کنٹینر بند ہوئے تھے تو پھر امریکہ نے کیسے سامان افغانستان پہنچایا؟ جواب ملا: ایک سینٹرل ایشیائی ملک سے۔ صغریٰ نے پوچھا: پھر اس ملک نے فی کنٹینر چارج کیا یا فری؟ جواب ملا: سترہ سو ڈالرز فی کنٹینر۔ صغریٰ نے پوچھا: آپ کیوں برسوں سے امریکہ کو فری راہداری دیے بیٹھے ہیں؟ جواب ملا: Goodwill کی خاطر۔ اندازہ کریں ہم اربوں ڈالرز کے مقروض ہیں اور ان کنٹینروں کے گزرنے سے ہر سال اربوں ڈالرز کما سکتے تھے لیکن ہم گڈول کے نام پر یہ سہولت مفت دیے ہوئے ہیں۔

کچھ پتہ نہیں کہ چین کو ہم نے جو راہداری دی ہے کہ وہ گوادر کے ذریعے دنیا تک پہنچے اور اپنا کاروبار بڑھائے تو اس کے بدلے ہمیں فی کنٹینر کیا ملے گا؟ چلیں چین والے دوست ہیں۔ ہزار ڈالر فی کنٹینر نہ سہی پانچ سو ڈالر ہی دے دے۔ چین خود راہداری سے ڈالرز کمائے گا تو ہمیں کیوں شیئر نہیں دے گا‘ جو ہمارا حق بنتا ہے؟ لیکن لگتا ہے وہ بھی گڈول کے نام پر مفت راہداری لے گا۔

ہم نے بھارتی سکھوں کو کرتارپور تک مفت راہداری دے دی ہے۔ بڑا اچھا کیا۔ میں ٹی وی شوز میں چلاتا رہ گیا کہ خدا کیلئے کچھ فیس ڈالروں میں رکھ لو۔ آپ ہر سکھ کو انٹری فیس کے نام پر سو ڈالرز ہی لگا دیں‘ وہ خوش ہو کر دے گا۔ آپ ڈیلی، ویکلی، پندرہ روزہ، ماہوار یا سہ ماہی انٹری کارڈز جاری کریں اور ہر ایک کارڈ کا ڈالروں میں ریٹ مختلف ہو۔ بارڈر پر سٹیٹ بینک کی مشین رکھ دیں، جو سکھ آئے اسے انٹری کارڈ دیں اور کریڈٹ کارڈ سے ڈالرز میں فیس کاٹ لیں۔ ہر سال کروڑوں ڈالرز کما سکتے ہیں۔ لیکن پھر ہماری گڈول کا کیا بنے گا؟ سکھ کیا سوچتے کہ پاکستانی اتنے کنجوس ہیں‘ ڈالرز مانگتے ہیں۔ امریکیوں کو گڈول، چینیوں کو گڈول اور اب سکھوں کو بھی گڈول کے نام پر سب کچھ فری۔ ہم دنیا بھر سے بھیک مانگ کر یہ گڈول کب تک کرتے رہیں گے‘ جب پاکستان ایک ایک ڈالر کیلئے ہاتھ پائوں ماررہا ہے؟

اے بے رحم حکمرانو! کچھ رحم کرو۔ پہلے خود کو سنبھال لیں پھر یہ گڈول اور حاتم طائی بننے کے ڈرامے کر لیجیے گا۔ اب ڈالرز آسمان سے ٹپکنے سے تو رہے۔ اپنی حالت تو وہی ہوچکی جو قیصرہ شفقت صاحبہ نے سرائیکی کہاوت میں لکھ بھیجی ہے۔
پیسہ نہ پلے، ہار گھناں کہ چھلے۔
( جیب میں ایک روپیہ نہیں، سوچتی ہوں ہار خریدوں یا انگوٹھی) ۔
جیب میں ایک ڈالر نہیں‘ ہم چلے ہیں امریکیوں، چینیوں‘ سکھوں کی گڈول لینے۔

خدا نے پاکستان کو جغرافیائی طور پر بہترین موقع دیا تھا۔ ہم امریکیوں، چینیوں اور سکھوں سے اربوں ڈالرز کماتے لیکن ہم نے ڈالروں کی بجائے دنیا بھر سے بھیک، قرضے اور امریکیوں، چینیوں اور سکھوں کی Goodwill خریدنے کو ترجیح دی۔ ہمارے جیسے ”سیانے‘‘ بھلا دنیا میں کہاں پائے جاتے ہوں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے