جنوبی افریقہ کے آنجہانی رہنما نیلسن مینڈیلا نے کیا خوب کہا تھا کہ اگر آپ کسی شخص سے اس زبان میں بات کریں جسے وہ سمجھتا ہو تو بات اس کے دماغ میں جاتی ہے لیکن اگر آپ کسی شخص سے اس کی زبان میں بات کریں تو وہ سیدھی اس کے دل میں اترتی ہے۔پاکستان میں ان زبانوں کی صحافت ترقی کر ہی نہیں پائی جو عام لوگ سمجھتے ہیں۔ مرکزی دھارے کی صحافت اردو اور انگریزی زبانوں میں تقسیم ہے۔ وجہ صحافت نہیں بلکہ حکمران طبقے کی یک رنگی سوچ رہی ہے۔
پاکستانی صحافت میں اردو سب سے زیادہ موثر اور معروف زبانِ اظہار جبکہ انگریزی سب سے زیادہ بااثر زبان ہے۔ سندھی، پشتو، بلوچی اور سرائیکی جیسی موثر اور خوبصورت زبانوں میں بھی صحافت ہو رہی ہے لیکن کسی حکومتی یا ریاستی سرپرستی کے بغیر۔ہمارے تمام مرکزی دھارے کے ٹی وی چینلز اردو زبان میں ہیں۔ انگریزی کا میدان فی الحال خالی ہے۔ اخبارات میں انگریزی زبان میں اکثر وہ باتیں اور خبریں بھی شائع ہو جاتی ہیں جو اردو اخبارات میں شائع کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ انگریزی چونکہ اشرافیہ کی زبان ہے اس لیے اس زبان پر بظاہر ہاتھ ہولا رکھا گیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کڑا ہوتا جا رہا ہے۔
اردو زبان چونکہ عوام کی کثیر تعداد سمجھتی ہے اس لیے اس میں لکھنے والوں کی احتیاط اور متعلقہ حکومتی اداروں کی مانیٹرنگ بھی موجود ہے۔ لہٰذا قابلِ برداشت باتیں ہی کی جا سکتی ہیں۔ اردو اور انگریزی خبروں کی ترسیل میں مصروف صحافیوں کو بھی دیکھ لیجئے۔ اردو زبان کے اخباروں کے صحافی مکمل طور پر روایتی نظر آئیں گے۔ ان کی سوچ، طرزِ تکلم اور اہم قومی امور پر رائے بھی اکثر روایتی ہوگی لیکن ظاہر ہے کچھ غیر روایتی کردار بھی موجود ہیں۔ ادھر انگریزی زبان کی صحافت کرنے والے اردو والوں سے بالکل الٹ۔ اردو والے عام طور پر اردو میڈیم اسکولوں یا مدرسوں کی پیداوار اور انگریزی والے انگریزی میڈیم طرزِ تعلیم کا شاہکار۔ ظاہر ہے اس پس منظر میں میڈیا کے اندر کی جانے والی بحثیں اور اٹھائے جانے والے سوالات بھی ایسی ہی تقسیم کا شکار ہیں۔
مجھے چونکہ دونوں زبانوں کے اخبارات اور ٹی وی چینلز میں کام کرنے کا اتفاق ہوا ہے اس لیے میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ انگریزی صحافیوں کی زیادہ دوستیاں بھی انگریزی صحافت کے سرکل میں ہی رہتی ہیں۔ صحافت سے ہٹ کر عام طور پر وہ بیورو کریٹ اور سیاستدان ہی ایسے صحافیوں کو اہمیت دیتے ہیں جو انگریزی اور اس کے اثر سے واقف ہوتے ہیں۔ گزشتہ سترہ سال میں اردو ٹی وی چینلز نے البتہ انگریزی صحافت کو گہنا دیا ہے۔ اب ٹی وی چینلز پر آنے والے چہرے عوامی شناخت اور شہرت کے حامل ہونے کے باعث زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔
لیکن پھر بھی لکھے ہوئے لفظ کی اہمیت ٹی وی کی ہر لمحہ ناچتی اسکرینوں سے کہیں زیادہ موثر اور دیرپا ہے۔ جدید دور میں ٹیکنالوجی اخبارات کی اشاعت اور سرکولیشن دونوں کو ابدی نیند سلانے کے لیے کامیابی سے کوشاں ہے۔ شاید پاکستان میں آئندہ آنے والے چند سالوں میں اخبارات کی اشاعت بند ہو جائے اور وہ مکمل الیکٹرونک ورژن میں ہی دستیاب ہوں ہاں بڑے اخبارات ٹیکنالوجی کے ہاتھوں بے بس ہوتے باقیوں کی نسبت زیادہ وقت لیں گے۔ ٹیکنالوجی اخبارات کو مکمل طور پر سکیڑکر ٹیلی فون اسکرینوں تک محدود تو کر دے گی لیکن لکھا ہوا لفظ اور معیاری صحافت کا متبادل ابھی تک ایجاد ہوا، نہ ایسا آسانی سے ممکن ہوگا۔
جدید دور میں اردو انگریزی صحافت اخبارات کے میدان سے نکل کر سوشل میڈیا بالخصوص ٹویٹر کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہے۔ پتا نہیں آج کے دور کی صحافتی تاریخ کیسے لکھی جائے گی لیکن چند سال قبل، اکمل شہزاد گھمن نے میڈیا منڈی، نامی کتاب لکھ کر پاکستان کی صحافتی تاریخ ضرور لکھی ہے۔ میرے خیال میں اکمل شہزاد کی کتاب کو تمام یونیورسٹیوں کے تاریخ اور جرنلزم کے شعبہ جات میں زیر تعلیم طلبہ کے نصاب کا لازمی حصہ قراردیا جانا چاہیے۔
ٹیکنالوجی کے رنگ میں ڈھلتی صحافت اپنی جگہ مگر صحافی کی اہمیت بدستور برقرارہے۔ گزشتہ بارہ سالوں میں پاکستانی صحافت میں دو صحافیوں نے اپنی تحریروں سے جتنی عزت کمائی ہے وہ چند بڑے ناموں کے علاوہ کم ہی باقیوں کے حصے میں آئی۔جنگ گروپ کے عمر چیمہ اور انگریزی روزنامہ ڈان کے سیرل المیڈا کی خبروں اور تحریروں کو گزشتہ دس سالوں میں اخبارات سے نکال دیا جائے تو شاید تاریخ ادھوری رہ جائے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ باقی صحافیوں نے کچھ کام نہیں کیا بلکہ بات یہ ہے کہ ان دونوں کا کیا ہوا کام ملکی تاریخ پر زیادہ موثر طریقے سے تاثر چھوڑ کر گیا بلکہ ان کی بعض خبروں اور تحریروں نے کچھ ایسے تاریخی واقعات کو جنم دیا جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
سیرل المیڈا کی انگریزی اخبار ڈان میں شائع ہونے والی تحریریں کسی کلاسک سے کم نہیں۔ وہ انگریزی اخبار پڑھنے والوں کے لیے جانا پہچانا نام تھے مگر چھ اکتوبر 2016انہوں نے اپنے اخبار میں چند روز قبل وزیراعظم ہائوس میں منعقد ہونے والے اجلاس کی اندر کی کہانی شائع کی تو ملک میں ایک تلاطم آگیا۔ ان کی خبر ایک سیاسی تنازع کا حصہ بنی جو ڈان لیکس اسکینڈل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہی اسکینڈل بعد میں نواز شریف کی اقتدار سے فراغت کی دیگر وجوہات میں سے ایک اہم وجہ بھی بنا۔
سیرل نے 2017ء میں سابق وزیراعظم نواز شریف کا ایک غیر معمولی انٹرویو بھی کیا۔ اس انٹرویو کو بھی متنازع بنایا گیا اور ان پر سابق وزیراعظم کے ہمراہ غداری جیسا سنگین مقدمہ بھی بنا جو ابھی تک لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔ انہیں ڈرایا دھمکایا گیا مگر وہ ڈٹے رہے۔ خوشی ہے کہ اب انہیں انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ جیسے مستند ادارے نے دنیا بھر میں آزادی صحافت کا ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔ دی نیوز اور جنگ گروپ کے عمر چیمہ ملک کا جانا پہچانا نام ہیں۔ ان کو قومی سطح پر بڑے اسکینڈلز عوام میں بے نقاب کرنے کا کریڈٹ جاتا ہے۔
جمہوریت کش عناصر ہوں، طاقتور ٹیکس چور یا پاناما اسکینڈل کے کردار چیمہ نے تمام کو بے نقاب کیا۔ نتیجے میں چیمہ پر حملے بھی ہوئے اور اس کی ذات کو عوام میں متنازع بنانے کی مہمیں بھی چلائی گئیں مگر عمر چیمہ اب تک ڈٹ کر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ عمر چیمہ کو بھی عالمی سطح پر پریس فریڈم کے اعزازات سے نوازا گیا۔ آج کے دور میں سچ بولنا سب سے مشکل کام ہے کیونکہ طاقتوروں کے پاس سچ سننے کی جرات نہیں۔ اس ماحول میں سچ بولنے والے صحافیوں کو صحافت کے مواقع فراہم کرتے رہنے پر جنگ اور ڈان کے مالکان بھی تحسین کے لائق ہیں۔