"رودادِ محبت”

یہ 23 اپریل کا دن تھا۔میں اسکول کے دفتر میں بیٹھا نسخہ ہائے وفا پڑھ رہا تھا۔ جب منیر احمد زاہد صاحب کا محبت بھرا پیغام موصول ہوا کہ تم نے 25 اپریل کو لوک ورثہ اسلام آباد میں گوجری لوک بیٹھک میں شرکت کرنی اور گوجری بولنے والے بچوں کی دلچسپیوں پر بحث کرنی ہے۔یہ پیغام ایسی شخصیت کا تھا جس سے ملاقات کے لیے میں گذشتہ دو سال سے بے تاب تھا۔اس لیے انکار کا کوئی سوال ہی نہ تھا البتہ کچھ مجبوریاں آڑے آ رہی تھیں جنہیں دستِ قدرت نے رفع فرما دیا۔عجلت میں جو ٹوٹے پھوٹے الفاظ جوڑے اور "سفر شرط مسافر نواز بہتیرے” کے کلیے پر علم کرتے ہوئے چل نکلا۔خیال تھا کہ مجھ سا نالائق طالب علم کیا پیش کرے گا البتہ اپنے دامن میں کچھ محبتوں کے پھول ضرور آئیں گے۔

دورانِ سفر زاہد صاحب نے بار ہا رابطہ کیا جیسے کسی خاص مہمان کی آمد ہو۔یہ یقیناً ان کی محبت اور وسعتِ ظرفی کا ثبوت ہے ورنہ کہاں چراغِ شب اور کہاں آفتابِ عالم تاب۔قصہ مختصر جائے مقررہ پر پہنچا، پروگرام کا انتظام و انصرام دیکھ کر انگشت بدنداں تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ پورا کا پورا خاندان اپنی قوم اور زبان کی ترویج و ترقی میں اس قدر بے ریا جذبوں سے سرشار ہے۔میں نے بیشتر ادیبوں کے بارے میں سنا اور پڑھا جو ساری عمر زبان کے نام پر کھاتے رہے مگر خود ان کے گھروں سے کوئی زبان کا خادم پیدا نہ ہوا۔مولا کریم زاہد صاحب اور ان کی فیملی کے ان جذبات کو قبول فرمائے ۔ان کی اس درجہ ادب و ثقافت سے محبت دیکھ کر بارہا ذہن میں یہ شعر گردش کرتا رہا کہ:

ایں سعادت بہ زور بازو نیست
تا نہ بخشند خدائے بخشندہ

پروگرام کا بہترین آغاز منیر زاہد صاحب نے کلامِ میاں محمد بخش سے کیا….. آہا.. کیا پرسوز آواز تھی” جیسے جھرنوں سے محبت کے کئی ساز چھڑیں” ۔ان کے بعد دیگر زعمائے محفل نے اپنی حکمتوں کے رنگ بکھیرے اور گوجری تہذیب کا خوبصورت عکس دنیا کے سامنے پیش کیا۔ زاہد صاحب کے فرزندوں نے جب گوجری کلام عنادل کے سحر خیز ترانوں کی پیش کیا تو اہلِ محفل خود کو وادیِ کشمیر کی کسی ڈھوک میں محسوس کرنے لگے۔جبکہ ان کی اہلیہ محترمہ صفورہ زاہد مقدم زادی نے گوجری کی لوک کہانی” اللہ موڑے مقدم وارث کو راج” پیش کی جس کا تعلق جموں و کشمیر سے ہے۔ ایک کینسر کی مریضہ کا اس والہانہ انداز میں اک طویل کہانی پیش کرنا لائق صد تحسین ہے(اللہ پاک موصوفہ کو صحت کاملہ عطا فرمائے)۔مجھ نالائق طالب علم کو بھی موقع دیا گیا، پیشکش اور نظم بعنوان "طفلانِ کہسار” پر اہلِ محفل نے بہت محبتوں سے نوازا ۔تمام تر رنگینیوں، حکمتوں اور محبتوں سے بھرپور یہ پروگرام کامیابی کا سہرا باندھے اختتام پذیر ہوا ۔

اگلے مرحلے میں سب سے مصافحہ و معانقہ اور تعارف کا سلسلہ شروع ہوا۔چونکہ میں فطرتاً شرماتا ہوں تو اس لیے میرا تعارف ہر ایک سے منیر زاہد صاحب نے ہی کروایا۔ وہ جس طرح محبت اور والہانہ انداز سے اک ایک سے تعارف کرواتے تھے اس نے مجھے گرویدہ بنا دیا۔سچ پوچھیں تو اس محفل سے جو چیز میں سب سے زیادہ اور دائمی(ان شاء اللہ) لے کر آیا ہوں وہ زاہد صاحب اور ان کی فیملی کی بے پناہ و بے ریا محبت ہے۔ میں نے اپنی مختصر زندگی میں اتنی والہانہ محبت کسی سے نہیں پائی۔اس وقت اور یقیناً آخری سانس تک ان کی اس ملاقات سے سرشار رہوں گا ۔احمد فراز ؔ نے کہا تھا :

بے فائدہ ہے زیست میں احباب کا ہجوم
ہو پیکرِ خلوص تو لشکر ہے ایک شخص

یقیناً یہ میری خوش بختی ہے کہ مجھے وہ پیکر خلوص شخص مل گیا جو اپنے آپ میں لشکر ہے۔رب کریم اس محبت کے رشتے کو دائم آباد رکھے اور تمام تر خوشیوں اور مسرتوں سے سرفراز فرمائے آمین ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے