"مقتدر قوتوں کو اب فیصلہ کرنا ہوگا "

حکومت،اقتدار،تنسیخ و بحالی دساتیر اور صدارتی نظام کے جھگڑے، ان کے بارے میں مسلسل مباحثوں سے، نوجوان نسل اس قدر الجھاو کا شکار ہے کہ اپنے وطن کے مستقبل پر اس کا یقین ڈگمگانے لگا ہے۔میڈیا ہاوسز تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں،اینکرز حضرات نے اپنا اپنا قبلہ بنالیا،جہاں شب و روز اپنے آقاوں کی شان میں قصیدے گاتے دکھائی دیتے ہیں،اقتدار کے اس کھیل میں اپنی رائے کو درست ثابت کرنے کے لیے دلائل کے انبار لگا دیے جاتے ہیں۔اس بات سے ان کا کوئی سروکار نہیں کہ ہماری نئی نسل کیا حاصل کر رہی ہے،ان کے زہنوں پر کیا اثر پڑے گا؟ ہمارے ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ہمارے حکمران آکسفورڈ اور نہ جانے کہاں کہاں سے تعلیم یافتہ ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں،مگر تہذیب،ثقافت،ادب سے ان کا دور تک کوئی واسطہ نہیں،نہ ہی ان کا علمی روایات سے کوئی رشتہ ہے۔

سیاست کا یہ گندا کھیل نہ جانے کب ختم ہوگا۔ انا پرستی،مخالفت میں، مقتدر قوتوں نے ہماری سیاسی جماعتوں کے چہروں پر وہ کیچڑ تھوپ دیا،اب اپنی منتخب کردہ سیاسی جماعت کی ناکامی کے بعد، ان کے چہروں کو صاف کرنے، اپنے ہاتھوں سے منہ دھلوانا معیوب سا لگ رہا ہے۔ دوسری جانب اپنے کیے پر افسوس بھی ہو رہاہوگا۔ہونا بھی کیوں نہیں چاہیے،شادی کی تقریب سے حقیقی دلہا بھاگ جائے،باراتیوں میں سے کسی ایک کو موقع کی مناسبت کو غنیمت جانتے ہوئے دلہا بنا دیا جائے،پھروقت آنے پر اس کی اصلیت و معیار سامنے آئے یقینا بھت بڑا دکھ ہوتا ہے۔

اکستان ایک جمہوری ملک ہے۔یہاں عوام اختیارات کے بادشاہ گرہیں۔آئین پاکستان کہتا ہے کہ ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتے،مطلب جمہوری عمل کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا سکتے،دستور یہی رہا ہے کہ ہمیشہ انگلیوں کا رخ اسی جمہوری نظام کی طرف رہا۔یہاں اقتدار کا سرچشمہ عوام نہیں،کوئی اور ہے۔ظلم یہ ہے کہاانہی مقتدر قوتوں کے اشاروں پر کبھی شوق سے،کبھی اندھی عقیدت،لا علمی،غفلت اور کبھی سیاسی مجبوریوں کے پیش نظرناچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،یہاں وہی صاحب اقتدار ہے جن کا کھلے عام ذکر نہیں کیا جا سکتا۔اقتدار انہی کی مٹھی میں ہے،جس طرف وہ اپنی مٹھی کھول دیں اقتدار کے دروازے اسی سمت کھلنا شروع ہوتے ہیں۔ملک کے حکمران،حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں،انہیں کی مرہون منت ہیں۔

سبھی کامیابی کے لیے اس در کے داعی بھی ہیں۔موجودہ سیاسی ماحول میں حقیقت کی زمین پر دور حکومت کو طوالت بخشنے کے لیے،کردار کشی کی جوفصل اگائی گئی،وہ اپنی آلودگی،تفریق و خود غرضی کے غلبے کی وجہ سے، نفرت اور عداوت کے زہر میں ڈوب کر جو معاشرہ تشکیل دے رہی ہے،دہکانی عوام اس بناوٹی اناج کو صحت بخش غذا سمجھ رہے ہیں،جو تھوڑی بھت عقل و شعور رکھتے ہیں خاص پروپیگنڈے کے ذریعے دیوار سے لگا دیا گیا۔ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں غریب کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے والا دیکھتے ہی دیکھتی خود امیری کے درجے با آسانی چڑھ جاتا ہے مگر غریب کی حالت جوں کی توں رہتی ہے۔غریب صرف استعمال ہوتا ہے،روپے بٹورنے یا سیاست چمکانے کے لیے۔

سوال یہ کہ مجھ جیسے گوشہ نشین لوگ ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں سمجھ لیتے اوراندازے کر لیتے ہیں،تو الیکشن سے قبل بڑے بڑے دعوے کرنے والے ہمارے سیاست دان دانشور حضرات جو کہ عوام کی رہنمائی اور رہبری کے دعویدار ہیں،عوام کے مسائل کی گہرائی میں اتر کر انہیں سمجھ کیوں نہیں پاتے،ان کی زبانوں اور زہن میں ایک ہی بول ریکارڈ کیا ہوا سننے کو ملے گا،پچھلی حکومتوں نے یہ کیا،پچھلی حکومتوں نے وہ کیا، گویا اپنے 9ماہ کا حساب دینے کو کوئی تیار نہیں،بلکہ اپنے وزرا کو نا اہل اور ناکام تسلیم کرتے ہوئے دوسری وزارتوں پر عوام کی خدمت کے لیے تھوپ دیا گیا۔عوام اب بھی ان سے سراپا سوال ہے آیا یہ وزرا ء اہل ہیں یا نہیں؟اگر قابل ہیں اوراپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا سکتے ہیں، انہیں وزارتوں سے کیوں نکالا گیا؟اگر نہ اہل ہیں تو دوبارہ دوسری اہم وزارتوں پر کیوں بٹھایا گیا؟سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جس احتساب کے راگ آلاپہ جا رہا ہے،وہ احتساب کا عمل اپنے ہی وزراء کے لیے سست کیوں ہے؟ان کے نیب کیسز طوالت کا شکار کیوں ہیں؟

بہت سے سوالات عوام کے زہنوں میں زیر گردش ہیں۔اسٹیٹس کو ختم کرنے والے حکمرانوں خود اسی کے حامی نکلے،روایتی اور موروثی سیاست کے کلاف علم بغاوت اٹھانے والے،اپنے قریبی بنا منتخب ہوئے دوستوں کو نظریاتی کارکنوں اور عوامی طاقت سے منتخب ہونے والے ایم پی ایز اورایم این ایز پر فوقیت دی گئی،وفاق ہو یا صوبہ ہر جگہ یہی حال ہے۔مہنگائی کا جن ایسا بے باقابو ہوا کہ اب کنٹرول میں آنے کا نام ہی نہیں لیتا۔لا ء ایند آرڈر کی یہ صورتحال ہے کہ بس کیا کہنے ۹ ماہ کے عرصے میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے تین دفعہ آئی جی تبدیل ہوا مگر تبدیلی نہ آسکی۔

دیس کی ایسی حالت دیکھ کران کنگ میکرز کی اب فیصلہ کرنا ہی ہوگا،ان کی سلیکشن پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے؟ اس سے قبل عوام کا سیلاب ان کے فیصلوں کو بہا لے جائے، تاریخ میں ناکامی کی مہر ثبت ہو،قبلہ درست کرتے ہوئے زمینی حقائق کے پیش نظر مزید تجربات کرنے کی بجائے،اختیاارت عوام کے سپرد کر دینے چاہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے