میں نے اپنے گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ : ”ججوں کے خلاف شکایات کیوں پیدا ہوتی ہیں ، پر الگ کالم زیر تر تیب ہے ” ، وہ کالم نذر قارئین ہے-
انصاف کرنا بنیادی طور انتظامیہ کی ذمہ داری ، اس کا ایسا کرنے میں ناکامی یا نہ کرنے کی صورت میں یہ ذمہ داری عدلیہ کو ادا کرنا پڑتی ہے -جج خواہ ماتحت سطح کا ہو ، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا ہو ، جس میں چیف جسٹس بھی شامل ہیں، فرائض منصبی کے اعتبار سے سب ایک حیثیت کے حامل ہوتے ہیں، صرف اختیارات ، اپیل اور حفظ مراتب کی درجہ بندی کے لحاظ سے ان میں فرق اور ایک دوسرے پر فوقیت ہوتی ہے –
قانون کے تحت قائم ہر درجہ کے جج کا فیصلہ اس وقت تک محترم اور قابل نفاذ ہوتا ہے جب تک اس کو بالا عدالت منسوخ نہ کرے یا قانون سازی کی وجہ سے اس کی حیثیت زائل نہ ہو جائے – ماتحت عدالتیں قانون کے تحت قائم ہوتی ہیں ، ان کے فیصلوں کا اطلاق صرف فریقین کی حد تک ہوتا ہے جبکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ آئین کے تحت قائم ہوتی ہیں، اس لیے ان کے وہ فیصلے ہمہ گیر اہمیت کے حامل اور ریاست کے اندر سارے ادارے اس تشریح کے پابند ہوتے ہیں ، ان کی حیثیت قانون جیسی ہوتی ہے – اس کو قانونی زبان میں Judgement in rem کہتے ہیں- تاہم ان کے وہ فیصلے ہمہ گیر اہمیت اور اطلاق کے حامل نہیں ہوتے جو دو فریقین کے درمیان ان کے مخصوص حالات کے پیش نظر صادر کیے گئے ہوں، اس کو قانون کی زبان میں Judgement in personam کہتے ہیں، تاہم اگر ان میں قانون کی روشنی میں کو اصول وضع کیا گیا ہو اس اصول کی پابندی بھی سب پر لازمی ہے –
قانون کے تحت قائم ہونے والی عدالتوں میں تقرریوں کے لیے ایک معیار اور طریقہ کار مقرر ہوتا ہے ، مجاز ادارے ان میں تقرری کے لئے اشتہار دیتے ہیں، معیار پر پورا اترنے والے امتحان میں شامل ہوتے ہیں ، کامیاب امیدواروں میں سے میرٹ پر پورا اترنے والوں کی تقرری مجاز اتھارٹی کرتی ہے – یہ تقرریاں بالعموم قانونی معیار کے مطابق میرٹ پر ہونے کی وجہ سے Transparent ہوتی ہیں، اگر ان میں کوئی قانونی سقم پایا جائے تو آئینی عدالتیں اس کا تدارک اور ازالہ کرنے کا استحقاق اور اختیار رکھتی ہیں ، اس لئے ان میں سیاسی فیصلوں کا عمل دخل کم سے کم ہوتا ہے ، لہذا یہ متنازع صورت اختیار نہیں کر تیں – تاہم تقرری کے بعد اس جج کا طرز عمل اس کو قابل قبول یا متنازع بنا دیتا ہے، یہ اس کا ذاتی فعل ہے –
ان کے برعکس اعلیٰ آئینی عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے لیے تجربہ کا معیار اور طریقہ کار مقرر ہے لیکن نہ ان کی تقرری کے لیے پوسٹیں مشتہر ہوتی ہیں، نہ کوئی مقابلے کا امتحان اور نہ کسی مسابقت کے دور سے گزرنا پڑتا ہے – آزاد کشمیر میں ہائی کورٹ میں جج کی تقرری کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ہائی کورٹ کی سفارشات پر چئیرمین کشمیر کونسل کی ہدایت کے مطابق صدر آزاد کشمیر ان کی تقرری کے احکامات جاری کرنے کے پابند ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے جج کے لئے صرف چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سفارش مطلوب ہے –
چیف جسٹس صاحبان آئین کے مطابق صرف اتنا یقینی بنانے کے پابند ہیں کہ جج کے لیے نامزد کیے جانے والا شخص آئین کے تحت مقررہ عمر اور تجربہ کا حامل ہے – تاہم اس سفارش میں ان کا یہ ذاتی یا معلوماتی ادراک باور کیا جاتا ہے ، اور ایسا کرنا ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ، متعلقہ شخص، کردار ، اہلیت، امانت، دیانت ، عملیت ، قابلیت، دیدہ وری، سوجھ بوجھ ، معاملہ فہمی، غیر جانبداری ، بے خوفی اور منصفانہ صفات کا حامل ہے ، تاہم یہ فیصلہ ان کا ذاتی ہوتا ہے کہ ”کون کون ہے اور کیسا ہے” ، یہ فیصلہ روایات ، ان کے ضمیر اور ظرف کا ہے ، جس کے لئے وہ خدا کے ہاں جواب دہ ہیں – اس نامزدگی کی بنیاد پر فیصلہ انتظامیہ نے کرنا ہوتا ہے جس کے پاس اپنی معلومات ہوتی ہیں -یہاں سیاسی یا ذاتی مفادات شامل ہو جاتے ہیں ، اس لحاظ سے یہ سیاسی فیصلہ ہوتا ہے لیکن انتظامیہ چیف جسٹس صاحبان کے متفق علیہ ناموں سے باہر نہیں جا سکتی اور دونوں چیف جسٹس صاحبان کی رائے کی ایک جیسی حیثیت ہے کیونکہ آئین کے الفاظ دونوں کے حوالے سے ایک جیسے ہیں –
ٹرانسپیرنٹ پراسس یا شفاف طریق کار کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ تقرریاں ملک بھر میں بالعموم جبکہ آزاد کشمیر میں بالخصوس سب سے زیادہ متنازع ہو جاتی ہیں کیونکہ محدود معاشرہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہر شخص متعلقہ لوگوں اور ان کے طریقہ واردات اور ان کی دلچسپیوں اور ترجیحات کو جانتا ہے – پاکستان کے آئین کے تحت ایک کمیشن بنا کر کسی حد تک اس کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس میں اب بھی سپریم کورٹ نے اپنی بالا دستی ٹھونسی ہوئی ہے، جبکہ آزاد کشمیر میں یہ معاملہ صرف چیف جسٹس صاحبان اور انتظامیہ کے مابین ہی ہے جو ہمیشہ سے مصلحت پر مبنی اور manageable رہا ہے-
چیف جسٹس صاحبان کی سفارشات کے بعد فیصلہ انتظامیہ نے کرنا ہوتا ہے جو بہر حال سیاسی ہوتا ہے – اگر بدلا نہ گیا توہر وقت ہر تقرری متنازع ہی رہے گی – اس طرف توجہ کی ضرورت ہے – اگر اس تقرری میں آئین کی کسی شق یا مسلمہ آئینی اور عدالتی روایات کی خلاف ورزی ہوئی ہو تو عدالت العالیہ میں تقرری کو چیلنج کیا جا سکتا ہے جس پر فیصلہ عدالت کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ آئینی عدالت ہے جس سے عدالت کی اپنی اور تعینات ہونے والے ججوں کے علاوہ قوم اور حکومت کی ساکھ داؤ پر لگی ہوتی ہے – یہ معمولی بات نہیں – اس سے بھی زیادہ ادارہ اور بالخصوص متعلقہ ججز کی عزت اور ناموس داؤ پر لگی ہوتی ہے -اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل ہو سکتی ہے، جب دو بڑی عدالتوں کی رائے ان کے حق میں یا خلاف آجائے تو سب کی ساکھ بحال ہو جائے گی، کوئی اس سے اتفاق کرے یا نہ کرے -اس کے ساتھ ہی اعلیٰ عدلیہ میں انتظامی سٹاف کی تقرریوں پر ججز کے خلاف شکایات پیدا ہوتی ہیں جن کو کسی سطح پر چیلنج بھی نہیں کیا جا سکتا – ماضی قریب میں یہ شکایات عرو ج پرتھیں ، اس کا تدارک یکساں نظام تقرری ہونا چاہیے جوPSC کے ذریعہ ہو یا غیر جانبدار NTS طرز کے ٹیسٹ کے بعد بقیہ کاروائی ادارہ کرے –
اس عمل کو ٹرانسپیرنٹ اور میرٹ کو یقینی بنانے کے لئے اعلی عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے لئے بھی testing کا کوئی سسٹم ہونا چاہیے ، جو اس عمل سے گزریں ان کو ہی چیف جسٹس صاحبان تجویز کریں – ماتحت عدلیہ سے جن لوگوں کی تقرری براہ راست ایڈیشنل سیشن جج کے طور ہوتی ہے ، ان کے لیے اس حیثیت میں کم از کم دس سال کے تجربہ کے لوگوں کے لیے بیس فیصد، سول جج کے طور تعینات ہوکر دس سال کے ڈسٹرکٹ جج کا تجربہ رکھنے والوں کے لیے تیس فیصد اور پچاس سال عمر اور بیس سال وکالت کا تجربہ کے حامل وکلاء کے لئے پچاس فیصد کوٹہ ہونا چاہیے ، لیکن ٹیسٹ کے پراسس سے سب کو گزرنا چاہیے – اس کے علاوہ ان کے لیے پاکستان اور انگلینڈ کی عدالتوں کا مطالعاتی دورہ بھی لازمی ہونا چاہیے –
سپریم کورٹ میں براہ راست تقرری قطعآ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ جو لوگ ماتحت عدالتوں ، بالخصوص ہائی کورٹ کے تجربے سے نہیں گزرے ہوتے ہیں ، ان کو عدالتی کار کردگی، ماتحت ججوں کی مشکلات ، عدلیہ کے اور حکومتی ایڈمنسٹریشن کے ساتھ نپٹنے کا ادراک نہیں ہوتا، سیاسی زندگی سے وابستگی اور جج بننے کے درمیان کا عرصہ مختصر ہونے کی وجہ سے تعلقات کا انقطاع ممکن نہیں، اس لیے ان پر سیاسی اور برادری کی طرف داری کا الزام لگایا جاتا ہے ، ان میں ماتحت عدلیہ کے اختیارات اور اس پر کنٹرول حاصل کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہوتا ہے ، نتیجتآ ایک مہم جوئی ، تناؤ اور کشمکش کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے عدالتوں کا وقار مجروح ، جج متنازع وکلاء اور ان کے موکلان چکی کے دو پاٹون کے درمیان پستے ہیں – ہم 1989 سے یہ کیفیت دیکھتے چلے آرہے ہیں –
جج یا عدالتیں اس وجہ سے بھی متنازعہ ہو جاتے ہیں کہ تعینات کیے جانے والے جج کسی خاص جماعت، سوچ یا برادری سے تعلق رکھتے ہیں – یہ زمینی حقائق ہیں – نظر انداز ہونے والے وہ لوگ ، جو اپنے آپ کو اس منصب کا اہل سمجھتے تھے اور وہ سیاست دان جو بننے والے کے مخالف اور اپنے پسندیدہ لوگوں کے نہ بننے پر شاکی ہوتے ہیں ، اس عمل کو متنازع بنا دیتے ہیں – اس کا تدارک یہ جج اپنے طرز عمل سےکر سکتے ہیں – ہر شخص کا تعلق بلواسطہ اور بلا واسطہ کسی جماعت ، علاقے یا برادری سے ضرور ہوتا ہے ، اس کے لیے نہ تو غیر ملکی لائے جا سکتے ہیں اور نہ فرشتے – تقرری کرنے سے وابستہ لوگوں کی ذمہ داری ہے وہ اللہ کا خوف کو پیش نظر رکھ کر دور رس نگاہ رکھ کر یہ فیصلہ کریں –
جج بننے کے بعد یہ اس جج کی ذات پر منحصر ہے کہ وہ ان وابستگیوں سے بالا تر ہے یا نہیں جو اس کے ناقدین اس سے منسوب کرتے ہیں – الزامات اور تنقید بھلے جتنی بھی ہو ، ان کی اچھی کارکردگی اور طرز عمل ان کی تقرری کو جواز بخشے گی – تعینات کرنے والوں اور تعینات ہونے والوں کو ایک دوسرے کو بھول کر سسٹم کو پروان چڑھانا چاہیے -اگر تعینات ہونے والے اس قابل تھے تو ان کو تعینات کر کے کوئی احسان نہیں کیا گیا ، اگر وہ اس قابل نہیں تھے تو تقرری کرنے والوں نے بد دیانتی کی ہے –
جاری ہے . . .
مضمون کی دوسری اور آخری قسط یہاں ملاحظہ کریں