جج کے عہدے کے ساتھ ایک تقدس، احترام ، اعتدال اور انصاف کا تاثر وابستہ ہوتا ہے- اس کے طرز عمل کو لوگ باقی لوگوں سے مختلف دیکھتے اور دیکھنا چاہتے ہیں، وہ خواہ کتنے بڑے کیوں نہ ہوں -جب جج تعلقات ، اختلاف، طرز عمل اور رویہ میں عام لوگوں جیسا بے احتیاط ہو ، اپنے متعلقین کے علاوہ ، ہر محفل اور مجلس میں پایا جائے ، ان لوگوں کے ساتھ تعلقات ، آنا جانا اور میل ملاپ شروع کردے جن کے ساتھ اس کے پہلے تعلقات نہ رہے ہوں ، مقدمے کے کچھ فریقین یا ان کے وکلاء کے ساتھ دوسروں کے مقابلے میں رویہ دوستانہ اور دوسرے کے ساتھ ترش ، غیر روایتی یا نامناسب ہو، فریقین مقدمہ ، ان کے وکلاء، گواہان ، عدالتون میں پیش ہونے والے دوسرے لوگوں کی بے عزتی، بے توقیری، اور توہین کرے یا ایسا برتاؤ کرے جس کو خود پسند نہ کرتے ہوں بلکہ اس کو توہین کے مترادف سمجھتے ہوں ، بالخصوص وکلاء ، بیوروکریسی ، سیاست دانون ، حکمرانوں اور بیوروکریسی سے تعلقات اور ان سی ذاتی favour لینا ، غیر متعلقہ لوگوں کی سماجی تقاریب اور ان کی نجی محفلوں میں شرکت کرنا ، آزاد کشمیر کے مخصوص حالات کے پیش نظر ایسے لوگوں سے جو جج کے اپنے اقربا نہ ہوں ، سے تعلقات ، اختلاط ، دعوتیں، مجلسیں ، محفلیں کریں جن سے یہ تاثر ملے کہ جج برادری گردی کرتا ہے ، سب سے زیادہ متنازع بنا دیتا ہے –
ججون کے بچوں ، بھائیوں، اور قریبی عزیزوں کا فریقین مقدمہ کے ساتھ تال میل بھی شکایات کا باعث بنتا ہے – اس پر ججوں کو نظر رکھنا چاہیے . لوگوں کی نظروں میں تو ہوتے ہی ہیں – صدر، وزیر اعظم اور وزیروں کے ساتھ ملاقاتیں اور ان کی تشہیر بھی شکایات پیدا کرتی ہے – پاکستان اور ہندوستان میں کہیں ایسا نہیں ہوتا – ان ملاقاتوں کا فائدہ ُان کو تو ہو سکتا ہے ، لیکن نقصان ججوں کا ہوتا ہے کہ یہ ان لوگون کے اثر میں ہیں –
اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے متنازع ہونے کی کئی وجوہات میں سے یہ بھی ہیں کہ ایک ہی جیسے قانونی یا آئینی نکات پر کیس ٹو کیس متضاد فیصلے کرنا یا جس کے حق میں فیصلہ کرنا چاہییں اس کے حق میں جانے والے واقعات لکھ کر اس کے مخالف کے تردیدی یا اس کے مغائر واقعات اور دلائل کو نظر انداز کرنا ، یہ عدلیہ کی اپنی ساکھ کو متاثر کرنے کے علاوہ ماتحت عدلیہ اور انتظامیہ کے لئے گمراہی اور بے راہ روی کا باعث بنتا ہے – جیسا کہ اوپر درج کیا گیا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے قانون کا حصہ بن جاتے ہیں اس لئے جیسے نہ قانون بار بار بنایا جاتا ہے نہ کسی قانون کی موجودگی میں اس کے مغائر بنایا جاتا ہے ، ویسے ہی عدالتی نظائر کا تسلسل بحال رکھنا عدالتوں کی ذمہ داری ہے –
اس میں کوئی شک نہیں حالات کے بدلنے کے ساتھ قانون کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں ، عدالتی نظائر بھی بدلنے پڑتے ہیں لیکن اس کے لئے نظیر یا روایت کو بدلنے کی معقول اور ٹھوس وجوہات ہوں اور واضع طور لکھا جائے کہ پہلی رائے ، اصول یا نظیر کیوں بدلی جا رہی ہے- صرف بڑی عدالت ہونے کے زعم میں ایسا کرنا عدالتوں کے تقدس کی نفی ہے- ججوں کو ہدف تنقید یا تضحیک بنائے بغیر، اس کے خلاف وکیلوں کو لکھنا اور بولنا چاہیے- یہ ہمارے قانون اور قانونی تاریخ کا حصہ ہوتا ہے جس پر نظر رکھنی اور اس کو ہدف تنقید بنانا سب کی ذمہ داری ہے ، یہ کوئی توہین عدالت نہیں –
آزاد کشمیر کے آئین کی دفعہ 42D کے تحت سپریم کورٹ کو نظر ثانی کے خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں حالانکہ ضابطہ دیوانی، فوجداری اور سپریم کورٹ کے رولز میں یہ اختیارات پہلے سے موجود ہین لیکن اس کا مقصد ، جیسا کہ دنیا کے تمام آئینوں میں یہ دفعہ صرف سپریم کورٹ کے لئے موجود ہے ، یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا کسی فیصلے میں وضع کردہ اصول نظیر یا precedent ، قانون اور آئین کا حصہ بن جاتا ہے . اس لئے اس کو بدلنے کے لئے بھی آئینی اختیار دیا گیا ہے اور یہ غیر معمولی اختیار ہے – طے شدہ اصولوں کو کسی کیس میں لاگو کرنا اور کسی میں نظر انداز کرنا ، اس کے مغائر رائے قائم کرنا یا بہ یک جنبش قلم overrule کرنا ، جج کی جانبداری پر تو دھبہ لگاتا ہی ہے ، ادارہ بھی بد نام ہو جاتا ہے — واقفان حال فیصلہ پڑھ کے اندازہ لگا لیتے ہیں کہاں، کس کے لئے اور کیوں ڈنڈی ماری گئی ہے –
کیسز کا من پسند ججوں یا چہیتے وکیلوں کے کیس ان کے پسندیدہ ججوں کے پاس لگانا بھی بدنامی کی وجہ بنتی ہے – صوابدید کا من پسند فریق یا من پسند وکیل کے حق میں استعمال کرنا اور ویسے ہی معاملے میں کسی دوسرے کے حق میں صوابدید استعمال نہ کرنا ، طرفداری اوربدنامی کا باعث بنتا ہے – کسی کے حقوق کو نقصان پہنچائے بغیر اگر صوابدید کسی کے حق میں استعمال کی جائے تو کوئی برائی نہیں کیونکہ اسباب کی دنیا ہے ، لیکن یہ ریاست یا کسی فرد کی قیمت پر نہ ہو-وکلاء تنظیموں کے الیکشن میں ججوں کی دلچسپی ، ان کی ذاتی دعوتوں میں شرکت وغیرہ بھی ججوں کے خلاف شکایت کا باعث بنتی ہے –
ججون کے کوڈ آف کنڈکٹ پر عمل نہ کرنے سے ہر جج قابل مواخذہ ہوتا ہے ، وکیلوں کو چاہیے کہ جج صاحبان کو اس کی یاد دہانی اور عوام الناس کو اس سے آگاہی کرانی چاہیے – ہمیں جج سے زیادہ نظام عزیز ہونا چاہیے – آج کا جج کل irrelevant ہو جاتا ہے، لوگ نظرین چراتے ہیں ، اگر کسی نے ذمہ داری سمجھ کے اچھا کام کیا ہو تو بر سبیل تذکرہ نام دہرا دیتے ہیں ، اگر کسی کی ناجائز طور مدد کی ہو وہ بھی یہ کہہ کے یاد کرتا ہے ” اچھا آدمی تھا میرے لئے بے ایمانی بھی کی” –
ہمارے آئین میں یہ سقم موجود ہے کہ اس کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرح original jurisdiction حاصل نہیں اس لئے ہائی کورٹ یا کسی اور ادارے کے میرٹ پر فیصلےکئے بغیر سپریم کورٹ کو سوائے اپیل کے از خود میرٹ پر فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے اور اس کو preempt بھی نہیں کرنا چاہیے ورنہ ججوں سمیت سارا سسٹم مزید متنازع اور مشکوک ہو جائے گا – اگر اپیل ہو تو حتمی فیصلہ سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہوتا ہے ، ایسی مہم جوئی سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے – Due process کے بعد ہونے والے فیصلے کسی کو قبول ہوں یا نہ ہوں ، ان کو اخلاقی جواز بھی مل جاتا ہے ، قانونی تو ہوتا ہی ہے – انصاف کا مسلمہ اصول ہے کہ legality , propriety and legitimacy must co exist سپریم کورٹ کو ایسا کرکے اپنے آپ کو اس پوزیشن پر نہیں لے جانا چاہیے جہاں سے ہم سب نے مل کر اس کو نکال کرلایا ہے ورنہ بد نامی کا دھبہ موجود رہے گا –
اپنی اپنی حدود کے اندر انصاف کرنا ہر عدالت کا اختیار اور ذمہ داری ہے، لیکن انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے حدود سے بعید جانا بھی بے انصافی ہے ، وہ تنازع کا باعث بن جاتا ہے – ہائی کورٹ court of original jurisdiction ہےجس کو آئین کےتحت ہر قسم کے مقدمات سننے کا اختیار حاصل ہے ، اگر وہ کسی کی تحریری درخواست یا رپورٹ پر محسوس کرے کہ آئین، قانون یا عوامی مفاد کو سنگین نقصان کی وجہ سے نا انصافی ہو رہی ہے تو وہ اس کو پٹیشن کے طور رجسٹر کرکے بلا امتیاز انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے سماعت کرے، تو کوئی مضائقہ نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری ہے اور عدالتون کا بنیادی مقصد ہی نا انصافی کا ازالہ اور قانون کی بالا دستی قائم کرنا ہے -اس کو ہندوستان مین public interest litigation ( PIL) کہتے ہیں جو اب پاکستان میں بھی شروع ہو گیا ہے اور سپریم کورٹ پاکستان نے تو جسٹس افتخار چوہدری اور ثاقب نثار کے دور میں تو حدود ہی پھلانگ دیے تھے – سپریم کورٹ آزاد کشمیر کو یہ اختیار حاصل نہیں ، جو ہونا چاہیے تھا اور مسلم لیگ کے منشور 2016 میں رکھے جانے کے باوجود, تیر ویں آئینی ترمیم میں اسے شامل نہیں کیا گیا-یہ ہمارے آئین کا بہت بڑا سقم ہے – اس سقم پر یہ دونوں بڑی عدالتیں ہم آہنگی سے قابو پا سکتی ہیں -پاکستان کی سپریم کورٹ کی طرز پر آزاد کشمیر کے لوگ آزاد کشمیر سپریم کورٹ سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں جو ممکن نہیں ہے-
کبھی کبھی سپریم کورٹ کے پاس بھی انتظامیہ یا کسی فرد کے خلاف شدید نا انصافی کے ازالہ کی درخواست یا اس کی نوٹس میں کوئی شدید نا انصافی لائی جاتی ہے – وہ اگر اس پر کچھ نہ کرسکے اس سے بھی عام آدمی سپریم کورٹ یا اس کے کسی جج کے خلاف نفرت اور بے توقیری کا اظہار کرتا ہے اور نظام پر بد اعتماد ہو جاتا ہے جو ریاستی مفاد اور وقار کے خلاف ہے – ماضی قریب میں مانیٹرنگ سیل کے نام پر اس مقصد کے لئے ایک جج صاحب نے ترکیب شروع کی تھی جس نے سارے عدالتی اور انتظامی نظام کو مفلوج کردیا تھا، لیکن اگر یہی کچھ نیک نیتی اور دیانتداری سے حکومتی اہل کاروں کی نا انصافیوں اور چیرہ دستیوں کے خلاف کسی کی درخواست یا رپورٹ پر متعلقہ ایجنسی کو نا انصافی کے ازالہ کے لیے بھیج کر رپورٹ طلب کی جائے ، تو میرے خیال میں اختیار سماعت کی اس قدغن کی خلاف ورزی کئے بغیر انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکتے ہیں –
سپریم کورٹ کا سب سے بڑی عدالت ہونے کی وجہ سے ایک بھرم ہے ، جس کا لوگ احترام کرتے ہیں اور اگر کوئی زیادتی ہورہی ہو تو اس کا انتظامیہ ازالہ کر دیتی ہے – اس کے خلاف زیادہ سے زیادہ یہی کہا جائے گا کہ ”عدالت کو اختیار تو نہیں تھا، لیکن نا انصافی کی نشاندہی پر انتظامیہ نے انصاف کردیا ” – انصاف خود کرنا یا متعلقہ اتھارٹی کو ناانصافی کی طرف توجہ دلا کے انصاف کرانے میں کوئی مضائقہ نہیں ، لیکن اس کو ایک متوازی یا خود ساختہ اختیار نہ بنایا جائے جو ججوں اور ادارے کو متنازع بنائے گا -اگر اس نا انصافی کا کوئی ادارہ نشاندہی کے باوجود ازالہ نہیں کرتا جبکہ انصاف کے تقاضے پورا کرنے کے لیے ایسا کیا جانا ضرور ی ہو ، تو مناسب ہے کہ سپریم کورٹ ایسے معاملے کو ہائی کو رٹ میں رٹ کے طور سماعت کے لئے بھیج دے -اس ہم آہنگی سے fair trial بھی ہو جائے گا، اختیار کی حدود کا جھگڑا بھی نہیں رہے گا اور انصاف بھی ہوگا –
نا انصافی کا بہر حال ازالہ ہونا چاہیے اور عدالتوں و ججوں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے ، جہان بھی نا انصافی دیکھیں جس جائز طریقے سے اس کا ازالہ ممکن ہو وہ کریں اور کرائیں، اس کے لئے سخت ایکشن کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں – لیکن متعلقہ لوگوں کی عزت اور توقیر کا خیال رکھ کر ، ان کی عزت اور توقیر بھی اتنی ہی محترم ہے جتنی کسی عام آدمی کی ، من مانی سے نہیں – لوگوں کے ساتھ سب سے زیادہ ناانصافیاں حکومتی محکمے کرتے ہیں، جن کو صرف عدلیہ ہی کنٹرول کر سکتی ہے ، سیاسی حکمران اپنے ووٹ بینک کی وجہ سے چشم پوشی کر کے اس کو نظر انداز کرتے ہیں ، عدلیہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے ، اس سے حکومت کے ہاتھ بھی مضبوط ہوں گے اور عام آدمی بھی انصاف کے حقیقی ثمرات سے مستفید ہوگا-
گر قبول اُ فتد زہے عز و شرف
مضمون کی پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاںکلک کریں