جرمنی: سمندروں کے سینے میں کئی راز دفن ہوتے ہیں اور اب دنیا بھر کے گہرے پانیوں میں ایک دو نہیں بلکہ 195,728 ایسے وائرس ملے ہیں جو اب تک سائنس دانوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔
’سیل‘ نامی سائنسی جرنل میں شائع رپورٹ کے مطابق زمین پر ایک برفیلے قطب سے لے کر دوسرے قطب تک ایک عالمگیر اور ہمہ گیر سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ ان وائرس کی اکثریت ہمارے لیے بالکل نئی ہے کیونکہ اس سے قبل تک ہم سمندری وائرس کی 15 ہزار اقسام سے ہی واقف تھے۔ اس دریافت سے سمندروں میں حیاتیاتی ارتقا ، ماحولیاتی اور آب وہوا میں تبدیلیوں کے متعلق ہماری معلومات میں اضافہ ہوگا۔
ٹیرا نامی سائنسی کشتیوں نے سال 2009ء سے 2013ء تک دنیا بھر کے سمندروں میں سفر کیا اور اس سے قبل 10 برس تک سمندری حیات اور اس کے ارتقا پر بھی غور کیا تھا۔ اس ٹیم میں اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی کے خرد حیاتیات داں ڈاکٹر میتھیو سُلی ون بھی شامل ہیں ۔ وہ کہتے ہیں،’ وائرس اتنے چھوٹے ہیں کہ وہ دکھائی نہیں دیتے لیکن سمنروں میں ان کی غیرمعمولی اقسام کی موجودگی بہت اہمیت رکھتی ہے۔‘
ماہرین نے اپنی تحقیقات کے بعد ایک تفصیلی نقشہ بنایا ہے جس میں دنیا بھر کے پانیوں میں پائے جانے والے وائرسز کا ڈیٹا بیس ظاہر کیا گیا ہے۔ ماہرین نے ان وائرس کو پانچ حیاتیاتی خطوں (ایکولوجیکل زون) میں بانٹا ہے۔ ان میں آرکٹک اور انٹارکٹک کے علاوہ، منطقہ حارہ اور معتدل خطوں کے تین گروپس شامل ہیں۔
سخت برفیلی سرزمین آرکٹک میں امید کے برخلاف وائرس کی بڑی تعداد دریافت ہوئی ہے۔ یہ وائرس اگرچہ اوسطاً 4000 میٹر گہرائی میں ملے ہیں جن میں نئے وائرس اور ان کے نئے خاندان بھی شامل ہیں۔ اس سے سمندری حیات اور پیچیدہ بحری نظام کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ نئے وائرس کی بدولت سمندروں میں موجود آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔
اگرچہ اب بھی طویل تحقیق باقی ہے لیکن وائرس بحری حیاتیات میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں جنہیں اس سے قبل نظرانداز کیا جاتا رہا تھا۔