ایوانوں میں طعنوں، جگتوں اور گالیوں کےسوا کیا ہے؟قبرستانوں سے مردے چوری ہو رہے ہیں شفاخانوں میں موت ناچ رہی ہےدواخانوں میں دوائیں جعلی’’خاندانوں‘‘ کے اکائونٹس جعلی جوانوں میں بیروزگاری بہت خزانوں میں بھاں بھاں کا سماں اور ڈی ویلیو ایشن کی ڈائندکانوں میں تول پورا نہیں مکانوں میں مکین سہمے ہوئےرمضانوں میں مہنگائی عروج پرتھانوں کی نیلامی کا کلچرامتحانوں میں نقل عامگوداموں سے اربوں کی گندم غائب دھانوں پر ’’سوکھا‘‘ پھر چکاترانوں، بیانوں اور بہانوں پر گزربسر کب تک؟کمانوں میں تیرنہیں زبانوں میں زہر بہت کھانوں میں ملاوٹ عام بادبانوں میں چھید ہو چکےسیاست دانوں میں دیانت محنت کا فقدان حکمرانوں میں وژن کا قحط فضل الرحمانوں میں فرسٹریشن اور ڈپریشن فردوس اعوانوں میں دھمکی بہت کہاں تک سنو گے، لمبی کہانی ہے ۔
ایسے میں آدمی ماضی کی طرف پناہ کیلئے پلٹتا ہے تو اک اور طرح کا رنج و ملال منتظر جو سرگوشیوں میں بتاتا ہے ……’’تم رہ گئے تمہارے زمانے گزر گئے ‘‘واقعی ….یہ سو فیصد سچ ہے کہ …..’’ہم رہ گئے ہمارے زمانے گزر گئے‘‘ایسے میں انسان کو پراندے، پتنگیں، پینجے اور ایسی لاتعداد چیزیں یاد آتی ہیں جو وقت کی بے درد دھول میں گم ہو گئیں۔اب برسات میں پتنگے اور بہار میں پتنگیں خواب ہو چکیں۔نئی نسلوں کو تو شاید علم نہ ہو کہ پراندے کیا ہوتے تھے، کیسے ہوتے تھے، کیسے بنتے تھے اور پراندے کی سہیلی پراندی بھی ہوا کرتی تھی جسے چاہیں تو اسکی ’’ گرل فرینڈ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
کبھی سریندر کور،پرکاش کور کا یہ گیت زبان زدعام تھا’’کالے رنگ دا پراندامیرے سجناں نے آندانی میں چُم چُم رکھ دی پھراں تے پباں بھار نچدی پھراں‘‘آساسنگھ مستانہ کالکھا ہرچرن نے گایا تھا’’کالی تیری گُت تے پراندا تیرا لال نیروپ دیئے رانیئے پراندے نوں سنبھال نیکناں وچ بندے تیرے روپ دا شنگھار نی مٹھے ترے بول مونہوںبول اک وارنی‘‘پراندا پہننے والی کو ’’پراندل‘‘ کہا جاتا تھا۔تاریخ بتاتی ہے کہ پراندے کا استعمال پٹیالہ کی مہارانیوں نے شروع کیا جو آہستہ آہستہ عوام میں بھی مقبول ہو گیا۔جالی والا پراندا اس کی قدیم ترین قسم ہے جس کے بعد کئی اقسام کے پراندے متعارف ہوئے مثلاً موتی پراندا، جلیبی پراندا، لڈو پراندا، طلے دار پراندا۔
پاکستانی دیہات میں بچیاں 10-8سال کی عمر سے ہی پراندے کا استعمال شروع کر دیتی تھیں ۔پراندا بنانے کیلئے قینچی، دھاگہ، کنگھا اور ’’اڈہ‘‘ ضروری تھا لیکن ….اب سب قصہ پارینہ ہو چکا صرف یہ ’’بول‘‘ ان کی یاد دلاتا ہے ۔’’ٹنگے رہ گئے کلیاں دے نال پراندے‘‘وقت کی کِلیوں کے ساتھ سب کچھ ٹنگا ہی رہ جاتا ہے۔ جو کل تھا، آج نہیں ….جو آج ہے کل نہیں ہو گا۔یہی حال بسنت بہار کی پتنگوں کا ہے جو ان لفنگوں کے ہاتھوں قتل ہو گئیں جنہوں نے کیمیکل زدہ قاتل ڈوریں متعارف کراکے اک خوبصورت تہوار کو زہر بجھی تلوار میں تبدیل کر دیا ۔پتنگوں کی بنیادی طور پر دو اقسام تھیں۔گُڈی تے گُڈا۔
اپنے ڈیزائن کے حوالہ سے ان کے مختلف نام تھے مثلاً اکھ مار، پری، سیلا، مچھر، لکھنو کاٹ گڈا، شرلا، سادہ پتنگ، تکل، کُپ اور اس کے علاوہ شیشترو، سلارا، گالڑ(گالڑ پنجابی زبان میں گلہری کو کہتے ہیں) چھاتی دار پتنگ، ڈبی دار پتنگ، چھ پانی وغیرہ ۔تناواں ….کنی…پیچہ اور آئی بو کاٹا کے علاوہ پنہ، گوٹ، گنجل، مانجھا، چرخی وغیرہ پتنگ بازی کی جانی پہچانی لغت ہے لیکن دکھ افسوس اس بات کا ہے کہ پتنگ بازی کو وقت نے نہیں، ہم نے خود مارا ہے کہ نہ ہم قاتل ڈوریں متعارف کراتے نہ بسنت بہار کا یہ خوبصورت تہوار ختم ہوتا۔
خیال تھا کہ پراندوں پتنگوں کے بعد ’’پینجے ‘‘ کو یاد کروں گا جو سردیوں کی آمد سے کچھ پہلے لحافوں کی روئی دُھننے آیا کرتا تھا ۔اب نہ وہ روئی والے لحاف رہے نہ پینجے، کہ پینجا پنجائی شروع کرتا تو اک ایسی موسیقی جنم لیتی جسے کم از کم میں تو بیان نہیں کر سکتا اور روئی کے گالوں کا اڑنا بھی اک ایسا منظر تھا جسے بھلایا نہیں جاسکتا لیکن کالم کی طوالت مانع ہے ۔کیا کوئی فیشن ڈیزائنر ایسا ہے جو پراندے کو ری لانچ کرسکے؟کیا کوئی موسیقار ایسا ہے جوپنجائی کے دوران پیدا ہونے والی آواز کو اپنی کسی دھن میں سمو سکے؟’’ہم رہ گئے ہمارے زمانے گزر گئے ‘‘لیکن ان گزرے وقتوں کی یادیں تو سنبھالی جاسکتیں۔