مرزا فرحت اللہ بیگ جدید اردو نثر کے بانیوں میں سے ہیں۔ 1883میں پیدا ہوئے اور 1927میں انتقال ہوا۔ مرزا صاحب کی شاہکار تحریر ’نذیر احمد کی کہانی‘ ہے۔ ہمارے ہاں اسکول کے نصاب میں اِس سوانحی خاکے کا ایک دلچسپ اقتباس شامل کیا جاتا ہے لیکن اِس طویل تحریر کا ایک نہایت سبق آموز حصہ ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اِس فراموش ٹکڑے میں ڈپٹی نذیر احمد غدر کے مشاہدات بیان کرتے ہیں۔ 1857کے واقعات پر اب ڈیڑھ صدی گزر چکی۔ بہت کچھ رنگ و روغن ہم نے اپنی تاریخ کے اِس باب پر چڑھا رکھا ہے لیکن نذیر احمد دہلوی نے تخت دہلی کے نام پر تلوار اُٹھانے والوں کی عسکری صلاحیت، ذہنی حالت اور اخلاقی قامت کی پراثر تصویر کھینچی ہے۔ مغلیہ سلطنت کا چراغ بجھ رہا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی تھی، سلطنتِ انگلستان کی براہ راست محکومی کا آغاز ہونے والا تھا۔ لیکن دہلی کے سجیلے اور لکھنو کے بانکے منصب کی کشمکش اور لوٹ مار میں غرق تھے۔ دیکھئے ہم نے احتیاطاً دہلی کا ذکر کیا، مشرقی پاکستان میں نیشنل بینک کی سراج گنج شاخ کا حوالہ نہیں دیا۔ امتحان کا وقت آتا ہے تو قوموں کی قامت ٹھیک ٹھیک معلوم ہو جاتی ہے۔
ہماری قوم اِس وقت ایک بڑے امتحان سے دوچار ہے۔ ہم نے ردے پر ردا جما کر آٹھ دس برس کی محنت شاقہ سے جو سیاسی نقشہ بٹھایا تھا، وہ ریت کا قلعہ ثابت ہوا۔ اب سوال عمران حکومت کی نااہلی کا نہیں، موجودہ حکومت سے اختلاف کو انہدامی سمت دینے سے بھی فائدہ نہیں ہوگا، یہاں تو یہ مشکل درپیش ہے کہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اِن غلطیوں کے نتائج سے کیسے بچا جائے جو ہم سے فاتحانہ کروفر کے عالم میں سرزد ہوئیں۔ سردست معیشت کے طویل مدتی اہداف کو ایک طرف رکھ دیں، فوری آزمائش یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی زنبوری گرفت (Pincer Grip)سے کیسے نبردآزما ہونا ہے۔
جون میں بجٹ آئے گا تو مہنگائی کی ایک قیامت ہم رکاب آئے گی، اُس سے کیسے بچنا ہے۔ یہ تو ہو گیا معیشت کا مہیب چیلنج۔ دوسری طرف خارجہ محاذ پر ایک سے زائد قوتیں ہمارے خلاف صف آرا ہو چکی ہیں۔ اُن میں بڑی عالمی قوتیں بھی ہیں اور علاقائی کھلاڑی بھی۔ ملک کے اندر سیاسی اور تزویراتی یکسوئی پیدا کئے بغیر ہم دنیا کو یہ پیغام نہیں بھیج سکتے کہ 22کروڑ نفوس کی قوم اپنی سلامتی، استحکام اور ترقی کا بدیہی حق رکھتی ہے۔ تیسری سمت میں نظر اٹھائیں تو سیاست کے کھیت میں ہم نے ایسا ہل چلایا ہے کہ ’آگ بجھی ہوئی اِدھر، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر‘۔
وفاق کی اکائیوں اور سیاسی قوتوں پر ایک ایک کر کے نظر دوڑائیے۔ بلوچستان ہمارے وفاق کی حساس ترین اکائی ہے۔ اُس کے بارے میں بے حد احتیاط سے صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالات معمول پر نہیں ہیں۔ سندھ میں گروہی ہم آہنگی، معاشرتی تاروپود اور معاشی ترقی کے اشاریے دگرگوں ہیں۔ پیپلز پارٹی کبھی وفاق کی علامت تھی۔
چیرہ دستیوں کی مسلسل مشق کے بعد اب اُسے دیہی سندھ کی عصبیت بنا دیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو نوجوان ہیں لیکن ابھی اُنہیں ایک لمبا سفر طے کرنا ہے۔ ایم کیو ایم ریاست کے زور بازو کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی لیکن سیاسی سوالات ریاستی کارروائیوں سے حل نہیں ہوا کرتے۔ خیبر پختونخوا میں اسفند یار ولی کی سیاست ہچکیاں لے رہی ہے۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت موثر گورننس کا نمونہ پیش کرنے میں ناکام ہے۔ پنجاب ابھی چند برس پہلے تک معاشی ترقی اور تمدنی مکالمے میں ہر اول کردار ادا کر رہا تھا، اب ایک دیوقامت مگر مفلوج تودہ لحمی ہے۔ مسلم لیگ (نواز) میں بظاہر ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی لیکن اُس کی توانائی میں واضح اضمحلال کے آثار ہیں۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کابینہ میں تبدیلیوں کے بعد اپنے سیاسی خدوخال سے محروم ہو گئی ہے۔ میڈیا کی توانائی نچوڑ لی گئی ہے۔ عدلیہ کا حوصلہ بخشنے والا ادارہ حالیہ رسہ کشی کے باعث اخلاقی تشخص کے بحران سے دوچار ہے۔
ایسی چومکھی یلغار میں ہمارا ردِعمل کیا ہے؟ ہم نے صدارتی نظام کی طے شدہ آئینی بحث چھیڑ لی ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ سینیٹ کے ایوان بالا کو غیر فعال کر دیا ہے۔ صوبوں کی نااہلی کا ماتم کر رہے ہیں۔ گویا صوبائی خود مختاری کا بستر لپیٹ لیں تو وفاق چلانے کے لئے مردان کار مریخ سے درآمد کئے جائیں گے۔ ہم شاہ محمود قریشی، چوہدری سرور اور جہانگیر ترین کے داؤ پینترے دیکھ رہے ہیں۔ صاحب اور صاحبہ کے مشاعرے سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ یہی مرحوم دہلی کا وہ منظر تھا جسے ظہیر احمد دہلوی نے ’داستانِ غدر‘ میں بیان کیا تھا۔ میر تقی میر یاد آ گئے۔
امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر
کہ ہم غریب ہوئے ہیں اِنہی کی دولت سے
ابنائے وطن تو خیر عروسِ تازہ کا ذوق رکھتے ہیں، اہلِ درد سیاست میں اِس تیز بینی کی جستجو کرتے ہیں جو عشروں کی ریاضت سے پیدا ہوتی ہے۔ گزشتہ تیس برس میں سیاسی بصیرت کے جو نہال بطنِ گیتی سے نمودار ہوئے، ہم نے ایک ایک کر کے تیغ کر دئیے۔ نواز شریف اب اپنی جسمانی صحت اور قانونی پیچیدگیوں کے باعث فعال کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔ آصف علی زرداری کا امکان بھی کھیت رہا۔ فضل الرحمٰن، محمود اچکزئی، پرویز رشید، حاصل بزنجو، رضا ربانی، افراسیاب خٹک، فرحت اللہ بابر، ایک ایک کر کے فیڈ آؤٹ ہو جائیں گے۔ اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم۔ مشکل اِس میں یہ ہے کہ سیاسی بصیرت پولٹری فارم کی صنعت نہیں ہے۔ لوگو! اک دن ہم لوگوں کو یاد کرو گے۔
درویش کہسار کی جانب بڑھتے ابر سیاہ سے گھبراتا ہے تو ہمیشہ قوم کے باپ کی طرف دیکھتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح 14جون 1948کو اسٹاف کالج کوئٹہ پہنچے۔ پاک فوج کے نوجوان افسروں کے سامنے بہت مختصر سی تقریر کی تھی، جو بوجوہ ہمارے قومی حافظے سے کھرچ دی گئی ہے۔ اِس لئے کہ اِس میں بابائے قوم نے ہمیں وہ درس دیا تھا جسے سمجھ لیا ہوتا تو راہیں روشن ہو سکتی تھیں۔ ہمارے قائد نے انگریزی میں بات کی تھی، ترجمے کی آج بھی ضرورت نہیں کیونکہ بانی پاکستان کی بصیرت کا ابلاغ زبان کا پابند نہیں ہے۔ سنئے:
During my talks with one or two very high-ranking officers I discovered that they did not know the implications of the Oath taken by the troops of Pakistan. Of course, an oath is only a matter of form; what are more important are the true spirit and the heart.
I want you to remember and if you have time enough you should study the Government of India Act, as adapted for use in Pakistan, which is our present Constitution, that the executive authority flows from the Head of the Government of Pakistan, who is the governor-general and, therefore, any command or orders that may come to you cannot come without the sanction of the Executive Head.