ایئرپورٹ پر پہنچتے ہی دونوں میاں بیوی کو ایجنٹ نے کہا کہ ان کو منشیات لے جانا ہوں گی اور منع کرنے پر ان کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی
’یہی امید تھی کہ چھوڑ دیں گے۔ میری بہن (فاطمہ) سمیت جتنے بھی لوگوں کو سزائے موت ملی تھی ان سب کا یہی کہنا تھا کہ اب کچھ ہو جائے گا۔ عمران خان سب کو چھڑوا دے گا‘۔ یاور عباس نے فاطمہ کی چھوٹی بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے بتایا۔
چند روز قبل یاور عباس کی بہن فاطمہ اور ان کے خاوند مصطفیٰ کو سعودی عرب میں منشیات لے جانے کے الزام میں گذشتہ ماہ ریاست کے قانون کے مطابق سزائے موت ہوئی اور ان کے سر قلم کر دیے گئے۔
سنہ 2016 میں فاطمہ اور مصطفیٰ کو ان کے ایک جاننے والے نے اپنی ٹریول ایجنسی کے ذریعے عمرہ کرنے کا مشورہ دیا۔ یاور نے بتایا کہ ’ہمارا پورا خاندان خوش تھا۔ ہم سب دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں عمرہ کرنا ایک بہت بڑا موقع تھا جو ہم میں سے کسی کو کبھی نہیں مل سکتا تھا۔‘
’پہلے کچھ دن تو فون نہیں آیا۔ پھر ایک ہفتہ گزرنے کے بعد فاطمہ نے فون کر کے بتایا کہ ہمیں منشیات لے جانے کے الزام میں یہاں جیل میں قید کر دیا گیا ہے۔‘
فاطمہ کی اپنے گھر والوں کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے مطابق ملتان ایئرپورٹ پر پہنچتے ہی دونوں میاں بیوی کو ایجنٹ نے کہا کہ ان کو منشیات لے جانا ہوں گی۔ منع کرنے پر ان کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی۔ فاطمہ کے دو بچے ہیں جن میں سے ایک بیٹا اپنی نانی کے پاس تھا جبکہ بیٹی والدین کے ساتھ گئی تھی۔ یاور نے بتایا کہ فاطمہ اور ان کے خاوند کو الگ جیلوں میں ڈال دیا گیا جبکہ بچی فاطمہ کے ساتھ رہی۔
اس وقت پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں فاطمہ کے دو بچے اپنے ماموں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ فاطمہ کی 8 سالہ بیٹی صرف عربی میں بات کر سکتی ہے اور زیادہ تر بات کرنا ہی نہیں چاہتی۔ کسی انجان شخص کے گھر میں داخل ہوتے ہی وہ اپنے ماموں یا نانی کی طرف دیکھتی ہے۔ یا چُپ چاپ وہاں سے چلی جاتی ہے۔
یاور عباس کا کہنا ہے کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وہ بہت برا تھا، مگر دوسرے قیدیوں کی زندگیوں کو بچا لیا جائے
یاور نے بتایا کہ ’میری بہن کے ساتھ قید کئی لوگ اِس آس میں تھے کہ شاید ان کو بھی رہا کر دیا جائے گا۔ لیکن اپریل میں ان کے ساتھ جیل میں قید ایک خاتون کا فون آیا اور اس نے ہمیں روتے ہوئے بتایا کہ فاطمہ اور مصطفیٰ کا سر قلم کر دیا گیا ہے۔‘
اس واقعے کے بعد سے عمرہ پر لے جانے والے ایجنٹ اور اس کے ساتھ کام کرنے والوں کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ ’پولیس کو فون کر کے تفتیش کروانے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا بلکہ ہو سکتا ہے کے مجھے جیل بھیج دیں۔‘
یاور نے بتایا کہ محلے میں بات پھیلنے کے ڈر سے وہ کم بات کرتے ہیں۔ شرمندگی اور افسوس کی وجہ سے سخت گرمی کے باوجود اپنے گھر کا دروازہ بند رکھتے ہیں۔ ’ہمارے ساتھ تو جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔۔۔ اب امید ہے کہ جو لوگ وہاں اب تک قید ہیں ان کو رہا کیا جائے۔ عمران خان سے اپیل ہے کہ وہ ان لوگوں کے بارے میں کچھ کریں۔‘
[pullquote]پانچ سال میں سزائے موت پانے والی پہلی خاتون[/pullquote]
یاور کی طرح اور بہت سے لوگ اپنے گھر والوں کی رہائی کے منتظر رہے لیکن حال ہی میں سعودی عرب میں موت کی سزاوں پر عمل درآمد کے نتیجے میں انسانی حقوق پر کام کرنے والے ادارے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قیدیوں کی رہائی اور خاص طور سے سزائے موت پانے والے قیدیوں کی رہائی کا عمل صرف چند قیدیوں کی رہائی تک رُک جائے گا۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں میں فاطمہ پہلی پاکستانی خاتون ہیں جن کو موت کی سزا دی گئی ہے۔
[pullquote]پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قیدیوں کی رہائی کا کیا بنا؟[/pullquote]
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین قیدیوں کی رہائی کا عمل اس وقت رُکا ہوا ہے۔ جہاں حکومتی ارکان سعودی عرب کے ساتھ اعلیٰ سطح کی میٹینگز اور مشاورت کی بات کرتے ہیں وہیں انسانی حقوق پر کام کرنے والے ادارے بتاتے ہیں کہ اب تک سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کو واپس لانے کے حوالے سے کوئی خاص حکمتِ عملی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
‘ہمارے قیدی جو باہر کی جیلوں میں قید ہوتے ہیں ان کے پاس اپنے حقوق محفوظ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ نہ وہ اس ملک کی زبان بول سکتے ہیں اور نہ اس کا قانون سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس وکیل کرنے کے پیسے ہوتے ہیں۔ تو ہر قیدی کسی دوسرے ملک میں بہت غیر محفوظ ہوتا ہے۔’
اس سال فروری میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے کہنے پر 2107 قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا۔ لیکن اس کے بعد سے اب تک کی اطلاعات کے مطابق 50 کے قریب پاکستانی قید سے رہا ہو کر ملک واپس آئے ہیں جو اپنی شناخت نہیں کروانا چاہتے جبکہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں واپس آنے والوں کی تعداد 200 بتائی جا رہی ہے۔
پنجاب میں واپس آنے والوں میں اب تک چھوٹے موٹے جرائم کے نتیجے میں سزا پانے والے لوگ واپس آئے ہیں۔ ان میں سے نارووال کے محمد اختر بھی ہیں جن کو اقامہ کی تاریخ ختم ہونے کی صورت میں چھ ماہ قید میں گزارنے پڑے۔ ان کے علاوہ گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، رحیم یار خان اور کراچی لوٹنے والوں میں کریڈٹ کارڈ کی معیاد ختم ہونے اور اقامہ دیر سے بنوانے یا تاریخ ختم ہونے کے بعد اقامہ رکھنے کے نتیجے میں چھ، چھ ماہ قید کی سزا ملی تھی۔
واپس آنے والوں میں چند لوگوں سے بات کرنے پر پتا چلا کہ ان میں سے زیادہ تر کی سزا سعودی ولی عہد کے اعلان سے پہلے ہی ختم ہو چکی تھی اور یہ لوگ اپنی سزا ختم کرکے وطن واپس آئے ہیں نا کہ پاکستانی حکومت کی مدد سے۔ یہ سبھی لوگ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔
اس بارے میں پاکستان تحریکِ انصاف کی رکن عندلیب عباس نے بتایا کہ ’سعودی عرب کے ساتھ ہم کام کر رہے ہیں۔ ایک سٹریٹیجک کونسل ہے جو سب لوگوں سے ملے گی اور دیکھے گی کہ جو قیدی آئے ہیں اور جو آنے والے ہیں ان کو سفارتی مدد ملی ہے یا نہیں اور ہم موجودہ معاہدوں کو کیسے بہتر کرسکتے ہیں۔ ہماری سعودی عرب کی ڈیسک اس پر کام کر رہی ہے۔ حال ہی میں جب وزیرِ اعظم عمران خان ایران کے دورے پر گئے تھے تو ان کا زیادہ تر زور قیدیوں کی رہائی اور ان کے تبادلے پر رہا۔ یعنی اب یہ بات وزیرِ اعظم کی سطح پر کی جارہی ہے۔‘
[pullquote]پاکستانیوں کی سعودی جیلوں میں تعداد زیادہ ہے[/pullquote]
عندلیب عباس کے مطابق ایک سٹریٹیجک کونسل پاکستان اور سعودی عرب کے مابین قیدیوں کے حوالے سے معاہدوں کی بہتری پر کام کر رہی ہے جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق وزارتِ خارجہ کے لاہور ہائی کورٹ اور سینیٹ میں جمع کرائے گیے اعداد و شمار کو اگر دیکھا جائے تو اس وقت 3300 پاکستانی سعودی جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں سے 47 فیصد کو منشیات لے جانے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی ہے جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔
جے پی پی کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ’سعودی عرب میں سزائے موت پانے والے پاکستانی قیدیوں کا ریکارڈ منظرِ عام پر نہیں لایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ادارے نے گذشتہ پانچ برسوں میں 100 سے زائد موت کی سزاوں کو ریکارڈ کیا ہے جو باقی ممالک کے باشندوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت سعودی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔‘
[pullquote]کیا باقی قیدیوں کے ساتھ سزائے موت پانے والے قیدی رہا ہوسکتے ہیں؟[/pullquote]
اس بارے میں جب وزارتِ خارجہ سے جواب طلب کیا گیا تو بی بی سی کو بتایا گیا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے مابین قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ حساس ہے جس پر حکومتی نمائندے بات نہیں کریں گے۔
ایک پاکستانی قیدی کو سزائے موت دینے سے پہلے سعودی حکام کو پاکستانی سفارتخانے کو مطلع کرنا ضروری ہے۔ جب ان خاندانوں سے بات کی گئی جن کے گھر والوں کو سعودی عرب میں پھانسی دی گئی تھی تو پتا چلا کہ زیادہ تر سعودی حکام پاکستانی حکومت کو کسی پاکستانی کو پھانسی کی سزا دینے سے پہلے نہیں بتاتے۔
اس بارے میں جے پی پی کی سارہ بلال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’عمران خان کا سعودی ولی عہد کے سامنے سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کے بارے میں بات کرنے سے ایک بہت اچھا تاثر ملا ہے۔ اب آپ ان کے مقدمات کھلوانے کی استدعا کر سکتے ہیں ثبوتوں کی بنیاد پر کہ یہ لوگ منشیات فروشوں کا نشانہ بننے والے لوگ ہیں۔ یہ اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کر رہے ان کے ذریعے زبردستی یہ کام کروایا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ان معاملات میں حکومت ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ’ہمارے قیدی جو باہر کی جیلوں میں قید ہوتے ہیں ان کے پاس اپنے حقوق کے تحفظ کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ نہ وہ اس ملک کی زبان بول سکتے ہیں اور نہ اس کا قانون سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس وکیل کرنے کے پیسے ہوتے ہیں۔ ہر قیدی کسی دوسرے ملک میں بہت غیر محفوظ ہوتا ہے۔‘
[pullquote]سعودی عرب آنے کی کیا ضرورت تھی؟[/pullquote]
سارہ بلال کہتی ہیں کہ بیرونی ممالک میں قید افراد کو ایسے ذرائع میسر نہیں جن سے وہ اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں
سعودی عرب اور پاکستان نے سنہ 1963 کے سفارتی تعلقات پر مبنی ویانا کنونشن کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدے کی شِق 36 کے مطابق جب ایک ملک کا شہری کسی غیر ملک میں کام کی غرض سے جائے اور وہاں گرفتار ہو جائے تو اس صورت میں اسے اپنے سفارتخانے کو آگاہ کرنے کی اور اس شخص کو قانونی چارہ جوئی کرنے کے حوالے سے تجاویز دینے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔
[pullquote]لیکن زیادہ تر مقدمات میں ایسا نہیں ہوتا[/pullquote]
رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے محمد نعیم اس وقت کراچی میں مزدوری کی غرض سے رہتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم تو مزدوری کی غرض سے کسی بھی طریقے سے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں قانونی معاملات کے بارے میں نہیں بتایا جاتا۔ ایجنٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح ہمیں وہاں پہنچا دیا جائے۔ لیکن وہاں کے قانون کے بارے میں ہمیں وہیں جا کر پتا چلتا ہے۔ اکثر پتا لگنے میں دیر ہو جاتی ہے۔‘
نعیم نے بتایا کہ پاکستان کے سفارتخانے سے کسی قسم کی مدد کی امید رکھنا وقت ضائع کرنے کی بات ہے۔ مجھے جب گرفتار کیا گیا تھا تو میرے ساتھ کام کرنے والے لوگوں نے سفارتخانے سے رجوع کیا۔ ان سے کہا گیا کہ اس کو کیا ضرورت تھی سعودی عرب آنے کی؟‘
فاطمہ کو سزا ملنے کے بعد سے ان کی والدہ اپنی نواسی سے اس کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ’اس کو پنجابی نہیں آتی اور مجھے عربی۔۔ سیکھ جائے گی۔۔ اتنی منتوں سے بچے پیدا ہوئے اور میری بیٹی اور داماد اب ان کے ساتھ نہیں ہیں۔۔ کیا فائدہ سعودی عرب جانے کا؟ سعودی نالوں تے ساڈا ملک پاکستان چنگا اے۔‘