مغربی واسلامی معاشروں کا تقابل: خود احتسابی کی ضرورت

اسلام گفتگو او رمکالمہ میں انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت بھی کرتا ہے اور دوسروں کے موقف کو صحیح طور پر دیانت داری کے ساتھ سمجھنا، بیان کرنا اور دلیل کے ساتھ اس کا جواب دینا ’وجادلہم بالتی ہی احسن‘ کا مصداق ہے جو اس سلسلے میں قرآن کریم کی ہدایت ہے۔ اسی طرح مقابل فریق کے طرز عمل کی خامیوں کی نشان دہی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں کا اعتراف کرنا بھی اسلامی اخلاقیات کا حصہ ہے۔

صحیح مسلم کی روایت ہے کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ایک روز مستورد قرشی رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ “قیامت سے پہلے رومی لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔” روم اس دور میں مسیحی سلطنت کا پایہ تخت تھا اور رومیوں سے عام طور پر مغرب کے مسیحی حکمران ہوتے تھے۔ حضرت عمرو بن العاص نے سنا تو چونکے اور پوچھا کہ “دیکھو! کیا کہہ رہے ہو؟” مستورد قرشی نے کہا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ حضرت عمرو بن العاص نے فرمایا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر ان رومیوں میں چار خصلتیں موجود ہوں گی (جن کی وجہ سے وہ انسانی سوسائٹی پر غالب آئیں گے):

پہلی یہ کہ وہ فتنے اور آزمایش کے وقت دوسرے لوگوں سے زیادہ تحمل او ربردباری کا مظاہرہ کریں گے۔

دوسری یہ کہ وہ مصیبت گزر جانے کے بعد سنبھلنے میں دوسرے لوگوں سے زیادہ تیز ہوں گے۔

تیسری یہ کہ وہ شکست کے بعد دوبارہ جلدی حملہ آور ہونے والے ہوں گے۔

چوتھی یہ کہ وہ اپنے یتیموں، مسکینوں اور کمزوروں کے لیے اچھے لوگ ثابت ہوں گے۔

اتنا کہہ کر حضرت عمرو بن العاص نے فرمایا کہ ان میں ایک اور پانچویں خصلت بھی ہوگی جو اچھی اور خوب ہوگی کہ وہ لوگوں کو حکمرانوں کے مظالم سے روکنے میں پیش پیش ہوں گے۔

آج مغرب سے ہمیں شکوہ ہے کہ مغرب ہمارے خلاف صف آرا ہے اور ہمیں اپنا سب سے بڑا حریف سمجھ کر زیر کرنے کے لیے جو کچھ وہ کر سکتا ہے، کر رہا ہے۔ مغرب سے ہمیں یہ بھی شکایت ہے کہ وہ ہم پر اپنی ثقافت مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور انسانی حقوق کے خود ساختہ فلسفے کے ہتھیار سے ہماری اخلاقی، دینی اور معاشرتی اقدار کو ملیا میٹ کرنے کے درپے ہے۔ یہ سب شکایا ت بجا ہیں، لیکن ہمیں حضرت عمرو بن العاص کے مذکورہ ارشاد کے حوالے سے مغرب کے ساتھ اپنا تقابل بھی کر لینا چاہیے کہ

· مصیبت اور مشکل کے وقت مغربی اقوام اور ہمارے طرز عمل میں کیا فرق ہوتا ہے؟

· مصیبت کے گزر جانے کے بعد سنبھلنے میں ہم کتنا وقت لیتے ہیں؟

· شکست کے بعد اس کی تلافی کرنے یا ماتم کرتے رہنے میں سے ہم کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں؟

· معاشرہ کے نادار اور بے سہارا لوگوں کی کفالت کے لیے ہمارے پاس کون سا نظام موجود ہے؟

· عام لوگوں کو حکام کے مظالم اور ریاستی جبر سے بچانے کے لیے ہمارا “معاشرتی شعور” کس مرحلے میں ہے۔

انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب کا گزشتہ نصف صدی کا ریکارڈ سامنے رکھا جائے تو یہ شکایت ضرور سامنے آتی ہے کہ مسلم ممالک کے بارے میں مغرب دوہرا معیار رکھتا ہے اور جن ممالک کی حکومتیں مغرب کے مفادات کی نگہبانی کر رہی ہیں، وہاں کے عوام کے انسانی اور سیاسی حقوق کے معاملے میں مغرب نے مجرمانہ غفلت اور خاموشی اختیار کر رکھی ہے، لیکن اس سے ہٹ کر عمومی تناظر میں دیکھا جائے تو اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ آج مغربی ممالک دنیا بھر کے مختلف خطوں کی حکومتوں کے ستائے ہوئے مظلوموں کی سب سے بڑی پناہ گاہ بھی ہیں اور معاشرے کے نادار اور معذور افراد کے لیے اگر زندگی کی سب سے زیادہ سہولتیں میسر ہیں تو وہ بھی انھی مغربی ممالک میں ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے