سلیم صحافی صاحب نے دی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ کے حوالہ سے ہم سب پر کالم لکھا ہے ۔قطع نظر اس کے تحریر کے متعدد مندرجات سے ہم متفق ہیں معاملہ کا ایک اور پہلو بھی ہے جو تشنہ رہ گیا ہے ۔متفق وزیرستان میں دو دہائیوں کے دوران آگ اور خون کا جو کھیل کھیلا گیا اسکی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ کے حکمت سازوں پر عائد ہوتی ہے ۔لیکن کیا کوئی دوسرا راستہ بچا تھا ؟ اس پر بھی سلیم صافی ایسے کسی باخبر پختون دانشور کو روشنی ڈالنا چاہے ۔صرف آئی ایس آئی منگل باغ،مولوی گل بہار یا پاکستانی طالبان کے اسٹیبلشمنٹ کے حلیف سمجھے جانے والے کمانڈروں کی کسی مخصوص دور میں سرپرستی تنہا اس کی ذمہ دار نہیں ۔ اس راہ میں امریکی سی آئی اے اور بھارتی را کے خاموش الائنس کے متعدد پرخار مقامات بھی آتے ہیں جنہیں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔
ہم اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کے ناقد ہیں اور اس مداخلت کو ملکی مسائل کی بنیادی وجہ سمجھتے ہیں۔تصویر کا دوسرا پہلو حالات کا جبر ہے ۔گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد جب بین الاقوامی افواج افغانستان آئیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پاس آپشن ختم ہو گئے تھے ۔بپھرے ہوئے امریکیوں کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اگر موجود تھا تو دانشوروں کو اس پر روشنی ڈالنا چاہے ۔بھارتی عالمی فورسز کا ساتھ دینے کیلئے تیار بیٹھے تھے ۔چینی غیر جانبدار تھے ان حالات میں جنرلوں نے وہی کچھ کیا جو انہیں کرنا چاہے تھا۔
امریکیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ صحیح تھا اور افغانستان میں قیام کے بعد امریکیوں کو دھوکہ دینے کا فیصلہ بھی درست تھا ۔اچھے اور برے طالبان کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی ۔پچاس ہزار جانیں گنوائیں ۔دہشت گردی کے ہزاروں واقعات کا سامنا کیا لیکن جیت گئے ۔امریکی افغانستان میں نامراد رہے ۔امریکی دوہا قطر میں طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت پر مجبور ہوئے ۔امریکی افغانستان سے واپس جا رہے ہیں ۔امریکی معیشت سوویت یونین کی طرح افغان جنگ کے بوجھ تلے سسک رہی ہے ۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان میں مالاکنڈ ڈویژن میں دو دہائیاں جو کچھ ہوا وہ امریکی اور بھارتی الائنس تھا ۔اس اتحاد کے پاس زیادہ پیسے تھے انہوں نے بنے بنائے تربیت یافتہ پاکستانی طالبان کمانڈر حاصل کر لئے ۔پاکستانیوں کے پاس کم پیسے تھے انہوں نے افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک پر سرمایہ کاری کرنے کا عمل جاری رکھا ۔
چینی صدر نے پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب میں آپریشن ضرب عضب کو سٹرٹیجک فیصلہ قرار دیا تھا اور حقیقت میں یہ سٹرٹیجک فیصلہ ہی تھا ۔پاکستان کے ایٹمی اثاثے دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں” بگرام ائر بیس پر خصوصی ڈیلٹا فورس تعینات کی گئی تھی جو خطرے کی صورت میں ایٹمی اثاثوں کو قبضہ میں کر لیتی ۔پاکستانیوں نے شمالی اور جنوبی وزیرستان اور مالاکنڈ ڈویژن سے دہشت گردوں کی چھٹی کرا دی ۔بڑے پیمانے پر نقل مکانیاں ہوئیں،لوگ بے گھر ہوئے لیکن ڈیلٹا فورس کا جواز ختم کر دیا گیا ۔
پاکستانی جنرل امریکیوں کو افغانستان نہیں لائے تھے ،لیکن جنرلوں نے امریکیوں کو افغانستان میں چین سے رہنے نہیں دیا ۔ جنرل مشرف نے افغانستان میں امریکی افواج کی آمد کے بعد کہا امریکی افغانستان سے جلد واپس چلے جائیں گے فورا جارج ڈبلیو بش کا طمطراق سے بیان جاری کیا گیا "ہم پاکستانی جنرل سے پوچھ کر نہیں آئے نہ بتا کر جائیں گے”یہ بیان وائٹ ہاوس سے جاری ہوا تھا اور میڈیا میں محفوظ ہے ۔
آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کی کامیابی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی درست سمت میں نہیں ۔پی ٹی ایم کا ظہور بظاہر نقیب اللہ محسود کے جعلی پولیس مقابلہ سے ہوا لیکن وزیرستان میں نقل مکانیوں ،آپریشن کے بعد بحالی کے عمل میں سخت نگرانی اور قبائیلوں کے گھر بار کاروبار تباہ ہونے سے ایک اضطراب اور غصہ موجود تھا ۔نقیب اللہ محسود تو بہانہ بنا ۔ جبر کے عمل نے جو کچھ پیدا کیا کوئی نہ کوئی تنظیم بننا ہی تھی اور منظور پشتین پیش قدمی کر کے تنظیم بنانے میں کامیاب ہو گیا ۔
پی ٹی ایم کو غدار قرار دے کر کاروائی کریں گے یا انہیں فاٹا الیکشن کی سولہ سیٹوں پر مقابلہ کرنے سے روکیں گے تو ردعمل بڑھتا جائے گا ۔سلیم صافی سے اس حد تک متفق ہیں پی ٹی ایم کو دیوار سے نہ لگایا جائے ۔منظور پشتین ایک چہرہ ہے لیکن یہ بحرحال منگل باغ نہیں ۔اس چہرے کو منظر سے بتائیں گے تو دوسرا چہرہ سامنے آجائے گا اور پھر تیسرا ۔پی ٹی ایم خطرہ نہیں ہے انہیں محبت کے ساتھ ڈیل کریں غلطی کی تو افغانستان میں کوئی اور الائنس بن جائے گا پھر جنگ کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔چالیس سال سے افغانستان جل رہا ہے اور پاکستان میں متوازی معیشت چل رہی ہے ۔چالیس سال کے تجربے نے پاکستانی فوج کو دنیا کی بہترین فوج بنا دیا ہے ۔چار دہائیوں میں دنیا بھر کی ایجنسیوں سے لڑتے ہوئے آئی ایس آئی نے جو تجربات حاصل کئے ہیں دنیا کی کسی ایجنسی کے پاس وہ مہارت اور تجربہ موجود نہیں لیکن کیا معیشت ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کو سپورٹ کرے گی ذرا رک کر سابق سوویت یونین کے تجربے کو سامنے رکھ کر اس پر بھی غور کر لینا چاہے ۔