پاکستان اور سعودی عرب تعلقات کے بہت سارے دیگر زاویوں کے علاوہ ایک روشن اور چمکتا دمکتا زاویہ عالمی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ہے۔اور اس کو مزید چار چاند لگائے ہیں ڈاکٹر احمد یوسف الدریوش نے، جو کہ گزشتہ کئی عرصہ سے اس چھوٹی سی اور خوبصورت اسلامی ریاست کے صدر ہیں۔جب بھی آپ اسلامی یو نیورسٹی جائیں تو ہر طرف سے السلام علیکم کی آوازیں اور ماحول کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ یہ اصلی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔اسلامی یونیورسٹی پہلے بھی موجود تھی لیکن اس کے ہونے کا صحیح ادراک ہمیں ڈاکٹر احمد یوسف الدریوش کے دور میں ہوا۔
اسلامی یونیورسٹی میں جہاں پر عالم اسلام کی 44 ممتاز شخصیت پر مشتمل بورڈ ہے ۔9 کے لگ بھگ فیکلٹیز، 39 کے قریب شعبہ جات اور 6 عالی شان اکیڈمیاں کام کر رہی ہیں۔ہر اکیڈمی اپنی جگہ منفرد اور بہترین خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔دعوہ اکیڈمی کے شعبہ بچوں کے ادب کا اتنا کام ہے کہ پورے ملک کے باقی ادارے مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔اسی طرح ادارہ تحقیقات اسلامی جو ڈاکٹر ضیاءالحق کی سربراہی میں کام کر رہا ہے۔وہ بھی بلاشبہ بہت سارے اداروں پر بھاری ہے۔شعبہ قانون کے سربراہ ڈاکٹر عزیز الرحمن ہمہ جہتی شخصیت کے مالک ہیں۔اور ڈاکٹر احمد یوسف الدریوش کے شانہ بشانہ رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے شعبے کو بھی بلندیوں تک لیے جا رہے ہیں۔غرض یونیورسٹی اپنی حیثیت میں ایک ننھی منی ریاست ہے۔
ہمارے مہربان بھائی اورقاہد مولانا علی محمد ابو تراب کے مطابق ڈاکٹر احمد یوسف الدریوش اپنی تعیناتی سے پہلے جامعہ الامام کے وکیل کی حیثیت سے پاکستان آئے تھے۔تب رئیس الجامعہ کی سیٹ خالی تھی۔تو ہم نے ان کو کہا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ یہاں آ جائیں۔اور اس مجلس کی بات حقیقت کا روپ دھار گئی۔
ڈاکٹر احمد یوسف الدریوش نے اپنی تعیناتی کے بعد اپنی تمام تر صلاحتیں اس جامعہ کے لیےوقف کر دیں۔اور محض وقت گزاری کہ ایک ذندہ و بیدار قائد کا کردار ادا کیا۔گذستہ سے پیوستہ سال جب یونیورسٹی کے پرو چانسلر اور جامعہ الامام کے چانسلر ڈاکٹر سلمان بن عبداللہ ابالخیل پاکستان کے دورے بغرض شرکت پروگرام اسلامی یونیورسٹی آئے تو اس موقع سے ڈاکٹر احمد یوسف الدریوش نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور جامعہ کے لیے بہت سارے منصوبے ان سے افتتاح کروائے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات مضبوط کرنے میں بھی آپ کا بھرپور کردار ہے۔گائے بگائے اہم سعودی شخصیات کے دوروں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔گذشتہ سال ان کی دعوت پر امام کعبہ اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے مشیر جناب شیخ صالح بن حمید پاکستان تشریف لائے ۔اس موقع پر انھوں نے اسلامی یو نیورسٹی میں حلال فوڈ کانفرس کی صدارت کی اور اپنے زریں خیالات سے شرکاء کو نوازا۔اس موقع پر اہم بات یہ ہوئی کہ سینٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم جو اس وقت وفاقی وزیر مواصلات تھے ان کی کاوشوں سے امام کعبہ پاکستان کی کابینہ کے اجلاس میں بھی شریک ہوئے اور وطن عزیز کی کابینہ کو قیادت کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔اس تاریخی موقع پر صدر جامعہ ڈاکٹر احمد یوسف الدریوش اور ریکٹر اسلامی یونیورسٹی ڈاکٹر معصوم یسین زئی بھی شریک مجلس تھے۔
حال ہی میں امام کعبہ شیخ عبداللہ عواد الجھنی پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔تو اسلامی یورنیورسٹی میں صدر جامعہ کی دعوت پر نوجوانوں کے کردار کے حوالے سے اہم کانفرنس سے خطاب کیا۔
صدر جامعہ کا ایک اور اہم ترین کردار یہ ہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو مکمل پاکستانی ثابت کیا۔قائداعظم اور علامہ اقبال سے بخوبی واقف ہیں۔وہ یہ سمجتھے ہیں کہ علامہ اقبال کی شاعری گویا قرآن و سنت کی تشریح ہے۔اور ان کا فلسفہ خودی ان کے نزدیک فلسفہ خود انحصاری اور عزت نفس پر مبنی ہے۔
اسی طرح ان کے نزدیک علامہ اقبال انتہا پسندی سے کوسوں دور تھے اور اعتدال اور وسطیہ کی تعلیم کا پرچار ان کی شاعری سے ملتا ہے۔اور وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم ہی وہ واحد چابی ہےجس سے جہالت اور پسماندگی کاخاتمہ ممکن ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب سمیت امت مسلمہ انتہا پسندی ، دہشت گردی اور قتل و غارت کے جس عفریت کا شکار ہوئی ۔اور لاکھوں جانوں کا ضیاع ہوا اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
اس صورت حال کامقابلہ کرنے اور اس سے نکلنے کے لیے ڈاکٹر احمد یوسف الدریوش کا کردار اہم ترین ہے۔انھوں نے نہ صرف وطن عزیز کے علماء اور صلحاء کو بار بار جمع کیابلکہ سعودی عرب اور امت کی بڑی شخصیات کو گاہے بگاہے یہاں جمع کیا اور اعتدال اور میانہ روی کے موضوعات کو ترجیح میں رکھا۔تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کو ایک میز پر بٹھایا۔
پیغام پاکستان جس کا بہت شہرہ ہے اور اس کو مثبت سمت میں اہم ترین پیش رفت سمجھا جاتا ہے کہ اس فتوی پر پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے جید ترین علماء کرام کے دستخط ہیں۔یہ فتوی اسلامی یونیورسٹی میں تیار ہوا۔اور اس سلسلے کی تمام نشتیں صدر جامعہ کی سرپرستی میں ہوئیں۔اس سلسلہ میں ان کی کاوشیں قابل قدر ہیں۔ان ہی کی کوشسوں سے پیغام پاکستان فتوی پر امام کعبہ شیخ صالح بن حمید نے بھی دستخط کیے۔
ڈاکٹر احمد یوسف الدریوش کی کاوشوں سے بہت ساری عالمی کانفرنسیں پاکستان میں منعقد ہوئی اور لاتعداد کانفرنسوں میں پاکستانی وفود نے شرکت کی۔
اتنا مصروف رہنے کے باوجود ڈاکٹر صاحب مطالعہ اور تصنیف و تالیف کے لیے بھی وقت نکا لتے ہیں۔آپ آٹھ سے زاہد اہم علمی اور تحقیقی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔اور یہ کتب ایسی ہیں جو بین الااقوامی طور پر حوالوں کے لیے کام آ سکتی ہیں۔اوراس سے ایم فل و پی ایچ ڈی کے طلباء فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر احمد یوسف الدریوش صرف نام کے درویش نہیں بلکہ عملی طور پر ایک درویش منش اور خدا خوف انسان ہیں۔رمضان کے آخری عشرے میں ہم نے انھیں حرم شریف میں ساری رات اللہ کے حضور قیام اور نہایت خشوع و خضوع کی حالت میں گڑگڑاتے بھی دیکھا ہے۔بغیر کسی ہجوم کے اپنے بچوں کے ساتھ آخری عشرہ قیام اور عبادات میں گزارتے ہیں۔
ان کی ہر تقریر اللہ کی حمد وثناء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعریف اور تعلیمات پر مبنی ہوتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان سعودی عرب اور عالم اسلام کے لیے دعائیں بھی ان کے ہر وعظ اور خطاب کا لازمی جزو ہو تی ہیں۔
عربی زبان جنت کی زبان ہے۔لیکن ہم اس سے نابلد ہیں۔سابق وفاقی وزیر مذھبی امور سردار محمد یوسف کی خواہش پر ڈاکٹر احمد یوسف الدریوش نے خصوصی طور پر عربی کورس شروع کیا۔اور اس کے پہلے دو طلباء سردار محمد یوسف صاحب اور میں تھے۔اگر چہ ہم روایتی طلباء ثابت ہوئے ۔لیکن اس کورس سے بہت سے احباب نے استفادہ کیا۔اس طرح کے مسقل کورس کی ضرورت ہے ۔تین ماہی اور ششماہی کورسز کے اجراء سے تشنگان عربی کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
صدر جامعہ کو ابھی گذشتہ سال اپنی مدت میں توسیع ملی ہے۔اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس عرصہ میں نہ صرف یونیورسٹی ترقی کرے گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔