اسرائیل اور شامی افواج کی گارنٹی

کہا جاتا ہے کہ شمالی سرحد پر ایرانی فوج کو دور رکھنے کے لیے ‘اسرائیل نے ایران کو شام میں الجھایا ہوا ہے۔دوسری جانب شام میں ہزاروں فوجیوں کی موجودگی‘ ماسکو کو شام کا سب سے بڑا اتحادی بنائے ہو ئے ہے۔ اگر اسرائیل اور روس باہم آمنے سامنے کھل کر آجاتے ہیں‘ تو کیا اسرائیل کا بڑا بھائی‘ امریکہ مداخلت کرنے پر مجبور ہوگا؟ایسا نہیں کہ اسرائیل یا ماسکو لڑائی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ایک اسرائیلی دفاعی سینئر اہلکار نے یروشلم میں اپنے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران کہا کہ ”ہم میں سے کوئی بھی فوجی تصادم نہیں چاہتا‘یہ دونوں ممالک کے لئے خطرناک ہوگا‘‘۔

اسرائیل اور ماسکو کے درمیان تعلقات اس سرد جنگ کے دوران‘ زیادہ گرم دکھائی دئیے‘ غیر ملکی میڈیا کے مطابق ؛آئی ڈی ایف کے اہلکاروں سے سننے کو ملا کہ ”اسرائیل میں کوئی بھی پریشان نہیں ‘روس کون ہے اور اس کے اتحادی کون ہیں‘روس ہمارا اتحادی نہیں ‘وہ نہ ہی ہمارے لیے نرم گوشہ رکھ سکتا ہے‘ہمارے ساتھ ایک اتحادی ہے اور وہ امریکہ ہے‘روس شام میں اپنے مقاصد کی جنگ لڑ رہا ہے ‘اسے شامی حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے ‘ جو اسرائیل کے خاتمے کا ایک واضح مقصد ہے‘ وہ ایک ایسے اتحاد کا بھی حصہ ہے‘ جو ایران کی حمایت کرتا ہے‘‘۔

ستمبر 2018 ء میں مغربی شام میں گولہ باری کا سلسلہ زور پکڑ گیا تھا‘ روس کے فوجی جہاز کواینٹی ائیر کرافٹ میزائل سے نشانہ بنایا گیا‘ اس حادثے میں روسی L-20 نگران جہازگر کر تباہ ہوا‘ جس میں پندرہ افراد ہلاک ہوئے۔اسرائیل نے روسی الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جانب سے جہاز کو نشانہ نہیں بنایا گیا‘بلکہ اسرائیل کی جانب سے مبینہ الزام عائد کیا گیاکہ روس نے شام کو جدید ترینS-300اینٹی ائیر کرافٹ میزائل فراہم کیے ہیںاور بدلے کے لئے اسرائیل پر الزام لگایا۔

اس کے باوجود‘ اسرائیل نے روسی صدر کے بیانات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا‘ جب انہوں نے ایرانی فورسز کو شام سے نکل جانے کا عندیہ دیا۔ نیتن یاہو اور صدرپیوٹن کے درمیان فروری میں ایک اجلاس کے دوران ملاقات ہوئی۔

L20 کے واقعے کے بعد اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا کہ پیوٹن نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ غیر ملکی افواج کا شام سے انخلاء ہوگااورشرق ِاوسط میں اسرائیل کے ساتھ روس کے دوستانہ تعلقات زیادہ اثر و رسوخ قائم کریں گے۔

شام کے صدر بشار الاسد کو بچانے کے باوجود‘ کرملن نے شام میں اسرائیلی حملوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے ۔شام پچاس برس سے زیادہ روس کا اتحادی ہے۔داعش اور دیگر باغی گروہوں سے لڑنے کے لیے2015 ئسے شام میں کم از کم 63000 روسی فوجی موجود ہیں؛اگرچہ پیوٹن نے 2016ء میں وعدہ کیا تھا کہ روسی افواج واپس جائیں گی۔ روس کے فی الحال5000 سے زیادہ فوجی اورٹھیکیدار شام میں موجودہیں‘جوکئی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے شامی افواج کی مدد کرتے ہیں۔شام کی بندرگاہ تارتوس بحیرہ ٔروم میں روس کی بحری فوج موجود ہے۔ 2016 ء میں‘ ماسکو اور دمشق نے چالیس سالہ معاہدے پر دستخط کیے۔ ایک بندرگاہ کے علاوہ ‘ روسی طیارے اور طیاروں سے متعلق فضائی میزائل‘ بشمول طویل عرصہ سے جاری S-400 فضائی دفاعی نظام‘ روس کم ازکم دو ہوائی اڈوں سے تمام نظام چلا رہاہے۔

اسی بابت ایک غیر ملکی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل‘ روس کے ساتھ تعلقات بہتر کر سکتا ہے‘ لیکن ایرانیوں کے ساتھ نہیں۔غیرملکی ادارے نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ا یرانی حکام ایک لاکھ ایرانیوں اور اتحادی فوجیوں کوتہران میں ٹریننگ دے کر شام بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔دعوے میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ حزب اللہ‘ایک اندازے کے مطابق؛ 13000 سے زائد راکٹوں اور ہتھیاروں کے ساتھ‘ پہلے سے ہی اسرائیل اور لبنان کے سرحدی علاقوں میں موجود ہے‘ تاہم اسرائیل کی ناراضی کی وجہ سے ایران‘ شام اور لبنان کے بیس کو استعمال کرتا ہے ۔نیتن یاہو نے جنوری میں دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایرانی ہتھیار وںکے ڈپو پر ایک تباہ کن حملے کے بعد اعلان کیا تھا کہ اسرائیلی ائیر فورس صرف ایسا ہی کر ے گی ‘ جبکہ حزب اللہ نے بدلے میں سینکڑوں بار حملہ کیا۔

آئی ڈی ایف کے ایک اہلکار نے ایک انٹرویومیں کہا ہے کہ ”ہم اپنی منصوبہ بندی پر عملدرآمد جاری رکھنا چاہتے ہیں‘ لیکن روس نے شام میں اسرائیل کے حملوں کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہماری ہر چیز پر نظر ہے‘ ان سب کے باوجود ہم کارروائی کا حق رکھتے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیںـــ‘‘لیکن یہ اس کا ایک مختصر جواب تھا۔جب پوچھا گیاکہ اسرائیلی کارروائی کے لئے کس طرح تیار ہے ‘ کیا اسرائیل ‘روس سے لڑے بغیر شام میں ایران کو نشانہ بنا سکتا ہے‘ بلکہ اسرائیلی اور روسی عسکریت پسندوں کے درمیان ایک ہاٹ لائن بھی ہے؟

غیر ملکی میڈیا کے مطابق؛ اسرائیلی اور روسی افواج کے درمیان طاہری تنازع موجود ہے‘ مگر اسرائیلیوں کو افسوس ہے کہ روس نے اعلیٰ درجے کے ہتھیار‘ طیارے اور میزائل اس کے دشمن کو فراہم کیے۔ اسرائیل کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ شام اور ایران جیسے اسرائیل دشمنوں کو 1970ء کے عشرے میں‘ سوویت یونین نے فضائی ‘دفاعی میزائل اور بندوقیں فراہم کیں‘ جس کی بدولت اکتوبر1973 ء کی جنگوںمیں اسرائیلی جہازوں کو بھاری نقصان پہنچا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے