’’ڈیل یا ڈھیل‘‘ کی کہانیاں

نواز شریف خاموش ہیں اور شہباز شریف لندن میں براجمان۔ قومی اسمبلی میں لیکن شریف خاندان سے وابستہ پاکستان مسلم لیگ کے 80سے زیادہ اراکین موجود ہیں۔کئی ہفتوں سے ایوان کی کارروائی کے دوران ان کی موجودگی کا اگرچہ احساس تک نہیں ہوتا۔

سنا ہے گزشتہ چند دنوں سے وہ اپنے غیر مؤثر نظر آنے کی وجہ سے پریشان ہونا شروع ہوگئے ہیں۔کئی ایک نے دبے لفظوں میں پارلیمانی جماعت کے اجلاس میں یہ شکوہ کیا کہ ’’قیادت‘‘ ان سے رابطے میں نہیں۔

’’قیادت‘‘ سے مراد ان دنوں شہباز شریف ہیں جن کی حکمت عملی ان کی اپنی جماعت کے سرکردہ لوگوں کو بھی سمجھ نہیں آرہی۔کئی ایک اس خوف سے اسمبلی میں خاموشی سے آکر تھوڑی دیر کو بیٹھ کر چلے جاتے ہیں کہ ایوان میں اُٹھے کسی معاملے پر بحث میں جاندار انداز میں حصہ لیتے ہوئے ان کے منہ سے کوئی ایسا فقرہ سرزد نہ ہوجائے جسے ’’قیادت‘‘ کے "Pragmatic” مشہورہوئے رویے کو نقصان پہنچانے کا سبب ٹھہرایا جائے۔

پاکستان مسلم لیگ کے سرکردہ رہ نمائوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی میرا رابطہ نہیں۔متحرک رپورٹنگ سے ریٹائر ہوجانے کے بعد کوئی رابطہ بحال کرنے میں پیش قدمی کی عادت ہی نہیں رہی۔ گاہے اسمبلی کی راہ داری میں پریس گیلری جاتے ہوئے چند لوگوں سے سلام دُعا ہوجاتی ہے۔ روایتی حال احوال کے بعد ہم جدا ہوجاتے ہیں۔ پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے مجھ سے کہیں زیادہ متحرک رپورٹر البتہ مسلم لیگی رہ نمائوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ان میں سے چند میرا بہت احترام کرتے ہیں۔انہیں پریس لائونج میں اپنے ساتھ بٹھاکر بہت سنجیدگی سے معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگی اراکین اسمبلی کیا سوچ رہے ہیں۔ کئی ایک تھوڑا مسکرانے کے بعد طعنہ دیتے ہیں کہ ’’اندر کی بات‘‘ تو مجھ ایسے سینئر مشہور ہوئے صحافی کو انہیں بتانا چاہیے۔

منگل کی شام مسلم لیگ (نون) کی Beatپر فائز پانچ رپورٹر اسمبلی کیفے ٹیریا میں بیٹھے گپ شپ لگارہے تھے۔ میں ان کی گفتگو میں شامل ہوگیا۔ ان سب نے دعویٰ کیا کہ شہباز شریف کی عدم موجودگی میں پاکستان مسلم لیگ (نون) کے اراکین قومی اسمبلی کو متحرک دکھانے کے لئے خواجہ آصف کو رانا تنویر کی جگہ ان کی جماعت کا ’’پارلیمانی لیڈر‘‘ لگایا جارہا ہے۔

میں نے شرارتاََ پوچھا کہ رانا تنویر کو چودھری نثار علی خان سے رابطہ برقرار رکھنے کی وجہ سے ’’سزا‘‘ تو نہیں دی جارہی۔ میرے نوجوان ساتھی سنجیدگی سے اس سوال پر غور کرنا شروع ہوگئے تو میں نے فوراََ اپنے پھکڑپن کا اعتراف کرلیا۔وہ مطمئن ہوگئے۔

ایک نے اطلاع یہ بھی دی کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) کے پچھلی نشستوں پر بیٹھے اراکین قومی اسمبلی ان دنوں بلاول بھٹو زرداری سے بہت متاثر ہورہے ہیں۔خاص طورپر مخصوص نشستوں پر موجود خواتین کا ایک بڑا گروپ ’’شاید جلن‘‘ میں یہ کہنا شروع ہوگیا ہے کہ ان کی جماعت سے آدھی نشستیں رکھنے کے باوجود پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی کارروائی کو گزشتہ کئی ہفتوں سے ہائی جیک کررکھا ہے۔ میڈیا میں بلاول بھٹو زرداری بہت نمایاں ہوگئے ہیں۔

چند ’’سازشی‘‘ ذہن اس شک میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ کہیں پاکستان مسلم لیگ (نون) کو Undermineکرنے کے لئے ’’کوئی‘‘ جان بوجھ کر پاکستان پیپلز پارٹی کو متحرک دکھانے کی Spaceتو مہیا نہیں کررہا۔

مجھے بہت درشتی سے اپنے نوجوان ساتھیوں کو سمجھانا پڑا کہ سیاست بہت ظالم کھیل ہے۔ یہاں ’’کوئی‘‘ کسی بھی سیاست دان کے لئےSpaceفراہم نہیں کرتا۔ اپنی جگہ خود بنانا پڑتی ہے۔ یہ بات کہتے ہوئے مجھے یاد دلانا پڑا کہ 1990کی دہائی کے آغاز میں خواجہ آصف سینٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ مجھ جیسے رپورٹروں کو ان کا لہجہ اور بلند آواز میں بولنا پسند نہیں آیا تھا۔ہم ان پر تنقید کرتے رہے۔

1993میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو اپوزیشن بنچوں پربیٹھنے کے چند ہی دنوں بعد پنجابی محاورے والا ’’چھاچھو‘‘ گئے۔ بہت محنتی رپورٹروں کی طرح انہوں نے ایسے ’’ذرائع‘‘ تلاش کئے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران ہوئے چند فیصلوں کی تفصیلات دستاویزات سمیت انہیں فراہم کردیتے تھے۔ خواجہ صاحب ان دستاویزات کی بنیاد پر ڈرامائی سسپنس پیدا کرتے ہوئے اس حکومت کے خلاف دھواں دھار سکینڈل بنالیتے۔اخبارات انہیں صفحہ اوّل پر چھاپتے۔ رپورٹر Follow Upکو مجبور ہوجاتے۔1997کی نواز حکومت میں خواجہ آصف وزیر بن گئے اور بتدریج چراغوں میں روشنی نہ رہی والا معاملہ ہوگیا۔

بلاول بھٹو زرداری پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میںآئے ہیں۔ابتدائی چند ہفتوں میں وہ ایوان کے ہر اجلاس میں خاموشی سے شروع سے آخر تک بیٹھ کر مشاہدہ کرتے رہے۔بتدریج موصوف نے یہ ہنردریافت کرلیا کہ ایوان میں بولنے کا مناسب وقت کونسا ہوتا ہے۔اس وقت یا موضوع کا تعین کرنے سے قبل وہ اپنے سینئر ساتھیوں سے مشورے طلب کرتے۔کئی صحافیوں کو بھی بہت احترام سے سنتے ہوئے میڈیا میں جگہ پانے کی راہ ڈھونڈی۔ خود کو میسر ہوئے موقعہ کو اب وہ بہت لگن سے سیاست میں آگے بڑھنے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ ان کی محنت بھری پیش قدمی (Initiative)کو ’’سازش‘‘ ٹھہرانا زیادتی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ کی صفوں میں خواجہ آصف،احسن اقبال ،خرم دستگیر اور شاہد خاقان عباسی پارلیمان میں کھڑے ہوکر میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کا ہر حربہ اب جبلی طورپر جان چکے ہیں۔ وہ اپنی صلاحتیں ان دنوں بھرپور انداز میں کیوں استعمال نہیں کررہے۔ اس سوال کا جواب میرے پاس موجود نہیں۔مجھے شبہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ ’’ڈیل یا ڈھیل‘‘ کی کہانیوں میں کچھ وزن ہے۔ ٹھوس حقائق سے بے خبر اگرچہ میں ان کہانیوں کو اکثر Wishful Thinkingشمار کرتا ہوں۔

پاکستانی سیاست میں لیکن ’’ڈیل یا ڈھیل‘‘ کی افواہیں اکثرحقیقت میں بدلتی رہی ہیں۔شاید تاریخ خود کو ایک بار پھر دہرادے۔’’اچھے وقت‘‘ کی امید رکھنا بری بات نہیں مگر ایک تجربہ کار سیاست دان کو قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے ہزار ہا مواقع میسر آتے رہتے ہیں۔ان سے ’’بچ بچاکر‘‘ فائدہ اٹھانا ضروری ہوتا ہے۔وگرنہ سیاست کے بے رحم کھیل میں مسلسل خاموشی سے پیدا ہوئے خلا کو اس اسمبلی ہی میں موجود کوئی اور رکن پُر کرنا شروع کردیتا ہے۔

مسلم لیگ (نون)کی ’’قیادت‘‘ جب تک طے نہیں کرتی کہ اس کی حکمت عملی بالآخر ہے کیا اس وقت تک رانا تنویر کی جگہ خواجہ آصف کو لانے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اہداف کا قطعی انداز میں تعین کئے بغیر میاں شہباز شریف کی جگہ کوئی اور مسلم لیگی رکن اگر قائد حزب اختلاف ہوگیا تب بھی اس جماعت کی صفوں میں گومگو کا عالم طاری رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے