برصغیر تقسیم ہوا۔ دو نئے ملک ؛پاکستان اور ہندوستان وجود میں آئے۔ علامہ اقبال پاکستان کے مصور قرار پائے‘ تو قائداعظم عملی جدوجہد کے قائد قرار پائے۔ ہندوستان میں بھی دو لیڈر سامنے آئے؛ پہلے مہاتما گاندھی تھے ‘تو دوسرے پنڈت جواہر لعل نہرو تھے۔ مہاتما گاندھی اپنی قوم کے باپو قرار پائے۔ ان کی تصویر آج بھی انڈیا کے کرنسی نوٹوں پر شائع ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کا پیشہ وکالت تھا‘ جس سے ان کے گھر کا باعزت گزارا ہو رہا تھا‘ باقی وقت قوم کی بہتری اور بہبود کیلئے وقف تھا۔ حضرت قائداعظم لندن سے بیرسٹر بن کر آئے تھے۔ برصغیر کے مانے ہوئے وکیل تھے۔ وہ اپنی حلال کی ساری کمائی پاکستان کو دے گئے۔ جواہر لعل نہرو کا دامن بھی مالی لحاظ سے صاف تھا‘ جبکہ مہاتما گاندھی کی صورتحال یہ تھی کہ وہ لندن سے بیرسٹر بن کر آئے تو بمبئی اور گجرات میں ان کی وکالت چل نہ سکی۔
آخر کار ایک مسلمان سیٹھ عبداللہ انہیں جنوبی افریقہ لے گئے‘ تاکہ مہاتما گاندھی ان کی تجارتی کمپنی کے قانونی معاملات کی دیکھ بھال کریں۔ برصغیر میں بھی انگریز کا راج تھا اور جنوبی افریقہ میں بھی انگریز کی حکومت تھی۔ انگریز بہت سارے ہندوستانی لوگوں کو جنوبی افریقہ لے گیا تھا۔ مہاتما گاندھی وہاں رفتہ رفتہ تمام ہندوستانی لوگوں‘ جن میں مسلمان‘ ہندو‘ پارسی‘ عیسائی اور سکھ وغیرہ تھے‘ سب کے مفادات کا تحفظ کرنے والے لیڈر بن گئے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مہاتما گاندھی جو ہندوستان میں ناکام ہو گئے تھے۔ ایک مسلمان نے ان کا ہاتھ تھاما اور جنوبی افریقہ میں پلیٹ فارم مہیا کیا اور مہاتما گاندھی لیڈر بن کر ابھرے۔ بعد میں وہ اسی بنیاد پر برصغیر میں ایک بڑے لیڈر بن کر سامنے آئے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ سیٹھ عبداللہ ‘ان کے ساتھ اسلام کی عظمت کی باتیں کیا کرتا تھا۔
عیسائی انگریز دوستوں نے انہیں مسیحیت کی دعوت دی‘ مگر یہ عقیدہ کہ ہمارے گناہوں کا کفارہ جناب مسیح علیہ السلام سولی پر چڑھ کر دے گئے‘ مجھے کچھ بھی متاثر نہ کر سکا ؛البتہ میں نے مسٹر واشنگٹن کی کتاب ”حضرت محمدؐ اور ان کے خلفاء کی سیرت‘‘ اور حضرت محمدؐ کی زندگی سے متعلق انگریز مصنف کار لائل کی کتاپ پڑھی ‘تو ان کی وجہ سے میری نظر میں حضرت محمدؐ کی عظمت اور زیادہ ہو گئی۔
قارئین کرام! پاکستان‘ ہندوستان جب دو نئے ملک بن گئے‘ تو مہاتما گاندھی نے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی پہلی وزارتی کابینہ سے خطاب کیا تو اپنے افتتاحی خطاب میں مہاتما گاندھی نے کہا کہ رام‘ لکشمن وغیرہ طلسماتی شخصیات ہیں۔ ہمیں حکمرانی کرنے میں ان سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی‘ جبکہ ابوبکرؓ اور عمرؓ وہ حقیقی شخصیات ہیں کہ بہترین حکمرانی کرنے کیلئے ان سے راہنمائی لی جا سکتی ہے۔ میں سوچنے لگ گیا کہ انگریزوں کی کتابیں پڑھ کر مہاتما گاندھی کا ذہن اس قدر بدل گیا تھا تو اگر وہ قرآن پڑھ لیتے اور حضرت محمد کریمؐ کی سیرت پڑھ لیتے تو معاملہ ہدایت کا بھی ہو سکتا تھا۔
میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مہاتما گاندھی کا ایک اور واقعہ ان کی آپ بیتی ”تلاشِ حق‘‘ میں میرے سامنے یوں آیا کہ مہاتما گاندھی پہلی بار جب سیٹھ عبداللہ کے ساتھ جنوبی افریقہ گئے تو اکیلے گئے۔ دوسری بار ہندوستان سے اپنی بیوی اور دو بیٹوں کو بھی ساتھ لے گئے۔ دو بیٹے جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے۔ بہرحال‘ اپنی بیوی کستوری بائی اور دو بیٹوں کے ساتھ جب وہ بمبئی سے جنوبی افریقہ کی بندرگاہ نٹال جا رہے تھے‘ تو کل سفر اٹھارہ دن کا تھا۔ چودہ دن کا سفر طے ہو چکا تھا اور چار دن کا سفر باقی تھا تو ایک طوفان نے آن گھیرا۔ یہ طوفان اس قدر شدید تھا کہ بحری جہاز جو مضبوط اور بڑا ہی نہیں‘ بہترین بھی تھا۔ اس سے ہر لمحے چرچراہٹ کی آواز آنے لگیں‘ جس سے یہ ڈر پیدا ہوا کہ شاید جہاز کہیں سے ٹوٹ گیا ہے یا اس میں سوراخ ہو گیا ہے۔ ہچکولوں کا یہ عالم تھا کہ جہاز اب الٹ ہی جائے گا۔ اس وقت عجیب اور انتہائی پُرتاثیر منظر تھا۔ اس خطرے میں سب ایک ہو گئے تھے۔
ہندو‘ مسلمان اور عیسائی سب کے سب آپس کے اختلافات بھول گئے تھے اور اس واحد خدا کو جو سب کا معبود ہے یاد کر رہے تھے۔ بعض لوگوں نے طرح طرح کی منتیں مانیں۔ کپتان بھی مسافروں کے ساتھ دعا میں شریک ہو گیا۔ یہ طوفان کوئی چوبیس گھنٹے تک رہا جب یہ ختم ہوا تو سب کے چہرے خوشی سے دمکنے لگے اور خطرے کے ہٹتے ہی زبانوں پر خدا کا نام بھی نہ رہا۔ موت کا خوف ختم ہوتے ہی خدا سے ڈر کی کیفیت ختم ہو گئی۔ کھانا پینا‘ گانا بجانا اور رنگ رلیاں شروع ہو گئیں۔ قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن میں ایسے منظر کا نقشہ یوں کھینچا ہے( ترجمہ) ”وہ اللہ جو تم لوگوں کو خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے‘ پھر جب تم بحری جہاز میں ہوتے ہو اور موافق خوشگوار ہوائیں‘ ان جہازوں کو چلاتی ہیں۔ مسافر خوش خوش پکنک مناتے ہیں کہ اچانک ایک طوفان آن گھیرتا ہے اور ہر سمت سے موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں‘ مسافروں کو یقین ہو جاتا ہے کہ وہ گھیر لیے گئے ہیں۔ اس موقع پر وہ اپنی پکاروں کو خالص کرتے ہوئے صرف اللہ کو پکارتے ہیں اور کہتے ہیں۔ اے اللہ! اگر اس طوفان سے آپ نے ہمیں بچا لیا تو ہم ضرور بر ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے‘ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو نجات دے دی‘ تو وہ زمین میں ناحق ظلم کی راہیں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں‘‘ (یونس:23-22)۔
جی ہاں! مہاتما گاندھی پر مذکورہ واقعہ کا اثر ہوا اور جب وہ جنوبی افریقہ چھوڑ کر مستقل واپس ہندوستان آنے لگے تو وہاں کے سب لوگوں نے انہیں سونے کے اس قدر تحائف دیئے کہ کستوری بائی کی ناراضگی کے باوجود کئی کیلو گولڈ اور دیگر نقدی وغیرہ انہوں نے عام لوگوں کی بہبود کے لئے واپس دے دی اور وقف ادارہ بنا دیا‘ مگر توحید کو اختیار نہ کر سکے۔ وہ جب واپس ہندوستان آئے تو کالی ماتا کے مندر میں بھی گئے۔ کمبھ میلے میں بھی گئے۔ کیا شک ہے ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ محترم رؤف کلاسرا صاحب نے جیسے لکھا کہ مہاتما گاندھی نے بھوک ہڑتال کر کے پاکستان کے حق کا روکا ہوا پیسہ نہرو سے پاکستان کو دلوایا۔ ہاں ایسا ہوا! مگر وہ اہل کشمیر کا حق نہ دلوا سکے۔
اللہ کے رسولؐ نے جب مکہ فتح کیا تھا‘ تو ابوجہل کا بیٹا عکرمہ بھاگ کھڑا ہوا ‘وہ بحیرۂ احمر میں ایک کشتی میں سوار ہوا۔ ایسے ہی ایک طوفان نے کشتی کو گھیر لیا تو لوگوں نے اپنے اپنے معبودوں کو پکارنا شروع کر دیا اس پر بعض کشتی والے بولے اور کہنے لگے ”خالص اللہ واحد سے مدد مانگو۔ تمہارے بنائے ہوئے معبود یہاں کام نہ آئیں گے۔
اس پر عکرمہؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر سمندر میں نجات صرف اللہ دیتا ہے تو خشکی میں بھی اللہ کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا۔ اے اللہ! اگر آپ نے مجھے یہاں سے بچا لیا تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ حضرت محمدؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا‘ کیونکہ میں انہیں درگزر کرنے والا اور مہربان پاتا ہوں؛ چنانچہ عکرمہؓ حاضر ہوئے اور مسلمان ہو گئے‘‘ (نسائی: صحیح للالبانی:4072) ۔قارئین کرام! بات ہو رہی تھی مہاتما گاندھی کی۔ وہ برہمچاری بن گئے تھے۔ ان کا آبائی صوبہ گجرات تھا۔ یہیں انہوں نے آشرم بنایا‘ جس میں شودروں کو بھی داخلہ دیا۔
اس پر برہمن ان کے خلاف ہو گئے۔ بہرحال! مہاتما گاندھی دنیا سے تو کنارہ کش ہو گئے ‘مگر نہ خود توحید کو اپنا سکے اور نہ ہی ہندوؤں کی اصلاح کر سکے۔ چھوت چھات کو برا سمجھنے کے باوجود اسے بھی ختم نہ کر سکے اور اس پارٹی کی گولی سے مارے گئے کہ آج جس پارٹی‘ یعنی آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے‘ اسی گجرات سے نریندر مودی اٹھا۔ وہ احمد آباد میں سینکڑوں ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلا کر ان کی راکھ کے سیاہ طوفان میں وزیراعظم بنا اور اب دوسری بار شاید پھر وزیراعظم بننے جا رہا ہے کہ اب کے اس طوفان میں اہل کشمیر اور سارے ہندوستان کے مظلوموں کی راکھ اڑ رہی ہے اور اس میں سے گجرات کا نریندر مودی کشمیر اور ہندوستان کے کمزوروں کو دھمکیاں دیتا دکھائی دیتا ہے۔
مہاتما گاندھی کون تھا اور اب اسی گجرات سے نریندر مودی ظالم اور کرپٹ کیسا آدمی ہے؟ اسی طرح میرے عزیز وطن پاکستان کے قائداعظم کیسے عظیم قائد تھے اور آج ملک میں جو حکمرانی گزشتہ کئی عشروں سے چل رہی ہے‘ وہ کرپشن کا شکار ہے اور نااہلی کا شکار ہے۔ ہم سب اپنے مولا کریم سے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اے مولا کریم! پاکستان کو کوئی قائداعظم عطا فرما دے۔ ہندوستان کو کوئی مہاتما گاندھی دے دے‘ تاکہ کرپشن سے کوسوں دُور دونوں ملکوں کے لوگ خوشحالی پا سکیں۔ امن کی نعمت عطا فرما دے کہ جنگ و جدل سے فاصلے کر کے امن کو مواقع دینے والے بن جائیں۔ (آمین)