جوڑ کے طبیب عامر عزیز

اللہ کے رسول حضرت محمد کریم ﷺنے فرمایا مجھے ہڈیوں کے سات اعضاپر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ اعضا‘ پیشانی‘ دونوں ہاتھ‘ دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں ہیں (بخاری:809)۔ ڈاکٹر عامر عزیز صاحب ہڈیوں اور جوڑوں کے ممتاز ڈاکٹر ہیں۔ پاکستان ان کا اپنا ملک ہے‘ وہ دنیا بھر میں معروف ہیں۔ بیرونی دنیا سے انہیں پیشکشیں بھی ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب مجھے بتلا رہے تھے کہ میرا دل پاکستان میں اہلِ پاکستان کی خدمت سے خوش ہوتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ سات ہڈیاں جن کا ذکر اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے‘ یہ ٹوٹی ہوئی جب ڈاکٹر عامر عزیز صاحب کے ہاتھوں درست ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہیں تو ان سجدوں کا اجر و ثواب ڈاکٹر عامر عزیز اور ان کے ساتھیوں کے نامۂ اعمال میںکس قدر لکھا جاتا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ یاد رہے! بے عمل‘ بے نماز اور ظالم قسم کے مسلمان جہنم میں پھینکے جائیں گے تو حضور حضرت محمد کریمؐ نے فرمایا کہ وہ جل کر کوئلہ بن جائیںگے۔

آخر کار اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فرشتوں کے ذریعے نکالیں گے تو وہ فرشتے سجدوں کے نشانات کو دیکھ کر جہنم سے نکالیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ پر حرام کر دیا ہے کہ وہ مسجدوں کے نشانات کو جلائے (بخاری: 806)۔دنیا کی زندگی آزمائشوں اور تکلیفوں میں گھری ہوئی زندگی ہے۔ ایکسیڈنٹ تو اونٹوں اور گھوڑوں پر سواری کرتے ہوئے بھی ہوتے تھے مگرگاڑیوں اور بسوں کے موجودہ تیز رفتار دور میں حادثات کا کوئی شمار ہی نہیں رہا۔ کسی بھی ہسپتال کے ہڈی جوڑ یا آرتھو پیڈک شعبے میں چلے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ حادثات کی کیا صورتحال ہے۔ لاہور کے ایک کنارے جلو موڑ کے دامن میں بی آر بی نہر کے کنارے ہمارے بھائی محسن بلال نے ایک ہسپتال بنایا ہے۔ وہ اس ہسپتال کے چیئرمین ہیں۔ ڈاکٹر عامر عزیز کی خدمات کو انہوں نے حاصل کیا اور پھر ہسپتال میں ہڈی جوڑ کا ایک شعبہ بنایا گیا۔ ڈاکٹر عامر صاحب کی نگرانی میں بننے والا یہ شعبہ اب ملک بھر میں ممتاز مقام کا حامل ہے۔

زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کے رسولؐ کی مبارک زندگی سے ہمیں راہنمائی ملتی ہے۔ حوصلہ اور صبر ملتا ہے۔ ایکسیڈنٹ کے حوالے سے جب میں نے اپنے پیارے اور محبوب رسول گرامی کی زندگی پر غور کیا تو حضرت جابرؓ کی روایت کردہ ایک حدیث میرے سامنے آئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں اللہ کے رسولؐ گھوڑے پر سوار ہوئے۔

گھوڑے نے (رفتار پکڑی اور) کھجور کے درخت کے تنے پر گرا دیا۔ اس سے آپؐ کے پاؤں مبارک کا جوڑ اپنی جگہ چھوڑ گیا؛ چنانچہ ہم آپؐ کی خدمت میں عیادت کے لئے حاضر ہوئے۔ آپؐ حضرت عائشہؓ کے گھر میں تھے۔ ہم نے آپؐ کودیکھا کہ آپؐ بیٹھ کر نفل ادا فرما رہے ہیں(ابو داؤد:602۔ ابن ماجہ: 3485۔صحیح)۔ یاد رہے! حدیث میں ”فَانْفکَّتْ‘‘ کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے کہ پاؤں مبارک کی ہڈی بھی تھوڑی سی فریکچر ہو گئی تھی۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے حضورؐ کی سیرت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اللہ سے تعلق کو قائم رکھنا چاہیے۔ میں نے ڈاکٹر عامر عزیز صاحب کے لئے طبیب کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس لئے کیا ہے کہ یہ لفظ میرے حضورؐ کی مبارک زبان سے نکلا ہے۔ اس لفظ میں نرمی اور پیار کے معنی پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عامر عزیز ایسے ہی ڈاکٹر ہیں۔ میں دیکھ رہا تھا وہ اپنے مریضوں کو چیک کر رہے ہیں۔ مسکراتے جاتے ہیں۔

حوصلہ اور ہمت بندھانے کے ساتھ ساتھ دل لگی کے خوبصورت جملے بول کر مریض کو خوش بھی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر اور طبیب کو ایسا ہی ہونا چاہئے۔ ایک مریض سے کہا ہوا ڈاکٹر صاحب کا یہ جملہ مجھے بہت ہی اچھا لگاکہ قائداعظم ہمیں بھی بڑے پیارے ہیں مگر ہماری نظر قائداعظم (نوٹ) سے زیادہ اپنے اللہ پر ہے۔ اخروی اجر و ثواب پر ہے۔ جی ہاں! یہ اسی نظر کا رزلٹ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نرم نرم پیاری گفتگو بھی مریضوں سے کرتے جاتے تھے اور بغیر فیس کے مستحق مریضوں کو دیکھتے چلے جا رہے تھے۔یہ ہسپتال تجارتی ادارہ نہیں بلکہ ایک رفاہی ادارہ ہے۔ محترم ڈاکٹر عامر صاحب اس ادارے کے ٹرسٹ کے ممبر بھی ہیں۔ معروف سیاستدان محترمہ ثمینہ گھرکی بھی ٹرسٹ کی ممبر ہیں۔ یہ اور دیگر ممبران اب ایک اور منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔

اس منصوبے کے بارے میںمحترم ڈاکٹر عامر عزیز اور محمد نعیم نے مجھے قدرے تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا۔ یہ منصوبہ کینسر کے علاج کا منصوبہ ہے۔ کینسر کے علاج کی بات ہو تو نظر فوراًشوکت خانم ہسپتال کی طرف اٹھتی ہے مگر یہ سن کر دل خوش ہواکہ کینسر کے علاج میں انسان کے جوڑوں کے کینسر کے علاج کو یہاں ممکن بنانے کی کوشش ہو رہی ہے اور یہ ایسی کوشش ہے جو لاہور میں موجود نہیںہے ‘یہ کیسی مبارک کوشش ہے۔ جائزہ حاضرِ خدمت ہے کہ ہسپتال میں ایک ایسا شعبہ قائم کیا گیا جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا شعبہ ہے۔ اس کا نام ”آرتھو پیڈک اینڈ سپائن سرجری‘‘ ہے۔ عامر عزیز صاحب اس کے پیٹرن انچیف ہیں یعنی انسانی جوڑوں کو جوڑنے کے ساتھ ساتھ کمر میں ریڑھ کی ہڈی کا بھی علاج شروع ہو گیا۔

قارئین کرام! اس ضمن میں حضرت عمرؓ کا بیان کردہ ایک واقعہ میرے سامنے آ گیا۔ کہتے ہیں ”میں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ کا حبشی غلام آپؐ کی کمر مبارک کو آہستہ آہستہ دبا رہا تھا۔ میں نے پوچھا:اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہوا؟ فرمایا: اونٹنی نے مجھے گرا دیا تھا(البزّار:282حسن) ۔جی ہاں! ڈاکٹر عامر صاحب میرے حضورؐ کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ ریڑھ کے آپریشن کرنے لگے۔ جب ریڑھ کی ہڈّی میں کینسر کے مریض سامنے آئے تو علاج میسر نہ تھا۔ ریڑھ کی ہڈّی جو گردن سے ہوتے ہوئے دماغ تک جاتی ہے‘ انتہائی اہم۔ کینسر کا ٹیومر گردن میں ہو‘ سر کے اندر دماغ میں ہو‘ اس کے کامیاب ترین علاج کے لئے دنیا میں ایک نئی ٹیکنالوجی سامنے آ چکی ہے۔

اسے سائبرنائف کہا جاتا ہے۔ یہ روبوٹک سرجری ریڈیو سسٹم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 250کے قریب سائبر نائف کے سسٹم موجود ہیں۔ پاکستان میں یہ صرف کراچی میں موجود ہے۔ یہ انتہائی مہنگا ہے۔ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میںایک مریض کے علاج پر 50سے 90ہزار ڈالر خرچ ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں اس رقم کا اندازہ 60لاکھ سے ایک کروڑ تک ہے بلکہ اس سے بھی زائد ہے۔ اس سسٹم سے جب سرجری کی جاتی ہے تو روبوٹ شعاعوں کے ذریعے سرجری کرتا ہے۔ سرجری میں دو گھنٹے لگتے ہیں اور اس کے بعد مریض خود اٹھ کر گھر چلا جاتا ہے۔ اس طریقہ علاج میں انفیکشن کا کوئی خطرہ نہیں۔ کامیابی کی شرح 99فیصد ہے۔ اس ہسپتال میں اس شعبے کی بلڈنگ بن چکی ہے۔

فنشنگ کا کام تیزی سے ہو رہا ہے۔ جس روبوٹک سسٹم کو یہاں نصب کیا جائے گا اس کی قیمت چالیس کروڑ روپے ہے۔ ٹرسٹ کے تمام ممبران رقم اکٹھی کرنے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ برطانیہ سے بھی کئی مخیر حضرات اس نیک کام میں حصہ لے رہے ہیں۔ مجھے جب ڈاکٹر عامر عزیز‘ محمد نعیم اور ڈاکٹر خرم اعجاز کے ذریعے مذکورہ انسانی خدمت کا پتہ چلا اور یہ معلوم ہوا کہ یہاں مستحق لوگوں کا علاج مفت کیا جائے گا تو میں نے اپنے کالم کے ذریعہ حصہ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ رمضان المبارک ہمدردی اور غمگساری کا مہینہ ہے ہمیں دو تین دن بعد شروع ہونے والے ماہِ مبارک میں سائبر نائف سسٹم میں ضرور حصہ ڈالنا چاہئے۔ حضورؐ کے فرمان کے مطابق پیاسے کتّے کو پانی پلانے کی وجہ سے بنو اسرائیل کی بدکار عورت کو جنت مل گئی تھی تو ایک انسان کی تکلیف کو دور کرنے میں تعاون کتنی بڑی نیکی ہے تصور سے باہر ہے۔

حضرت عروہ بن زبیرؓ حضرت عائشہؓ کے بھانجے تھے۔ انہوں نے ایک بار اپنی خالہ جان سے سوال کیا کہ آپ کی حکمت و دانائی اور علم پر تعجب نہیں ہے کیونکہ اے اماں جان! آپ حضور کریمؐ کی زوجہ محترمہ ہیں۔ مجھے حیرانی آپ کے اس علم پر ہے جو ڈاکٹری سے متعلق ہے۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: اللہ کے رسولؐ جب اپنی زندگی کے آخری ایام میں بیمار ہوئے تھے تو آپؐ کے پاس عیادت کے لئے وفود آیا کرتے تھے وہ مختلف نسخے اور غذائیں تجویز کرتے تھے۔

میں ان چیزوں سے آپؐ کا علاج کرتی تھی وہیں سے ڈاکٹری کی نعمت مل گئی (مسند احمد)
قارئین کرام! کالم کا اختتام ہم اپنی اماں جان حضرت عائشہؓ کی اس بیان کردہ حدیث سے کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا! اولادِ آدمؐ میں ہر انسان کو تین سو ساٹھ جوڑوں پر پیدا کیا گیا ہے۔ اس کے بعد حضورؐ کے فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ جس نے اپنے رب کا ذکر کیا۔ لوگوں کے راستے سے پتھر اور کانٹے وغیرہ ہٹائے۔ (اس کے جوڑ اس طرح آزاد ہو جائیں گے) کہ مذکورہ انسان نے اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے آزاد کرا لیا۔ (مسلم:1007) جی ہاں! آج کی جدید میڈیکل ریسرچ یہی ہے کہ انسانی جوڑوں کی تعداد 360ہے۔ ان جوڑوں کی زکوٰۃ اپنے اللہ کریم کی یاد اور اس کے دکھی بندوں کی خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے