بند گلی سے نکلنے کا راستہ

وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو آئے اب قریباً نو ماہ ہو چکے ۔ اب حکومت وقت کے پاس ماضی کی حکومتوں کی ناکامیوں کی داستان سنانے کی سہولت ختم ہو تی جا رہی ہے۔ کرپشن کے مسلسل بلاثبوت بیانیے کی گردان سے اب عوام بور ہوتے جا رہے ہیں۔ اربوں ، کھربوں کے غبن کی افسانوی داستانیں اب یکسانیت کا شکار ہو چکیں۔ سیاسی انتقام اب لوگوں کو کھلنے لگا ہے۔ لوگ اب اس بیانیے کے سوا کچھ چاہتے ہیں۔ کچھ فلاح کا پیغام، کچھ روزمرہ کی سہولت عوام کا تقاضا ہو رہی ہے۔ لیکن حکومت وقت کے پاس ماضی کی حکومتوں کو کوسنے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ تبدیلی کے جو سہانے خواب دکھائے گئے تھے لوگوں کی آنکھیں انکی تعبیر کے انتظار میں ترس گئی ہیں۔

لوگ اپنی تقدیر کے تبدیل ہونے کے منتظر ہیں مگر یہاں تماشا یہ ہے کہ کئی برس گزر گئے ہیں تقدیر تو کیا تقریر نہیں تبدیل ہوئی ۔ ایک ہی بات ہے جو کسی رٹے رٹائے طوطے کی طرح ہر وزیر ، مشیر کی زبان پر ہے۔ ایک ہی بیانیہ ہے جو بغیر کسی ثبوت ، بنا کسی دلیل کے ہر عوامی خطاب میں دہرا دیا جاتا ہے۔ حکومت وقت کو اس بات کا خیال ہونا چاہیے کہ بات اب کنٹینر کی سیاست سے آگے نکل گئی ہے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر بات عوام کی دسترس تک پہنچ گئی تو پھر بجلی اور گیس کے بلوں کے ڈسے عوام، پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کے زخم خوردہ عوام فیصلے عدالتوں اور ایوانوں میں نہیں کرتے۔ پھر بات گائوں گائوں ، قریہ قریہ اور شہر شہر سڑکوں پر ہوتی ہے۔ وہیں عوام کی عدالت سجتی ہے، وہیں فیصلہ ہوتا ہے اور وہیں سزا سنا دی جاتی ہے۔ بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ عوام کے عتاب سے بچنا چاہئے۔ اسی میں عافیت ہے۔

نو ماہ کی کارکردگی میں ایک بھی ایسا کارنامہ نہیں جس کا سہرا حکومت کو پہنایا جا سکے۔ کوئی ایسا پروجیکٹ نہیں جس پر فخر کیا جا سکے۔ معاشیات سے سماجیات تک اوربین الا قوامی تعلقات سے اخلاقیات تک ہر شعبہ زوال کا شکار ہے۔کوئی اثبات کا پہلو اگر نظر آجائے تو اس کو ضرور جلی حروف میں لکھنا چاہئے مگر اس قدر نفرت کے ماحول میں اثبات کا پہلو کہیں دور تک ، بلکہ بہت دور تک نظر نہیں آ رہا۔ نہ غریبوں کا کوئی پرسان حال ہے ، نہ بڑھتی قیمتوں کی کوئی روک تھام ہے، نہ معیشت کا کوئی نظام ہے۔

نہ اسٹاک مارکیٹ کی تنزلی کی وجہ بیان کی جا رہی ہے، نہ برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے نہ درآمدات میں خاطر خواہ کمی ہو رہی ہے،نہ ڈھائی کروڑ بچے اسکول گئے ہیں نہ انہیں اسکول نصیب ہوئے ہیں، نہ اسپتال تعمیر ہوئے ہیں، نہ پولیس کا نظام بدل گیا ہے، نہ اقربا پروری ختم ہوئی ہے ، نہ باہر سے لوگوں نے آکر پاکستان میں ملازمتیں شروع کر دی ہیں نہ سبز پاسپورٹ کو عزت ملی ہے نہ فی الحال ایک کروڑ نوکریاں دستیاب ہوئی ہیں نہ پچاس لاکھ گھر بنے ہیں۔نہ پشاور کی بی آر ٹی تعمیر ہوئی ہے نہ بلوچستان میں امن ہوا ہے، ان نو ماہ میں بس عوام پر عرصہ حیات تنگ ہوا ہے۔ ان چند ماہ میں مہنگائی کی شدت میں اضافہ ہو اہے۔ ادویات کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ کابینہ میں اضافہ ہوا ہے۔ انتشار میں اضافہ ہوا ہے۔ نفرت میں بڑھوتری ہوئی ہے۔ بد انتظامی و بد امنی میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی ارکان کی جانب سے گالم گلوچ میں شدت آئی ہے۔

متنازعہ فیصلوں کے مطابق آپ نواز شریف کے خلاف چاہے کتنی ہی بلند آواز میں نعرہ لگا دیں مگر اس دور حکومت کی چند حقیقتیں ہیں جن سے مفر ممکن نہیں ۔ اس دور میں لوڈ شیڈنگ کاخاتمہ ہوا تھا۔ امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی تھی۔ گروتھ ریٹ پانچ اعشاریہ آٹھ ہوا ، انفراسٹرکچر کی مد میں بہت سے پروجیکٹس کا آغاز اور تکمیل ہوئی تھی۔ ریلوے کا نظام بہتر ہوا تھا۔ ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں بہتری آئی تھی۔ کراچی کی روشنیاں بحال ہوئی تھیں۔ شدت پسندی میں کمی واقع ہوئی تھی۔

میٹروز اور موٹر ویز بنی تھیں۔ سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کا آغاز ہوا تھا۔ میڈیا پر اپوزیشن کی بات کرنے کی اجازت تھی۔ سیاسی انتقام کا کوئی سلسلہ نہیں تھا۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں کنٹرول میں تھیں۔ روپےکی قدر میں اگر اضافہ نہیں ہوا تھا تو تنزلی کا بھی کوئی امکان نہیں تھا۔ پاکستانی اسٹاک مارکیٹ ایشیائی مارکیٹوں میں اپنا مقام بنا رہی تھی۔ صوبوں کو انکے منصفانہ حقوق دیئے جا رہے تھے۔ ہونہار طلباء و طالبات میں لیپ ٹاپ تقسیم کئے جا رہے تھے۔ ہیلتھ کارڈ اور خدمت کارڈ کا اجرا ہوا تھا۔ اور داد دیجئے حکومت وقت کو کہ اس نے صرف نو ماہ کی قلیل مدت میں سب کچھ الٹا کر رکھ دیا ہے۔ اب ہر شعبے میں زوال کی کیفیت ہے۔

جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جو کبھی ناکام نہیں ہوتا ۔ اگر اس نظام میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ ناکامی حکومت وقت کی کہلائی جاتی ہے۔ اس نظام کی خوبی یہی ہے کہ یہ اپنے خود کار طرز عمل سے درستی کی جانب عوام کو لے کر جاتا ہے۔ جو بحرانی صورت حال اس وقت ملک کی ہے یہ بحران جمہوریت کا نہیں حکومت وقت کا ہے۔ اس طرح کی بحرانی حکومتیں وقتی ہوتی ہیں۔ اس طرح کی ابترصورت حال میں جمہوریت کا خود کار نظام عمل میں آتا ہے۔ اپنی تصحیح خود کرتا ہے۔ لوگوں کے انتخاب میں اگر غلطی ہو گئی ہے تو غلط لوگوں کو اس نظام سے ہٹانے کا طریقہ بھی جمہوریت ہی دیتی ہے۔ اس طرح کے مرحلوں میں عوام کا غیظ و غضب کام آتا ہے۔ اپوزیشن کو فعال بناتا ہے۔

اپنی اصلاح خود کرتا ہے اصلاح احوال کا ایک طریقہ تو اپوزیشن کے ہاتھ میں اس وقت بھی موجود ہے۔ پنجاب کی حد تک تو جب چاہے حکومت گرائی جا سکتی ہے۔ وفاق میں بھی اڑان کے لئے تیار پنچھیوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ لیکن اس سے وقتی اصلاح تو ممکن ہے مگر مکمل تبدیلی نہیں ۔ اس صورت حال سے نکلنے کا واحد ذریعہ نئے انتخابات ہیں ۔ اس کی آواز جلد ہی اپوزشن کی طرف سے سنائی دی جائے گی۔ منصفانہ، شفاف اور آزادنہ انتخابات ہی اس مشکل سے نکلنے کا واحد طریقہ ہیں۔ اس پر تمام اپوزیشن پارٹیوں کا اتفاق ہی اس ملک کے بہترمستقبل کا راستہ ہے۔ یہ عین جمہوریت بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔ اس بند گلی سے نکلنے کا اب یہی واحد راستہ بچا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے