دو روز پہلے یکم مئی تھی، دنیا بھر کے اُن اربوں انسانوں کا دن جو ہاتھ اور پاؤں کی مشقت سے روزی کمانے کا جتن کرتے ہیں۔ جن کے ہاتھ دن رات کی محنت سے چوب خشک کی تصویر بن گئے ہیں، جن کے کندھے زندگی کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے شل ہو گئے ہیں، جن کے پاؤں اونچی چٹانوں اور نشیبی گھاٹیوں سے گزرتے گرد وغبار کے مستقل سانچے میں ڈھل گئے ہیں، جن کی آنکھوں میں برسوں کی اچٹی ہوئی نیند کا رنگ اتر آیا ہے لیکن جنہیں دو وقت کی روٹی کا یقین ہے اور نہ سر پر چھت کی ضمانت۔ جنہیں بیماری میں دوا میسر نہیں اور عدالت میں انصاف نہیں ملتا۔ یہ افتادگانِ خاک جن کے نام پر پارلیمان سجائے جاتے ہیں، جن کی بے نامی نمائندگی کی آڑ میں سیاست کا بازار چمکایا جاتا ہے، جن کے حقوق ہر انقلاب میں رہن رکھے جاتے ہیں، جن کا مفاد ہر تحریک میں نیلام کیا جاتا ہے، جن کا احترام ہر آمریت میں پامال کیا جاتا ہے، جن کے نام پر جنگوں کو جواز دیا جاتا ہے، جنہیں ہر لڑائی میں توپوں کا ایندھن بنایا جاتا ہے، جن کے نام پر درسگاہوں میں علم کا بیوپار ہوتا ہے، جن کی نیک دلی کے صدقے عبادت گاہوں میں تقدیس کا سکہ چلایا جاتا ہے۔
قحط ہو یا سیلاب، مٹی سے پیالہ اور لوہے سے اوزار بنانے والے یہ خاک کے پتلے کوئی نشان چھوڑے بغیر غبار ہو جاتے ہیں۔ خشک سالی ہو یا زلزلہ، لکڑی سے دروازہ اور کپاس سے کپڑا بننے والی یہ بے اختیار مخلوق سانس کی تہمت سے آزاد ہو جاتی ہے۔ دنیا میں جو بھی اچھا ہے، اُن زمیں زادوں کے ہاتھ کا ثمر ہے، دنیا میں جو نیکی ہے، اُن سادھارن انسانوں کے گرم جوش دلوں سے پھوٹی ہے۔ محنت دنیا کی واحد غیر متنازع نیکی ہے۔ استحصال دنیا کا واحد غیر متنازع گناہ ہے۔ محنت سے محبت کی کونپل پھوٹتی ہے۔ استحصال سے نفرت اور بیگانگی جنم لیتی ہے۔ یکم مئی محنت کرنے والوں کا دن ہے، نیکی کا تہوار ہے۔
یکم مئی کے ٹھیک دو روز بعد تین مئی کو صحافت کی آزادی کا دن منایا جاتا ہے۔ محنت کرنے والوں کے دن اور محنت کرنے والوں کی تکلیف بیان کرنے والوں کے دن میں ایک روز کا وقفہ ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس مردِ مجرد کو یاد کر لوں جس نے اکیس صدی پہلے کچلے ہوئے انسانوں کو خدا کی بادشاہی کی بشارت دی تھی۔ محبت کا درس دینے والے اِس مسیحا پر سلطنت روما سے بغاوت کا الزام لگایا گیا۔ جمعے کا روز تھا جب اسے مصلوب کیا گیا۔ ایک دن کا وقفہ بیچ میں تھا اور ہمارے مسیحی بہن بھائیوں کے عقیدے کے مطابق اتوار کے روز اسے حیات نو ملی۔ گڈ فرائی ڈے اور ایسٹر میں ایک دن کا وقفہ ہے۔ آج کی دنیا میں پچھڑے ہوئے انسانوں کے دن اور ان بے آواز انسانوں کے دکھ کو دستاویز کرنے والوں کے دن میں بھی ایک ہی روز کا فاصلہ ہے۔ صحافت سیاست کا وہ اعلیٰ ترین درجہ ہے جو منصب کی ترغیب اور طاقت کی دھونس سے بےنیاز ہو کر واقعے کو ضمیر انسانی کا حصہ بناتا ہے۔ صحافت انسانی تمدن کا وہ قیمتی اثاثہ ہے جس کے بغیر انصاف، جوابدہی، شفافیت، جمہوری شرکت اور احترام انسانی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
اکیسویں صدی کا دوسرا عشرہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ دنیا بھر میں امن، رواداری، مساوات اور روشن خیالی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اب سے تین عشرے قبل انسانوں نے محنت کشوں کے نام پر قائم استبداد کے خلاف جمہوریت کی لڑائی جیتی تھی۔ خیال تھا کہ ہم غربت اور بے اختیاری کی مساوات سے خوشحالی کی مساوات کی طرف قدم بڑھا سکیں گے۔ ایسا نہیں ہو سکا۔ دنیا کی سب سے ترقی یافتہ جمہوریت ہو یا قدیم ترین جمہوریت ہو یا نوے کروڑ رائے دہندگان کی سب سے بڑی جمہوریت ہو، جمہوریت اکثریت کے استبداد میں تبدیل ہو رہی ہے۔ جمہوریت کا بنیادی اصول انسانی مساوات ہے، ووٹوں کی عددی اکثریت کو فیصلہ کن عامل تسلیم کر لیا جائے تو جمہوریت تفرقے کا آلہ کار بن جاتی ہے۔ جمہوریت کے سامنے بہت بڑا چیلنج یہ ہے کہ کثرت رائے کے طریقہ کار کو جمہوری مساوات کے ارفع اصول سے کیسے ہم آہنگ کیا جائے؟
دوسرا بڑا چیلنج کھلی منڈی کی معیشت اور استحصالی اجارے کے خطرے میں توازن پیدا کرنا ہے۔ جمہوریت تو کمزور کو امید دلانے کا بندوبست ہے۔ اگر جمہوریت طاقتور کی مستقل بالادستی میں بدل جائے تو اس سے صرف ناقابلِ برداشت معاشی تفریق ہی پیدا نہیں ہو گی بلکہ معاشرتی انتشار اور عالمی تصادم کا راستہ کھل جائے گا۔ تیسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ اسلحے کی مجرمانہ تجارت سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔ اب اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اسلحہ بنانے اور بیچنے والے منظم منصوبہ بندی کے ذریعے عالمی تنازعات اور جنگوں کی آبیاری کرتے ہیں۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اسلحے کے بڑے خریدار ملکوں میں انسانی آزادیوں کی صورت حال دگرگوں ہے۔ اسلحہ سازی کی صنعت نوع انسانی کے لئے ایسا ہی بنیادی اخلاقی سوال ہے جیسا کہ انفرادی غلامی اور نوآبادیوں کا مسئلہ حالیہ انسانی نسلوں کے لئے وجودی نزاع کی حیثیت رکھتا تھا۔ چوتھا اہم سوال ریاست کی حدود سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم نے گزشتہ صدی میں درجنوں ممالک کو قومی آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوتے دیکھا لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ بیرونی غلامی سے آزاد ہونے والے اپنی ہی آزاد ریاستوں میں بے اختیار ہو کر رہ گئے ہیں۔ قومی خود مختاری اپنے ہی شہریوں کی آزادیوں سے کھلواڑ کا جواز بن کر رہ گئی ہے۔ سرد جنگ میں بنیادی آزادیوں اور انسانی حقوق جیسے اخلاقی معیارات کی بات کی جاتی تھی۔ آج دنیا بھر میں قومی ریاستیں ایک نیم مجرمانہ بندوبست کے طور پر سامنے آ رہی ہیں۔
جس ملک میں صحافیوں کی سب سے بڑی تعداد بندی خانوں میں قید ہے، وہ ایک غیرملکی صحافی کے قتل کی دہائی دے رہا ہے۔ آزادی صحافت کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان اور بھارت میں ایک جیسا انحطاط سامنے آیا ہے لیکن ایک دوسرے پر الزام تراشی کی دوڑ جاری ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ قومیں اتنی ہی ترقی کر سکتی ہیں جتنی اُن کی صحافت مستحکم ہو گی۔ آج کا سبق یہ ہے کہ صحافت کی آزادی کو بین الاقوامی سرحدوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ استحصال، جنگ، نفرت، اجارے اور بالادستی کی تجارت کرنے والے صحافت کی بیخ کنی میں یکسو ہیں۔ اِس میں مشرق و مغرب کی کوئی تفریق نہیں۔ اگر ہمیں ایک بہتر دنیا کی طرف قدم بڑھانا ہے تو آمدنی، وسائل، رسائی اور اختیار کے اعتبار سے کمزور اور غریب انسانوں کے مفاد کو سیاست کا مرکزہ بنانا ہوگا۔
سیاست کو مٹھی بھر سرمایہ داروں کی سازش بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ معاشی انصاف، علمی امکان اور سیاسی مساوات کے اِس اعلیٰ انسانی نصب العین کی طرف بڑھنے کے لئے صحافت کو پابندیوں، خوف، تشدد اور تحریص سے نجات دلانا ہو گی۔ آزاد صحافت ریاستی اہل کاروں کی سفر مینا نہیں ہو سکتی اور نہ اُسے تجارتی مفادات کی باندی بنایا جا سکتا ہے۔ انسانی معاشرہ بھلے مانس لوگوں کی بستی ہے لیکن یہاں زورآوری کی وبا نے زور پکڑ لیا ہے۔ ہمیں آنے والی نسلوں کو آزاد صحافت کے قطرے پلانے کی ضرورت ہے۔