یوم آزادی صحافت

صحافی کسی بھی معاشرے کا آئینہ ہوا کرتے ہیں یہ بات تمام قارئین جانتے ہیں بلکہ اس شعبہ سے منسلک افراد تو بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں آئینے اور آئینہ خانوں کے کیا حالات ہیں بحر کیف آئینے کا استعمال بسا اوقات چہرے پہ پڑی گرد اور آنکھوں میں جمع ہوئی میل کچیل کو صاف کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اسکا زیادہ استعمال خود کو جاذب نظر دکھانے اور خوبصورت دکھنے کو بھی کیا جاتا ہے

آزادی صحافت ، آزادی اظہار رائے ، معاملات پر کھل کر بولنا اور مسائل کا حل یہ کسی بھی صحافی کا بنیادی حق اور فرائض میں شامل ہوتے ہیں تحریر کا مقصد آزادی صحافت کے صحیح معنوں اور اس سے جڑی مشکلات پہ روشنی ڈالنے کی کوشش ہے

خیر قصہ

مختصر یہاں مملکت خداداد کی صحافت اور یہاں کے صحافیوں کے مسائل کی بابت کچھ بیان کرنے کی جسارت کئے دیتا ہوں کہ پاکستان میں صحافیوں کی کتنی اقسام ہیں اور ان اقسام کے مطابق انکے شب و روز کیا ہیں ملاحظہ فرمائیں

نمبر ایک پہ آتے ہیں وہ صحافی جو اصل میں صحافی ہیں جو آواز اور ذریعہ بننا چاہتے ہیں مگر انکی صدا کو نعرہ دیوانہ و مجذوب سمجھ کر بالائے طاق رکھا جاتا ہے یہ بے چارے دن رات خبروں کے پیچھے مارے مارے گھومتے ہیں اور زندگی سے کٹ کر اس معاشرے کے عوام اور متعلقہ سبھی اداروں کو مسائل سے آگاہ کرنے میں اس قدر مگن رہتے ہیں کہ اپنا آپ اور خود سے جڑے لوگوں کو بھول جاتے ہیں

یہ وہ لوگ ہیں جو گھنٹوں سڑکوں پہ کھڑے رہ کر کسی مزدور ریلی اور احتجاج کو کوریج دیتے ہیں کہ ان مزدوروں اور ستائے ہوئے لوگوں کی آواز متعلقہ کانوں تک جا پہنچے اور ان کے مسائل کا سد باب ہو سکے

یہ صحافی ان وکلا کے احتجاجوں کو دکھاتے ہیں اور بعض اوقات کسی وکیل کی زیادتی کی فوٹیج بنانے پر کالے کوٹ والوں کے ہاتھوں بری طرح پٹتے ہیں اور پھر بھی اپنے فرض کی ادائیگی میں انہی وکلا کی آواز بن کر دیوانہ وار گھومتے ہیں

یہ صحافی علاج معالجے کے لئے آئے غربا کی آواز بنتے ہیں جنہیں ڈاکٹرز یا اسپتال کا عملہ اچھوت جان کر انکے دکھ کا مداوا نہیں کرتا اور وہ اپنا سانہ لے کر کسی کونے میں بیٹھ جاتے ہیں

یہ ڈاکٹرز کے مسائل سے متعلقہ اداروں کو آگاہ کرتے ہیں لیکن اسپتالوں میں ڈاکٹروں یا عملے کی مار پیٹ کی فوٹیج بنانے پر پٹتے ہیں سر پھڑواتے ہیں لیکن پھر بھی بولتے ہیں

یہ صحافی ملکی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے ہیں کہ ملکی سالمیت میں اپنا حصہ ڈال سکیں مگر بسا اوقات یہاں آ کر بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے حتی کہ نظر بندی اور بہت کچھ۔۔۔ ماضی بھرا پڑا ہے ایسے واقعات سے اور حال کا بھی کوئی خاص حال نہیں

یہ صحافی طلبہ و اساتذہ کی آواز بنتا ہے ، یہ صحافی غریبوں پہ ہونے والے ظلم پہ بولتا ہے یہ صحافی بولتا ہے اس قدر بولتا ہے کہ اسکا اپنا گلا بیٹھ جاتا ہے خود کے لئے آواز نکالنا تو دور اشارہ کرنے سے بھی قاصر ہو جاتا ہے

اس صحافی کے ساتھ معاشرے کے افراد اور حکومتی اداروں سمیت دیگر ادارے جو سلوک کرتے ہیں وہ یہ کبھی بھی دکھا اور بتا نہیں پاتا

اسی صحافی کو جو معاشرے کا آئینہ ہے طعنوں اور تشنوں سے توڑا جاتا ہے کہ یہ بلیک میلر ہیں انکا تو کام ہی مسائل بنانا ہے تا کہ انکا کام چلتا رہے

یہ صحافی اندر ہی اندر مر رہا ہوتا ہے چائے کا ایک کپ پی کر گھنٹوں کسی بھی ایشو کو دکھانے کے لئے کمر کسنے والا یہ اچھوت اپنے گھر بار اور احباب کے کئے ایک خواب سا بن جاتا ہے

اسکی معاشرتی و ذاتی زندگی، یار دوست، اسکے اپنے اور خوشی کے لمحات جو کسی بھی انسان کی خواہش ہوا کرتے ہیں سب کل اچھا ہو گا کی امید پہ انتظار کی سولی پہ ٹنگے رہتے ہیں

جو تنظیمیں اس صحافی کے حقوق اور اسکی آواز بننے کی دعویدار ہیں وہ اسکے عالمی دن پہ نظر نہیں آتیں اور نہ ہی کسی پریس کلب یا کسی تنظیم کو اسکے دکھ کی تشہیر کی توفیق ہوتی ہے

تو ایسا ہے صاحبانو

چیخو چلاو گلا پھاڑو یہاں کچھ نہیں ہو سکتا اس صحافی کا دن کوئی نہیں مناتا کیونکہ یہ خود بھی اپنا دن نہیں مناتا

ہم صحافی عجیب مخلوق ہیں معاشرے کے ہر طبقے کا ٹھیکہ اٹھا کے رکھا ہے بدلے میں وہ ہی عوام اور معاشرے کے طبقات ہمیں بلیک میلر، رشوت خور ، بے ضمیر اور نا جانے کیا کیا القابات سے نوازتے ہیں حکومت ، اسٹبلشمنٹ، سیاستدان ، ڈاکٹر ، وکلا غرضیکہ ہر شعبے کے لوگوں کی آواز میں آواز ملانے والوں کی یعنی ہماری اپنی باری جب آجاتی ہے تب تک گلا بیٹھ چکا ہوتا ہے
ہم اچھوت ہیں ، ان دیکھی زنجیروں کے آزاد قیدی، ہم منصور ہیں ہمیں سنگسار کیا جانا چاہئیے

خیر لب لباب یہ ہے میری جان بھلا ملنگوں اور مجذوبوں کا دن بھی کوئی مناتا ہے؟؟ چپ رہو اور اپنا اپنا کام کرو

کیسی آزادی کاہے کی آزادی اور کیسا دن ؟

مجھ سے پہلے کئی یہاں بولتے رہے لکھتے رہے انکی کسی نے نہ سنی تو میری کون سنے گا

میں تو اک چھوٹے سے شہر کا ایک چھوٹا سا صحافی ہوں بھلا کیا پڑی ہے کسی کو مجھ ایسوں کا دن منانے کی ؟

صرف اتنا ہے کہ یہاں صحافی ایک سدھائے ہوئے جانور کی مانند ہے جسکی ڈور مداریوں کے ہاتھ ہے مداری جیسا چاہے نچوا لے اور دیکھنے والے اپنے ذوق کے مطابق آہ واہ یا کیا مذاق ہے کہہ کر گذر جائیں گے اور گذر رہے ہیں

کسی سے کیا گلہ کریں بھئی کس نے کہا تھا سچ کے پیچھے بھاگو

قلم چلا کے جنہیں راستہ دکھاتا ہوں
وہ پوچھتے ہی نہیں کہ میں کیسے جیتا ہوں

بے فائدہ تحریر کے ساتھ مجھ جیسے تمام صحافیوں کو انکا گذر جانے والا یوم آزادی صحافت مبارک ہو اس دن کی مناسبت سے کیلینڈر کی چال کے ساتھ کچھ اس لئے نہیں لکھ پایا کہ میں ڈیوٹی پر تھا

میرا دن گذر گیا ایسے ہی میرے تہوار اور وہ دن بھی گذر جاتے ہیں جنہیں لوگ مناتے ہیں اور آپس میں خوشیاں بانٹتے ہیں مجھے تو اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ ملک کا چوتھا ستون ہونے کے ناطے میری سمت کس طرف ہے اور ہاں آخر میں صحافی کی ایک ہی قسم ہوتی ہے

جو بیان سے باہر ہے صحافی صرف صحافی ہوتا ہے جس کے لئے کوئی آواز اٹھانے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا کیونکہ یہ خود بھی اپنے حق میں بولنے سے قاصر ہے

میرے وطن میں آزادی صحافت کا دن ایسے منایا جاتا ہے اور تمام دن گذر جائیں گے یہ ایسے ہی کسی پرانے پیڑ کی طرح سایہ فراہم کرتے رہیں گے اور بوقت ضرورت کاٹ دئیے جائیں گے یا کٹ جائیں گے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے