خیال – جمہورا

جادوگر جب اپنی ٹوپی میں سے خرگوش برآمد کرتا ہےتو ہال تالیاں بجاتا ہے، اور سیاستدان عوام کے سر پر کسی کی ٹوپی رکھتا ہے تو عوام خود ہی تالیاں بجاتی ہے، عوام کو جمہور، جمہور کو بچہ جمہورا اور بچہ جمہورا کے گلے کی رسی، اور اس کے سسرال جانے کے ٹشن اپنی جگہ، لیکن مداری کی ڈگڈگی بھی کمال ہے، آواز سے اپنی مارکیٹنگ بھی، بچہ جمہورا کے لئے اگلے ناٹک، نئے ناچ کا اشارہ بھی، لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ دھن پر ناچتا ہے، غور کریں تو ڈگڈگی کی طرف مداری کا بڑھتا ہاتھ ہی جمہورے کے اندر وہ بجلیاں پیدا کرتا ہے کہ وہ تھرکنے کو بے تاب ہوجاتا ہے، ڈگڈگی کے ساتھ لگی ڈوری تھاپ دیتی ہے تو اس کے پیر خود ہی ناچ ناچتے ہیں ۔ لیکن لوگ اسے جمہورا نہیں سانپ سمجھتے ہیں کہ بین پر ناچے گا، یا بھینس سمجھتے ہیں جو بین پر بھی نہیں ناچتی۔

لیکن میں نے جمہورا بالکل بھی نہیں کہا، میں نے تو صرف جادوگر کی ستائی عوام کہا۔ لیکن جادوگر ہے کہ باز نہیں آتا ۔ ایک پر ایک ترپ کا پتہ ، پتوں میں سے پتے پھینٹ کر ایسا داؤ کھیلتا ہے کہ دیکھنے والوں کا سارا بھرم چاروں خانے چت ،،، اور عوان سوچتی ہے، بے وقوف بن رہی ہے، بنائی جارہی ہے یا بنا رہی ہے۔ سرے ڈور میں گم ہوکر ناپید ہوجاتے ہیں۔

سیاستدان جادوگر کا کوٹ پہن کر بیٹھے تو بیان بازی، زبان درازی، ریلو کٹے ٹوپیوں سے برآمد ہونے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ کون کون یہ کوٹ پہن کر بیٹھا ہے میں نہیں بتاسکتا ۔

سیاستدان اس جمہورے کے ساتھ بڑی مزے کی کرتے ہیں، سب آج کل صرف ایک ہی دلاسہ دے رہے ہیں، “گھبرانا نہیں!!!” جیالے، جمالے، کھلاڑی، اناڑی سب ہی اپنے اپنے لیڈر کے نعرے پر لبیک کہتے ہوئے آنکھیں بند کرکے بیٹھےہیں، کوئی پوچھے بلی کا، تو کہتے ہیں کہ بلی نہیں آئی۔ لیکن مہنگائی، سمیت مسائل اس آنکھیں بند کئے کبوتر کو نوچے ہوئے ہیں، لیکن وہ بھی بڑا اداکار ہے، کہیں دوسرے لیڈر کا جمہورا یہ نہ سمجھے کہ وہ گھبرا گیا ہے، وہ اداکاری کررہا ہے، کئے جارہا ہے، اور جانے کب تک "اسکرپٹ رائیٹر” کی مانگ یہی سین بار بار ہے۔

جمہور کے رویے جادوگر کو متاثر نہیں کرتے، کیونکہ جادوگر کو جمہور کے اعتبار کا نہیں اپنے فن سے مطلب ہے، اس کی چال، نیا حربہ کس قدر کارگر ہے اس کا اندازہ نقصان یا فائدے سے نہیں اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دامن پر آگ لگے اور آنچ محسوس نہ ہو۔ جادوگر کے پاس کبھی پتے ختم نہیں ہوتے، سب سے آخری پتہ این آر او ہے، جس کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگانا پڑتا ہے، لیکن جادوگر کبھی اپنا اثاثہ ہال میں نہیں رکھتا، جہاں عوام ہو، جمہور سحر سے نکل کر کہیں اسے نہ دبوچ لے، ہال سے باہر، ملک سے باہر، بیگانے بینک میں، بے نامی اکاؤنٹ میں، جہاں جمہور تو کیا، جمہوریت بھی پر نہ مار سکے، اور جمہوریت تو ہوتی ہی غریب کے آٹے کے کنستر پر نافذ، جہاں وہ اپنے حق سے زیادہ نہیں رکھ سکتا، اس کے پیٹ پر جس پر ایک چپاتی بھی حرام، اس کے بچوں کی امیدوں پر جہاں اونچے خواب دیکھنا بے وقوفی شمار ہوتا ہے، اس کے ملک پر جہاں جمہور کے سوا سب دھنی ہیں، اور مخصوص کے پیر تلے جمہورے کے گلے کی رسی آج بھی آخری سانسیں لے رہی ہے لیکن جمہورا ابھی زندہ ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے