اقتدار کا نشہ بڑے بڑوں کو اپنے آپ سے باہر کر دیتا ہے۔اور اقتدار چھن جانے کے خوف سے تو وہ وہ کام سرزد کرواتا ہے یہ نشہ کہ ایک عام انسان بھی شرما جائے۔پھر ہمارے ہاں جس طرح سیاسی پارٹیوں میں ڈکٹیٹرازم ہے۔تقریبا ساری بڑی پارٹیوں میں ون مین شو ہی ہے۔ایسے ماحول میں کسی مرد قلندر کا حق بات کہنا اور ببانگ دہل کہنا بڑے دل گردے اور ہمت کا کام ہے۔اور یہ ہمت کا کام وفاقی وزیر مذھبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری نے کیا ہے اور ڈھکے چھپے نہیں بلکہ ببانگ دہل اور اعلانیہ کیا ہے۔یہ ہمت کسی ایسے شخص میں ہی ہو سکتی ہے جس کے اندر خوف خدا ہو اور جس کو یہ ڈر ہو کہ اس نے ایک دن اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے۔ورنہ یہاں تو لکیر کے دونوں طرف پارٹیوں کی تخصیص کیے بغیر اندھوں ، بہروں اور گونگوں کا راج ہے۔ان کو وہی دکھتا ہے جو ان کو دکھایا جاتا ہے۔
یہ وہی سنتے ہیں جو ان کو سنایا جاتا ہے۔اور وہی بولتے ہیں جو ان کو بولنے کو دیا جاتا ہے۔ابھی کل ہی کی تو بات ہے 342کے ایوان میں کتنے تھے جنہوں نے ختم نبوت کے بل پر لب کشائی کی۔99۔99 فیصد کو تو خیر سے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہو کیا رہا ہے۔اپنے ماحول میں مست ہوتے ہیں۔خوش گپیوں میں مصروف ہوتے ہیں ۔جب چیف وہپ اشارہ کرتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں یا ہاتھ بلند کرتے ہیں۔اور پھر اپنے ماحول میں مگن ہو جاتے ہیں۔
ایسے ماحول میں پیر نور الحق قادری صاحب نے فی الواقع مرد قلندر کا کردار ادا کیا ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں حکومت کےوزراء آمنےسامنےآگئے۔ہمارے دوست اور ہر وقت نمایاں رہنے کے شوق مصروف عمل رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے قومی اسمبلی میں لڑکیوں کی شادی کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال مقرر کرنے کے حوالے سے بل پیش کیا۔ اب بات یہ ہے کہ ہندو برادری کی بات کو زیادہ ہائی لائٹ کر دیا جاتا ہے۔ورنہ کیا پاکستان میں اس طرح کے واقعات عام ہیں۔
بہر حال اس بل پر وفاقی وزیر مذھبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری نے کہا کہ موجودہ شکل میں بل قبول نہیں، بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جائے۔اور مذید کہا کہ بل اسلام اور سنت سے متصادم ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بل کی مخالفت کرتا ہوں، چاہے وزارت سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونا پڑے۔اور ان ہی جذبات کا اظہار وزیر مملکت پارلیمانی امورعلی احمد خان نےبھی کیا۔
اگرچہ عددی اکثریت کی بنا ء پر بل جائزے کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کق ریفر کر دیا گیا ہے۔لیکن اس وقت ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ اگر درست کودرست اور غلط کو غلط کہنے والوں کا کال پڑ گیا ہے۔بڑے بڑے پڑھے لکھے اور دستاروں والے بھی کلمہ حق تو کیا کہیں گے۔توجہ بھی نہیں دلاتے۔بلکہ اگر صاحب بہادر چاہے وہ عمران خان ہو یا نوازشریف اگر کوئی غلط بات بھی کہ دیں تو اس کے حق میں ایسی ایسی تاویلیں لے کر آتے ہیں کہ خود ان کو بھی پتہ نہیں ہوتی ہیں۔ایسے ماحول میں قادری صاحب جیسے لوگ غنیمت ہیں۔اس سے قبل جب قادیانی مشیر والا معاملہ ہوا تھاتب بھی جب بڑے بڑے عاطف کے حق میں دلائل کے انبار لگا چکے تھے۔قادری صاحب نے حق کی بات کہی اور اب پھر اسمبلی میں حق بات کہ کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان پہلے ہیں اور وزیر بعد میں
کاش عمران خان کو ایسے دو چار اور رہنماء میسر ہو جائیں جو حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے والے ہوں۔