پاکستان کی سب سے بڑی صوبائی اسمبلی پنجاب نے حال ہی میں اتفاقِ رائے سے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ماہِ رمضان کے حوالے سے پاکستانی ٹی وی چینلز پر پیش ہونے والے پروگراموں میں شوبِز کی دنیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو شمولیت سے روکا جائے۔
قرار داد صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ سے تعلق رکھنے والے ممبر مولانا معاویہ اعظم کی طرف سے گذشتہ ماہ کی 30 تاریخ کو جمع کروائی گئی تھی تاہم اسے جمعرات کو ایوان میں اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔
اسمبلی کی طرف سے منظور کی جانے والی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا پر نظر رکھنے والے سرکاری ادارے ‘پیمرا کو سختی سے پابند کیا جائے کہ وہ ٹی وی چینلز کو پابند کرے کہ ایسے شوبِز سے جڑے لوگوں کو رمضان ٹرانسمیشن میں ہر گز شامل نہ کیا جائے۔’
قرارداد کے مطابق چند برسوں سے پاکستان کے ٹی وی چینلز پر رمضان المبارک کے مہینے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خصوصی نشریات کا آغاز کیا جاتا ہے۔
[pullquote]کیا پاکستانی ٹی وی ڈرامہ فحش اور غیراخلاقی ہو گیا ہے؟[/pullquote]
‘لیکن افسوس کی بات ہے رمضان ٹرانشمیشن کے پروگرام وہی لوگ ہوسٹ کرتے ہیں جو باقی دنوں میں انہی ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر مورننگ یا ایوننگ پروگرامز میں ناچ گانے کو فروغ دیتے ہیں یا بہت سےلوگوں کا تعلق شوبِز سے ہے۔’
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ‘ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ رمضان ٹرانسمیشن کو ایسے لوگ ہوسٹ کرتے جن کا تعلق دینِ اسلام سے وابسطہ طبقے سے ہے لیکن پاکستان میں ریٹنگ کے چکر میں ایسے لوگوں کو رمضان ٹرانسمیشن میں ہوسٹ بنایا جاتا ہے جن کا دور دور تک دین سے تعلق نہیں ہے۔’
[pullquote]کیا پیمرا اس پر عملدرآمد کا پابند ہو گا؟[/pullquote]
اسمبلی میں منظور ہونے والی قرارداد قانون نہیں تو ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا حکومت یا پیمرا اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے یا نہیں؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پیمرا کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ انھیں تاحال اس حوالے سے کوئی باضابطہ اعلامیہ یا احکامات موصول نہیں ہوئے اس لیے وہ اس پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ‘اگر کسی بھی اسمبلی کی طرف سے ایسی کوئی قرارداد منظور کی جائے تو پیمرا اس پر عملدرآمد کروانے کا پابند ہوتا ہے مگر اس حوالے سے احکامات انہیں وفاقی حکومت یعنی وفاقی وزارتِ اطلاعات کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں۔’
[pullquote]
شوبِز سے تعلق رکھنے والے افراد کیا کہتے ہیں؟[/pullquote]
اداکارہ جُگن کاظم پاکستان کے سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی سے منسلک مورننگ شو ہوسٹ کرتی ہیں اور رواں برس نجی ٹی وی چینل پر رمضان کی نشریات کی میزبانی کے لیے ان کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جگن کاظم کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی اور اس کے ممبران ان کے لیے معتبر ہیں اور ‘اس حوالے سے پاکستانی حکومت یا ادارے جو فیصلہ کریں گے وہ اس کو تسلیم کریں گی۔’ تاہم ان کے خیال میں ‘پوری صنعت (شوبز) کے بارے میں یوں فیصلہ دے دینا غیر منصفانہ ہے۔’
ان کے خیال میں اس قرارداد کے لانے کے لیے وقت کا تعین درست نہیں۔ ‘اگر ہمیں اس قسم کے فیصلے سے پہلے آگاہ کر دیا جاتا تو ہم کوئی متبادل بندوبست کر سکتے تھے۔ یہ اس وقت آیا جب تمام تر تیاریاں مکمل ہیں۔ اس وقت پابندی لگائی جاتی ہے تو وہ ہمارے لیے دل آزاری کا باعث ہو گا۔’
فلم اور ٹی وی کے اداکار عمران عباس بھی رواں برس ایک نجی ٹی وی پر رمضان کی تشریات کی میزبانی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قرارداد کے حوالے سے سن کر ان کو تعجب ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ایک فنکار کا رب اور نبی بھی وہی ہے جو کسی دوسرے مسلمان کا ہے۔’
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘وہ محض پروگرام کو کنڈکٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ رمضان کی نشریات کی میزبانی کرتے ہوئے وہ محض ناظرین اور پروگرام میں شامل علما کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔’
اس قرارداد کی خبر کو لے کر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بھی صارفین بحث کر رہے ہیں جن میں شوبز سے تعلق رکھنے والے چند افراد نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
شوبز سے وابستہ شخصیت فخرِ عالم نے خبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘اوہ زبردست، کیا عمدہ قرار داد ہے لوگوں کی بہتری کے لیے۔ آخر کار صرف ہمارے مذہبی عالم ہی جانتے ہیں کہ ہم سب کے لیے بہتر کیا ہے۔’
ان کے ٹویٹ کے جواب میں بہت سے صارفین نے یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ اس قرار داد کی تائید کر رہے ہیں، انہیں سراہا تاہم ایک صارف سید عدنان اسرار نے لکھا کہ ‘کیا صرف میں ہی ہوں جو یہ سمجھتا ہے کہ فخرِ عالم درحقیقت یہاں طنز کر رہے ہیں؟’
ٹویٹر پر جاری اس بحث میں جہاں کچھ لوگ قرارداد کی تائید میں بول رہے ہیں وہی کچھ صارف یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ ‘ادکاروں پر پابندی کیوں لگائی جائے۔’ یہ ٹویٹ کرتے ہوئے ایک صارف ظہیر جعفری نے لکھا کہ ‘یہ قرارداد بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔’