بھاگ ٹی ٹی بھاگ کا نعرہ دو روز تک سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈنگ کرتا رہا۔ شہرِ اقتدار کی اصلی Pulse کے مطابق؛ یہ ایک شخص کا ذا تی فرار نہیں‘ بلکہ داستانِ بے وفائی کا تسلسل بھی ہے۔ اصل میں تو بیانیہ بھاگ نکلا۔ جسے گریٹ Escape بھی کہا جائے گا۔ عمران خان کی زبان میں ڈیلِ ممنوعہ۔ کچھ دوسروںکے لیے بھر پور بے وفائی کے عوض تھوڑی سی ڈھیل۔
شہباز اینڈ سنز کی جانب سے نواز شریف کے ساتھ یہ بے وفائی پہلی مرتبہ نہیں ہوئی۔ اس کی تازہ تاریخ کی سیاہی بھی ابھی تک تر و تازہ ہے ۔ پہلی بے وفائی بیگم کلثوم نواز سے کی گئی۔ مشرف کی آمریت کے لِفٹر نے لاہور میں کلثوم نواز مرحومہ کو گاڑی سمیت ہوا میں معلق کر دیا۔ شہباز شریف کے بیٹے لاہور میں تھے جن کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی‘ نہ ہی ان کے منہ سے احتجاج کی چُوں نکل سکی۔ بھلا ہو؛ گجرات کے نت ہائوس کا‘ جس نے شہباز شریف کے بیٹوں پر ہولا ہتھ رکھوا دیا جس کے نتیجے میں شہباز شریف اینڈ سنز کے کاروبار نے دن دگنی رات چوگنی تر قی کی۔
دوسرا مو قع تب آیا‘ جب نواز شریف کے دونوں بیٹوں نے شہرِ اقتدار کے معروف اینکر اور صحافی سے رابطہ کیا۔ انہیں لندن آنے کی درخواست کی۔ کھل کر جہاں اپنا دُکھڑا رو دیا۔ اس معتبر صحافی کے مطابق؛ دونوں نے کہا: ہمارے چاچا کے بیٹے ہماری ماں کی قربانیوں پر سیاست اور تجارت کر رہے ہیں۔ ہم یہاں پردیس میں بیٹھے ہیں۔
آپ ابا جی سے کہیں کہ وہ ہمیں پاکستان واپس آنے اور سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دے دیں۔ تیسری بار شہباز شریف اینڈ سنز نے بائو جی پر تیسرا مہلک وار تب کیا‘ جب احتساب کورٹ کی سزا کے بعد باپ بیٹی لندن سے واپس لاہور ایئر پورٹ پہنچے۔ کون نہیں جانتا کہ ایسی ہی سزا غیر حاضری میں احتساب ریفرنس پر بی بی کو بھی دی گئی تھی۔ شہید بے نظیر بھٹو کی طرف سے میں اس مقدمے کا وکیلِ صفائی تھا۔ یہ سزا سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج ہوئی‘ جس پر چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے لینڈ مارک فیصلہ صادر کیا۔ ان باپ بیٹی کی قسمت میں خرابی تھی یا مشورہ دینے والوں کی نیت میں فتور تھا کہ وہ بغیر کسی قانونی ”کوَر‘‘ کے لاہور کے ہوائی اڈے پر لینڈ کر گئے۔
پھر وہی ہوا جو ہونا تھا اور دونوں گرفتار ہو کر جیل جا پہنچے۔ جو ریلیف شہید بی بی کے حصے میں آیا‘ اس کی ایک اور قانونی نظیر بی بی کے مقدمے سے بھی پہلے کی موجود تھی۔ بی بی سی کے ایشیائی نامہ نگار مارک ٹیلی کے خلاف مقدمہ جو راولپنڈی میں حبیب وہاب الخیری ایڈووکیٹ نے دائر کیا تھا۔ مارک ٹیلی کو پاکستانی عدلیہ نے نئی دہلی سے اسلام آباد آنے کے لیے عدا لتی ” کوَر‘‘ کا ریلیف دیا‘ جس کے نتیجے میں مارک ٹیلی گرفتاری سے بچ گئے۔
ابھی کل ہی کی تو بات ہے‘ جب شہباز شریف اینڈ سنز‘ باپ بیٹی کی ایئر پورٹ لینڈنگ کے وقت لاہور کے ہوائی اڈے کا راستہ بھولے تھے۔ شہباز شریف سرکاری پرو ٹو کول والی گاڑی میں مال روڈ کے اِدھر اُدھر جھولے لیتے رہے جبکہ ان کے محسن کو بیٹی سمیت جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ اسی لیے تازہ بے وفائی پر ”ن‘‘ لیگ کی اگلی صفوں سے یہ سوال اُٹھا کہ بتائو اب ہمارا بیانیہ کیا ہے؟ دستیاب معلومات اور واقعات کی روشنی میں اس نعرے میں کشش باقی نہیں رہی کہ این آر او کون مانگ رہا ہے۔ وہ بھی پوری طرح زمیں بوس ہو کر۔ اب ذرا نواز شریف کی ضمانت کے مقدمے کی ٹائمنگ پر آ جائیے۔ اس مقدمے کی سماعت سے محض چند گھنٹے پہلے شہباز شریف نے پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی چھوڑ دی۔
یہ وہی پبلک اکائونٹس کمیٹی ہے‘ جس کے بارے میں ایک ہی نکتے پر 3 طرف سے اُودھم مچایا گیا۔ پہلی سائیڈ پارلیمان میں اپوزیشن کی تھی۔ جس نے کہا پبلک اکائونٹس کمیٹی صرف اپو زیشن لیڈر کا استحقاق ہے ‘ لہٰذا شہباز شریف کے علاوہ کسی اور کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا تو پارلیمنٹ نہیں چلنے دیں گے کیونکہ یہ پکی پارلیمانی روایت ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب شہباز شریف نیب کے پاس جسمانی ریمانڈ پر ہوں تو پارلیمانی روایت پروڈکشن آرڈر کے گرد گھومتی ہے‘ اور جب لندن میں ہوں تو وہ پارلیمانی روایت گئی بھاڑ میں۔
پبلک اکائونٹس کمیٹیکے رولز آف بزنس کے مطابق پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ارکان چیئر مین منتخب کر سکتے ہیں۔ یہ اختیار نہ سپیکر کے پاس ہیں نہ ہی حکومت یا اپوزیشن کے ہاتھ میں ۔ اب یہ کوئی خاندانی پارٹی کا اندرونی عہدہ تو ہے نہیں ‘جس پر کوئی شاہ رنگیلا اپنے کسی درباری کو نامزد کر دے۔
یہ حقیقت طے شدہ ہے کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں حکومت اور اُس کے اتحادیوں کی اکثریت ہے لہٰذا شہباز شریف کی طرف سے اپنی جگہ کسی اور کو پبلک اکائونٹس کمیٹیکا چیئر مین نامزد کرنے کے اعلان دل پشوری کرنے کی حد تک ہی ٹھیک ہے۔ ویسے بھی اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کو 9 ماہ گزر جانے کے بعد بھی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئر مین نہیں بنایا۔ جس طرح مہران کی حکومت اس کے با وجود بھی عین جمہوری ہے ویسے ہی شہباز شریف کی جگہ پی ٹی آئی کا کوئی اور رکن اسمبلی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئر مین بن جائے تو جمہوریت ڈی ریل نہیں ہو گی۔
لندن سے آنے والی مضبوط اطلاعات بتاتی ہیں کہ پاکستانی عدالتوں کے سارے بھگوڑے سیاسی پناہ کی تلاش میں ہیں۔ ان میں سے دو بڑوںکو صبح سویرے بیرسٹرز چیمبر میں آتے جاتے دیکھا گیا۔ اسی امید پر سمدھی وزیر خزانہ کو انٹر نیشنل افیئرز المعروف مفرور وِنگ کا انچارج مقرر کیا گیا۔ اس پہ حیران ہونے کی ضرورت یوں بھی نہیں کہ شہباز شریف بھی ”ن‘‘ لیگ کے صدر اور مفروری کی ریہرسل پر ہیں۔ کسی ظالم نے سوشل میڈیا پر یہ میم بنایا۔ ”الحمدللہ! اسی نس گئے بھا جی‘ پھس گئے‘‘ ۔ ایسے میں سابقہ ارسطو وزیر داخلہ نے پارٹی عہدہ ملنے کے اگلے دن سیاست کے بجائے عالمی تبلیغی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ قوم کو یہ نوید بھی سنائی کہ اس مقصد کے حصول کے لیے ادارے کو ابتدائی طور پر صرف 50 کروڑ روپے نقدی کی ضرورت ہے۔
رواں ہفتہ نواز شریف کے لیے غیر یقینی صورت حال والا ہے۔ ایسے میں ”ن‘‘ سے نواز لیگ کا صدر۔ صرف صدر ہی نہیں بھائی‘ بڑے بھائی کو تنہا چھوڑ کر لندن میں بیٹھ جائے تو سمجھ لیں اسے بھائی سے بھی زیادہ کوئی ضروری کام پڑ گیا ہے۔ ہم سب گوشت پوست سے بنے چلتے پھرتے انسان ہیں۔ ذرا بیماری یا تکلیف ہو تو اللہ کے بعد قریبی یاد آتے ہیں۔ سیاست چھوڑ دیں پھر بھی یہ بے وفائی نہیں تو اور کیا ہے کہ درِ زنداں نیم وا ہونے کے باوجود بھی بھائی اخلاقی مدد کے لیے ہی سہی بھائی کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار نہیں ۔ ایسے میں انسانی ذہن صرف میاں محمد بخش کی طرف جاتا ہے۔
درویش نے کہا تھا!؎
جہیڑا سنگی کم نہ آوے‘ اوکھے سوکھے ویلے
ایسے بُز دل سنگی نالوں‘ بہتر یار اکیلے
اور ہاں! سازشی تھیوری نہیں۔ خبر ہے کہ بھاگنے والا ضامن تھا۔ کس کے لیے آپ جلد جان جائیں گے۔
بھاگ ٹی ٹی بھاگ کا نعرہ دو روز تک سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈنگ کرتا رہا۔ شہرِ اقتدار کی اصلی Pulse کے مطابق؛ یہ ایک شخص کا ذا تی فرار نہیں‘ بلکہ داستانِ بے وفائی کا تسلسل بھی ہے۔ اصل میں تو بیانیہ بھاگ نکلا۔ جسے گریٹ Escape بھی کہا جائے گا۔