’’مانچسٹر، گلاسگو، لیوٹن‘‘

ہاتھ کو گردن کے اوپر سے گھما کر کان پکڑنے کا تو سن رکھا تھا مگر اس کا عملی مظاہرہ اس سفر کے د وران پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ کامن سنسس کے مطابق ہمارا اگلا پروگرام مانچسٹر کے بجائے گلاسگو میں رکھا جانا چاہیے تھا جو ایڈنبرا سے صرف چالیس منٹ کی مسافت پر ہے لیکن ہم گزشتہ روز چار گھنٹے کی مسافت طے کرکے مانچسٹر آئے اور وہاں سے گزشتہ روز پھر چار گھنٹے اُس راستے سے ہوکر گلاسگو گئے۔ جہاں سے ہمیں گزشتہ روز سات گھنٹے سفر کرکے لیوٹن پہنچنا تھا یعنی اگر ترتیب مانچسٹر، ایڈنبرا ، گلاسگو،مانچسٹر اور لیوٹن ہوتی تو ہمیں کم از کم سات آٹھ گھنٹے آرام کے مل جاتے جو اس تھکا دینے والے مسلسل سفر میں غنیمت سے کہیں زیادہ تھے۔ اب مُڑ کر دیکھتے تو سوائے غالب کے اس شعر کے اس گھمن گھیری کا اور کوئی جواب سمجھ میں نہیں آتا کہ

سفینہ جب کہ کنارے پہ آلگا غالبؔ

خدا سے کیا ستم وجودِ ناخدا کہیے

جب کہ د وسری تسلی بخش بات یہ تھی کہ فخر اقبال کی ڈرائیونگ اور نذر اقبال ، سید وصی شاہ اور عامر محمود جعفری کی دلچسپ کمپنی میں اس اضافی سفر کا پتہ بھی غالب ہی کے لفظوں میں کچھ اس طرح سے نہ چلا کہ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘۔

سرکاری چھٹیوں کے لمبے وقفے کا اثر مانچسٹر میں بھی غالب رہا کہ حاضری منتظمین کی توقع سے کم رہی لیکن جوش و خروش کے اعتبار سے معاملہ تسلی بخش رہا ۔ مقامی مشاعرہ فائقہ گل نے ’’امجد فہمی‘‘ دو ہزار پاؤنڈ میں خریدی جس کی رقم اعلان کے مطابق غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے زیر انتظام تعلیم پانے و الے خصوصی اور یتیم بچوں کے فنڈ میں جمع کرادی گئی۔ وقت کی کمی کی وجہ سے اس بار برادرم مخدوم امجد شاہ کے ٹی وی پروگرام میں شمولیت نہ ہوسکی البتہ دیگر مقامی دوستوں کے ہمراہ سارا وقت ساتھ ساتھ رہے۔

گلاسگو اسکاٹ لینڈ کا حصہ ہے، یہ وہی علاقہ ہے جہاں سے پنجاب کے موجودہ گورنر برادرم چوہدری سرور برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے پاکستانی نژاد ممبر منتخب ہوئے تھے اور جہاں ایک زمانے میں ڈاکٹر شفیع کوثر کے منعقد کردہ مشاعروں میں ہم سب مرحوم اعجاز احمد اعجاز کے ہمرا ہ بہت پابندی سے جایا کرتے تھے خاص طور پر وہ دورہ جس میں مرحومین احمد ندیم قاسمی، مظفر وارثی، شہزاد احمد اور حسن رضوی بھی شریک تھے ۔

برادرم احمد ریاض اور قتیل شفائی مرحوم کے داماد شوکت بٹ نے ڈاکٹر شفیع کوثر سمیت وہاں ایک ایسی ادبی فضا پیدا کردی تھی کہ اُس وقت سب سے اچھا اور بھرپور مشاعرہ اسی شہر میں ہوا کرتا تھا۔ میں نے برادرم فخر اقبال کے فون سے ڈاکٹر شفیع کوثر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر بات نہ ہوسکی۔ یہاں ہمارے میزبان ریڈیو رمضان والے دوست تھے اور یہ تقریب بھی انھی کے اسٹوڈیوز میں ہوئی، عزیزی شکیب گل سے مشاعرہ کے بعد مختصر ملاقات رہی، معلوم ہوا کہ وہ شہر کی سیاست میں حصہ لینے کے لیے پر تول رہا ہے۔ برطانوی جمہوریت کی یہ خوبی بہت عمدہ اور قابل تقلید ہے کہ ا س میں ہمارے جیسے بہت سے دوسرے ملکوں کی طرح لائن توڑ کر آگے بڑھنے کا دستور نہیں، ہر ایک کو مقامی کونسلر کی سطح سے سفر کا آغاز کرنا پڑتا ہے اور شائد اُن کے سیاسی نظام کی کامیابی کی ایک بہت بڑی وجہ بھی ہے۔

میرا بھتیجا عزیزی سلمان شاہد اپنی شریک حیات حاجرہ اور بچوں آمنہ ا ور ابراہیم سمیت اب باقاعدہ برطانوی شہری بن چکے ہیں اور اس کے معاشی حالات بھی پہلے سے بہت بہتر ہوگئے ہیں۔ محنت اور کوشش کرنے والوں کو ترقی کے راستے فراہم کرنا اس معاشرے کی ایک اور اہم خصوصیت ہے، وہ ہوٹل ہی میں ملنے آگئے کہ وقت کی تنگی کی وجہ سے ان کے گھر جانا ممکن نہ تھا، سو اس مختصر ملاقات میں جلدی جلدی بہت ساری باتیں کی گئیں اور طے پایا کہ باقی باتیں چند ماہ بعد ہونے والی اس کے چھوٹے بھائی فیضان کی شادی کے موقع پر ہوں گی۔

جس میں اس کا پاکستان کا چکر لگے گا ۔ واٹس ایپ کی سہولت کی وجہ سے اس نے میری بیگم یعنی اپنی پھوپھی سے بھی ہیلو ہیلو کرلی جو کہ آج سے صرف بیس برس پہلے ایک باقاعدہ مہم کی طرح ہوتا تھا ۔فخر اقبال کا بنیادی بزنس آفس گلاسگو کے ایک قریبی شہر ڈنڈی میں ہے مگر وہ ہماری محبت میں وہاں جانے کے بجائے ہمارے ساتھ لیوٹن اور لندن جانے کو تیار ہوگیا اور یوں ہمیں بھی اُس کی خوش مزاجی سے مزید بہرہ ور ہونے کا موقع مل گیا۔

گلاسگو کی تقریب کی سب سے اہم بات عزیزہ راحت زاہد سے ملاقات تھی جو اب بفضلِ خدا کینسر جیسے موذی مرض سے مکمل طور پر صحت یاب ہوچکی ہے ۔ وہ جتنی اچھی شاعرہ ہے اتنی اچھی میزبان اور دوست بھی ہے اُس کا میاں بھی اُس کے ساتھ تھا اور جس پامردی سے اُس نے اس مشکل وقت میں اپنی بیوی کا ساتھ دیا ہے، وہ بھی اُسی معاشرے میں کسی روشن مثال سے کم نہیں۔

لیوٹن دو برس قبل بھی الخدمت کے میاں عبدالشکور اور برادرم انور مسعود کے ساتھ آنا ہوچکا تھا مگر اس طرح کے سفروں میں بھاگ دوڑ کچھ ایسی رہتی ہے کہ شہر تو کیا اپنے میزبانوں کی شکلوں کو بھی یاد رکھنا بعض اوقات مشکل ہوجاتا ہے وہاں کے کئی احباب نے گزشتہ ملاقات کا تذکرہ کیا اور اس بات پر بھی زور دیا کہ انھوں نے ہمارے ساتھ تصویر بھی بنوائی تھی، اب ان پیارے مگر معصوم بچوں کو کون بتائے کہ پانچ دنوں میں ملنے والے پانچ سو آدمیوں کی یاد رکھنا کتنا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے، اس یاد دہانی آمیز تعارف پر ایک بہت دلچسپ واقعہ یاد آرہا ہے۔ ہوا یوں کہ کسی صاحب نے ہمارے ایک شاعر دوست سے گِلہ کیا کہ میں نے فلاں مشاعرے میں آپ کی داد رسی کی تھی مگر اب آ پ مجھے پہچان ہی نہیں پارہے ۔ اُس شاعر بھائی نے یہ واقعہ اپنے ایک بے تکلف دوست کو سنایا تو اُس کا جواب کچھ یوں تھا۔

’’یار وہ ٹھیک ہی گلہ کر رہا تھا نا، پورے مجمعے میں تمہیں ایک ہی بندے نے داد دی اور تمہیں وہ بھی یاد نہیں‘‘

لیوٹن کے مشاعرے کی ایک اضافی خوبی یہ بھی تھی کہ اُس کے بعد اگلے دن کا سفر ایک گھنٹے سے بھی کم کا تھا اور پھر لندن کے بعد دو تین دن کا ایسا وقفہ تھا جس میں ہم ہوا کی طرح سے آزاد تھے، سویہ شہر اور اس کے لوگ دونوں اچھے لگے ۔ایم25 پر سفر کرتے ہوئے ایک بار پھر یادوں کا در وا ہوگیا کہ ایک ایک کرکے وہ سب لوگ یاد آنے لگے جن کے ساتھ اُس سڑک سے بارہا گزرہوا اور پتہ نہیں کیوں میرؔ صاحب کے یہ شعر بہت یاد آئے۔

ر فتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں

ساتھ اس کا رواں کے ہم بھی ہیں

وجہ بیگانگی نہیں معلوم

تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے