بھارتی انتخابات کے دوران مقبوضہ کشمیر کی عمومی صورتحال بھارت کے باقی حصوں سے مختلف رہی۔ مقبوضہ کشمیر میں ووٹنگ کے اوقات تک پولنگ کے مراکز سے خواتین اور مردوں کو چند گھنٹے قبل داخل نہیں ہونے دیا گیا۔مرد و زن احتجاج کرتے رہے اورووٹنگ کا وقت ختم ہونے سے پہلے صرف چند ضعیف خواتین اور مردوں کو پولنگ اسٹیشن تک جانے دیا گیا ۔ ووٹنگ کے دوران تمام پولنگ اسٹیشنز پرریاستی مشینری کے دستوںنے طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو پولنگ کے مراکز سے دُور رکھا۔بھارت میں اس بار مودی کو اکثریت ملتی نظر نہیں آرہی اوربھارتی انتخابات کی مجموعی صورتحال پیش خدمت ہے :
الیکشن کے اعلان سے قبل کانگریس نے اپوزیشن پارٹیوں کو متحد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ‘ لیکن علاقائی پارٹیاں اپنا وجود بچانے کی جنگ میں پوری طرح متحد نہ ہو سکیں۔اب نتائج‘ حکومت سازی کے نئے جوڑ توڑ کی سیاست میں سیکولرازم کی علمبردار پارٹیوں کوایک بار پھر امتحان میںڈال سکتے ہیں۔پانچویں مرحلے کے اختتام کے ساتھ لوک سبھا کی تین چوتھائی سے زیادہ سیٹوں پرپولنگ ہوچکی۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ الیکشن میں اقلیتوں کا کردار فیصلہ کن ہوگا۔
ساتھ ہی نتائج کے اعلان کے بعد اتحاد میں شامل نہ ہونے والی علاقائی پارٹیاں بھی اہم کردار ادا کریںگی۔ اس الیکشن کے نتائج 2014ء سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ حکومت میں آنے والی جماعت کو ان علاقائی پارٹیوں سے الحاق کرنا یقینی ہوگا۔اتحاد کیساتھ قائم ہونیوالی یہ حکومت بھارت کے حقیقی سیاسی حالات کی نمائندگی کرے گی۔یہی سرکار سیاسی دھارے کا رخ اور بھارتی سماج کے مستقبل کا تعین کریگی۔
گزشتہ پانچ سال میں بھارت کو جن حالات سے گزرنا پڑا‘ان حالات نے اقلیتی طبقہ کو ہی نہیں‘ بلکہ آزاد خیال طبقہ کو بھی متحد کیا۔کانگریس کی گزشتہ تمام ناکامیوں اور خامیوں کے باوجود یہ طبقہ حالات کے پیش نظر‘ کانگریس کے ساتھ کھڑا نظر آ رہا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ طبقہ اپنے ووٹ کے متعلق پالیسی واضح کر چکا ہے۔اس طبقے کی کوشش ہے کہ ہر حال میں بی جے پی کوشکست دی جائے ۔ کانگریس نے یہ پلان بھی بنا رکھا ہے کہ جہاں علاقائی پارٹیوں کی پوزیشن مضبوط ہے‘ وہاں حکومت سازی میں انہیں ترجیح دی جائے گی ‘جبکہ دیگر مقامات پر کانگریس اپنے جیتے ہوئے امیدوار کو اہم عہدوں پر تعینات کرے گی ۔
ظاہر ہے کہ ووٹر ز کے اس رجحان سے علاقائی پارٹیوں کی پوزیشن بھی بہتر ہو گی۔اس لیے مقابلہ دلچسپ نظر آ رہا ہے۔بہر حال اس سیاسی دنگل میں دو قومی اتحاد این ڈی اے اور یو پی اے آمنے سامنے ہیں؛اگر دونوں کو اکثریت نہیں ملتی تو انہیں اتحاد سے الگ علاقائی پارٹیوں کا حکومت سازی کے لیے سہارا لینا یقینی ہوگا اور بڑے عہدوں کی آفرز بھی ہو سکتی ہیں۔علاقائی پارٹیوں میں یو پی سے ایس پی(سماج وادی پارٹی)بی ایس پی( بھوجن سماج پارٹی) اور ایل ڈی شامل ہیں۔
تلنگانہ سے ٹی آر ایس(تلنگانہ راشترا سمیتھی) ‘اڈیشہ سے بیجو جنتا دل اور آندھرا پردیش سے وائی ایس آر (یوا جانا شرامیکا رے تھو) کانگریس سر فہرست ہیں۔یہ پانچ پارٹیاں ابھی تک این ڈی اے یا یو پی اے کا حصہ نہیں ۔انتخابی نتائج کے بعد ان کا رخ کیا ہوگا‘ اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔مانا جا رہا ہے کہ موقع ملنے پر کسی بھی اتحاد میں شامل ہو سکتی ہیں۔فی الوقت ان کا جھکاو کسی طرف نہیں؛ حالانکہ ان 5پارٹیو ں کے پاس گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں زیادہ سیٹیں نہیں تھیں‘ لیکن اس الیکشن میں ان کی سیٹوں کی تعداد 75سے زائد پہنچنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
یو پی میں سما جوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ ہونے سے ان کی سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کا امکان ہے۔اس کے علاوہ تلنگانہ میں ٹی آر ایس ‘ارڑیسہ میں بیجو جنتا دل اور آندھرا پردیش وائی ایس آر کانگریس کا مظاہرہ اس بار بھی بہتر رہنے کا امکان ہے۔اس طرح ان پانچ پارٹیوں کی جھولی میں قریب80سیٹیں آ سکتی ہیں۔ایسے میں نئی سرکار کی تشکیل میںکافی اہم ہو سکتی ہیں۔یو پی ‘ آندھرا پردیش ‘تلنگانہ اور اڑیسہ میں ان پارٹیوں کی پوزیشن اچھی ہے ‘یہاں لوک سبھا کی 143 سیٹیں ہیں۔
گزشتہ الیکشن میں ان پانچوں جماعتوں کی 44 سیٹیں ملی تھیں‘جس میں بیجو جنتا کو 20 ٹی ایس آرایس کو11وائی آر ایس کانگریس کو 9اور ایس پی کو 4 سیٹیں ملی تھیں۔بی ایس پی کو کوئی سیٹ نہ مل پائی تھی‘جبکہ ان علاقوں میں 143 سیٹوں میں سے بی جے پی کو 75 سیٹیں ملی تھیں۔اس وقت ٹی ڈی پی ‘این ڈی اے کا حصہ تھی اور اس کے پاس 10سیٹیں آئی تھیں۔یو پی میں دوسیٹیں اے ڈی اے کی اتحادی پارٹی اپنا دل کو ملی تھیں۔اس طرح 87 سیٹیں این ڈی کے حصہ میں تھیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق؛ ٹی آر ایس سربراہ کے ”سی آر راو ‘‘ حالانکہ غیر بی جے پی اور غیر کانگریسی مورچہ کی وکالت کرتے رہے‘ لیکن اس بار وہ کسی بھی اتحاد کی حمایت کر سکتے ہیں؛چونکہ ان کے حریف چندرا بابونائیڈ و ‘ یو پی اے کے ساتھ ہیں ‘قیاس آرائیں جاری ہیں کہ وہ این ڈی اے کے ساتھ جا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ بیجو جنتا دل این ڈی اے کے ساتھ پہلے بھی رہ چکے ہیں ۔وائی ایس آر کانگریس ان دنوں ٹی ایس آر کانگریس کے قریب ہے‘ جبکہ ایس پی اور بی ایس پی ساتھ ساتھ ہیں اور وہ یو پی اے سے دوری بنائے ہوئے ہیں؛حالانکہ مودی سرکار کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ‘ یہ دونوں پارٹیاں کھڑی نظر آتی ہیں ۔اب تک کے انتخابی عمل سے یہی لگتا ہے کسی بھی اتحاد کے لیے اقتدار تک پہنچنا آسان نہیں۔اقتدار تک کا سفر طے کرنے کے لیے انہیں سہارے کی ضرورت ہوگی۔ایسے میں یہ علاقائی پارٹیاں ہی ان کے لیے مددگار بن سکتی ہیں۔
خیال رہے کہ الیکشن کے اعلان سے قبل کانگریس نے اپوزیشن نے پارٹیوں کو متحد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی ‘لیکن علاقائی پارٹیاں اپنا وجود بچانے کی جنگ میں پوری طرح متحد نہ ہو سکیں۔یو پی میں ایس پی ‘بی ایس پی اور آر ایل ڈی مل کر الگ الیکشن لڑ رہے ہیںتو مغربی بنگال میں بھی ٹی ایم سی لیڈر ممتابنرجی نے کانگریس سے دوری بنائی ‘وہیں آندھرا پردیش میں ٹی ڈی پی نے بھی اتحاد سے الگ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا؛حالانکہ بہار میں کانگریس آر جے ڈی نے کئی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا۔
بہر حال انتخابی نتائج کے بعد حالات کیا ہوں گے ‘ کچھ کہنا قبل ا ز وقت ہوگا‘لیکن اتنا طے ہے کہ جوڑ توڑ کی سیاست میں سیکولرازم کی عمل بردار پارٹیوں کا ایک بار پھر امتحان ہوگا۔