پولیو کے قطرے حرام ہیں یا حلال؟ رمضان کا چاند آنکھ سے دیکھنا ضروری ہے یا قمری کیلنڈر بنانا جائز ہے؟ کم عمری کی شادی کی اجازت ہونا چاہئے یا نہیں؟ آج کل ہم اِن دینی معاملات پر زور شور سے بحث کررہے ہیں۔ ویسے بحث کا لفظ تو میں نے یونہی تکلفا ًاستعمال کیا ہے، بحث ہم نہیں کرتے، سیدھا فتویٰ جاری کرتے ہیں کہ فلاں بات حلال ہے اور فلاں حرام، میں صحیح تم غلط، یہ مومن وہ کافر، بس فُل اسٹاپ۔ خاکسار اِس ضمن میں اکبر الٰہ آبادی کا ہم خیال ہے، آپ فرماتے ہیں ’’مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں، فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں‘‘۔
کچھ لوگ البتہ ہمارے درمیان ضرور موجود ہیں جنہیں اللہ نے فالتو عقل سے نوازا ہے، وہ ایسی مذہبی بحثیں بڑے زور شور سے کرتے ہیں، یہ لوگ مولوی صاحبان سے سینگ پھنسا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اسلامی حوالوں کے ذریعے اپنا نقطہ نظر درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اِن سادہ لوح حضرات کے لئے ہمارے محبوب جناب مفتی منیب الرحمن اکیلے ہی کافی ہیں، آپ کا کہنا ہے کہ مذہبی معاملات پر صرف وزیرِ مذہبی امور ہی رائے دے سکتا ہے باقی وزرا اپنی چونچ بند رکھا کریں۔ علما کا یہ استدلال نیا نہیں، روزِ اول سے اُن کی دلیل یہی ہے کہ دینی معاملات میں ہر ایرا غیرا رائے دینے کا اہل نہیں، دینی معالات پر صرف جید علمائے کرام ہی بات کر سکتے ہیں۔ جنہوں نے قران، حدیث اور فقہ کی تعلیم کسی مدرسے سے حاصل کر رکھی ہو، عربی پر اُنہیں مکمل عبور ہو، علم الکلام پر دسترس ہو، فلسفہ اور منطق جانتے ہیں اور عملاً اُن کی زندگی مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہو۔
یہ علمائے دین اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے ڈاکٹر وغیرہ کی مثال بھی دیتے ہیں، مثلاً جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو وہ ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے جو اپنے علم کی روشنی میں اُس کا علاج کرتا ہے جبکہ دینی معاملات میں ہم اِس کلیے کے قائل ہی نہیں، یہاں جس کا دل کرتا ہے اُٹھ کراسلامی فقہ پر رائے دینا شروع کر دیتاہے۔ کوئی کہتا ہے زنا پر حد لاگو نہیں ہو سکتی، کوئی کہتا ہے کہ ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے کی ضرورت نہیں، سو سال کا کیلنڈر بنوا لو اور کوئی کہتا ہے کہ اسلام میں چہرے کا پردہ نہیں، اگر اِس قسم کی تشریحات کی اجازت عام لوگوں کو دے دی جائے تو ہر شخص ہی اپنی ذات میں مجتہد بن جائے گا، جس سے دین کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بصد احترام، ہمارے علمائے کرام کی اِس دلیل میں وزن نہیں۔ اِسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں کسی خاص طبقے یا گروہ کو لائسنس نہیں دیا گیا جو دینی معاملات میں حتمی رائے دیں، مثلاً عیسائیت میں پاپائیت کا پورا نظام موجود ہے، وہاں کارڈنلز پوپ کو منتخب کرتے ہیں، ایک پورا سلسلہ مرتب ہے جو ویٹیکن میں کام کرتا ہے، مذہبی امور میں اِس پاپائیت کی بات حرف آخر تصور کی جاتی ہے، اِسی طر ح ہندو مت میں بھی یہ اختیار برہمن ذات کے مخصوص ہندوؤں کو حاصل ہے، وہاں کوئی شودر کوئی کھتری مذہبی معاملے میں کوئی رائے دینا تو درکنار اِس بابت سوچ بھی نہیں سکتا۔
اسلام نے مذہب کو ذات پات کی بندش سے آزاد کر کے اُسے پوری امت کے لئے کھول دیا، یہی اسلام کا انقلاب تھا، اسلام میں کسی قسم کی پاپائیت یا مذہبی اشرافیہ کا کوئی تصور نہیں، کسی گروہ یا طبقے کو دینی معاملات کی تشریح کا کلی اختیار نہیں دیا گیا، چاہے وہ قران و حدیث اور فقہ کا کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو خلفائے راشدین اپنے زمانے میں پاپائیت کی طرز پر کوئی نظام بنا جاتے جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانے سے لے کر تقریباً دو سو سال تک ہمیں ایسے کسی نظام کی کوئی مثال نہیں ملتی اور اُس کے بعد جب مختلف آئمہ کرام نے فقہ کے علوم میں دسترس حاصل کی تو یہ خیا ل پہلی مرتبہ پیدا ہوا کہ دینی معاملات میں ماہرین کی رائے کو ہی سند مانا جائے، اب اگر آج کے مولوی صاحبان کی دلیل کو درست مان لیا جائے تو اُس وقت کے آئمہ کرام کو بھی اِسی دلیل کی رُو سے یہ اجازت نہیں ملنا چاہئے تھی کہ وہ دین کے معاملے میں رائے زنی کریں کیونکہ اُس وقت تو وہ بھی عام مسلمانوں ہی کی طرح تھے اور کسی فقہ کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اِس بات کو دوسرے انداز میں بھی دیکھ لیں۔
ایک طرف ہمارے علما صاحبان فرماتے ہیں کہ دینی معاملات میں صرف اُنہی کی رائے کو صائب مانا جائے تو دوسری طرف ہمارا یہ بھی ماننا ہے کہ اسلام صرف دین ہی نہیں دنیا کا احاطہ بھی کرتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ بات درست ہے تو پھر علمائے کرام دین و دنیا کی لکیر کیسے اور کہاں تک کھینچیں گے؟ اگر اسلام دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی امور میں بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے تو پھر ہمارے مولانا حضرات کے استدلال میں دم نہیں کہ دینی معاملات میں وہ حرفِ آخر ہوں گے کیونکہ ایسی صورت میں کوئی حد بندی کی ہی نہیں جا سکتی، پھر تو تصویر کھنچوانے سے لے کر جہاز میں سفر کرنے تک اور کلوننگ سے لے کر مانع حمل تک تمام مسائل دینی بھی ہیں اور دنیاوی بھی۔ اب اگر ہمارے عالمِ دین یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہر معاملے میں اپنی رائے دیں جنہیں حرف آخر بھی سمجھا جائے تو یہ ماڈل عیسائیت اور ہندو مت کا تو ہو سکتا ہے اسلام کا نہیں۔
اسلام کی تاریخ تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جو بھی سپہ سالار مکے مدینے سے کسی جنگ کے لئے شام، یمن یا کہیں بھی بھیجا جاتا تھا تو اُس کے ساتھ کوئی فقہ کا ماہر نہیں ہوتا تھا، وہ سپہ سالار موقع پر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق فیصلہ کرتا تھا۔ جی ہاں، وہ لوگ صحابہ کرام کے تربیت یافتہ تھے اور جید صحابی تھے مگر جو اصول تب درست سمجھا گیا وہی اب بھی مانا جائے گا نہ کہ ہم اُسے اپنی منشا کے مطابق تبدیل کر دیں! اِسی طرح بعد کے مسلمانوں میں سے جب کوئی سپہ سالار وسطیٰ ایشیا گیا تو کسی دینی مسئلے کی رہنمائی کے لئے وہ بغداد کے کسی عالم کو خط لکھ کر نہیں پوچھتا تھا کیونکہ ایسا کوئی نظام اسلام میں تھا ہی نہیں۔
ہم ایک جدید دنیا میں رہتے ہیں، اِس دنیا میں خودمختار ریاستوں کا تصور ہے، اِن ریاستوں کے درمیان ایک اقوام متحدہ ہے، اُس کا ایک چارٹر ہے جس پر تمام ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں، جنیوا کنونشن ہے، بنیادی انسانی حقوق ہیں، جن پر دنیا کے ملک متفق ہیں، جنگیں اب بھی ہوتی ہیں مگر جنگی جرائم کی ایک فہرست بنا دی گئی ہے، بادشاہتیں ختم ہو چکی ہیں، اب کسی دوسرے ملک پر قبضہ کر کے وہاں سے غلام اور لونڈیاں مالِ غنیمت میں نہیں لائی جا سکتیں، اب بغیر پاسپورٹ کے سفر نہیں ہو سکتا، بغیر تصویر کے پاسپورٹ نہیں بن سکتا، بغیر رجسٹریشن کے نکاح نہیں ہو سکتا۔ جس طرح یہ تمام باتیں آج سے ہزار ڈیڑھ ہزار سال پہلے نہیں تھیں مگر ہم نے یہ تمام باتیں دھیرے دھیرے قبول کر لیں، اِسی طرح علمائے کرام بھی اب مہربانی کریں اور جدید دنیا کی ایجادات اور ضروریات کو قبول کر لیں، بالکل اِسی طرح جیسے اُنہوں نے لاؤڈ اسپیکر اور ٹی وی پر خاتون اینکر کے ساتھ جلوہ افروز ہونے کو قبول کر رکھا ہے۔