صحافت کا عالمی دن

ہمارے ملک میں نجی میڈیا لانچ ہوا اُدھر دنیا میں غیرمعمولی حالات رونما ہونے لگے۔عراق جنگ، نائن الیون، عرب بہارسے ہماری خبروں پہ ہی بہار آگئی۔ ٹاک شوز جیسے خشک اور بے رنگ پروگراموں میں عوام انٹرٹینمنٹ پروگرام کی نسبت زیادہ دلچسپی لینے لگے۔

پھر ملک میں وکلاء تحریک، بےنظیر سانحہ اور مشرف استعفی تک میڈیا کو بھی اپنی طاقت کا احساس ہو گیا۔ عوامی پذیرائی کے باعث جہاں سیاستدانوں کو حلقے کی نسبت چینل کے ذریعے عوام تک آسان رسائی کا راستہ ملا وہاں کاروباری افراد بھی اس “صنعت” کی طرف متوجہ ہوئے۔ پھٹیچر موٹر سائیکلوں پہ خوار ہونے والے صحافی کو نئے ماڈل کی بڑی گاڑیوں میں گھومتا دیکھ کر نوجوان بھی اس شعبے کی طرف کھنچے چلے آئے۔پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

پھر وہی ہوا جو سرمایہ دارانہ نظام میں ہوتا ہے پراڈکٹ وافر مقدار میں مارکیٹ میں پھینک دی گئی لیکن خریدار نہیں۔ اب خریدار کو متاثر کرنے کے لیے چٹ پٹے مصالحے اور سنسنی کے تڑکے لگا کر کنزیومر کو رِجھانا ناگزیر ہو گیا۔ اس ریٹنگ کی دوڑ میں صحافی تو امیر ہوا لیکن صحافت کو خاصا نقصان پہنچا۔

مارکیٹ میں نام نہاد صحافیوں اور چینلز کی تعداد کثیر ہو گئی اور خبر قلیل رہ گئ۔ خبر کہتے ہیں کسی غیر معمولی واقعہ کو ہیں جب غیرمعمولی واقعہ روزانہ ہر گھنٹے رونما ہونے لگے تو وہ پھر معمول ہی بن جاتا ہے۔ لوگوں سے جھوٹ بول کر ایک مرتبہ ہی مال بیچا جا سکتا ہے ۔کسٹمر کبھی بےوقوف نہیں ہوتا۔ نجی میڈیا نے پہلے دس سال شاید ذہن سازی کی ہو لیکن بعد میں جب لوگوں کو اتنے آپشنز دے دیئے گئے تو اب وہ اپنے ذہن کے ساتھ مطابقت رکھنے والا مواد ہی دیکھتے ہیں ناکہ اپنی سوچ سے ہٹ کر بہتر یا ذہنی تربیت کا مواد۔ اس بات پر بھی یہاں یہ جواز دیا جاتا ہے کہ ہم تووہ دکھاتے ہیں جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یعنی کسٹمر کی مرضی کا مواد چاہے وہ درست ہو یا غلط satisfy the customer کا اصول “خبر” کے لیے اپنایا جاتا ہے۔

بےشک اب بھی میڈیا مشکلات کا شکار ہے پاکستان میں صحافیوں کے لئے سازگار ماحول نہیں۔مارشل لاء کے ادوار ہوں یا طاقتور گروپ کی حکومت صحافت ہمیشہ عتاب کا نشانہ رہی۔لیکن اب پاکستان میں خبر مشکل میں ہے اور خود صحافیوں کے ہاتھوں۔

پہلے صحافی قتل ہوتے تھے اب خبر قتل ہوتی ہے۔

جب ایک مکمل جامع شعبے “صحافت” کو دوسرے مکمل الگ شعبے “تجارت” کے اصولوں کے تحت چلانے کی کوشش کی جائے انجام گلساں یہی ہوتا ہے۔ اور پھر صحافت کے عالمی دن پہ تاریک راتوں پہ شہید ہونے والوں کے ماتم کی جگی ذمہ دار صحافت کہاں جیسے سوالات جنم لیتے ہیں۔ صحافی اوراینکر میں تمیز چوچھی جاتی ہے۔ خبر اور خواہش کا فرق جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس کاروباری ماحول میں بھی کچھ لوگ صحافت اور خبر کو زندہ رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔ پیغام پہنچانے کے لئے میڈیم تبدیل کرلیتے ہیں۔ فیک نیوز، ایجنڈا، پراپگینڈا اور بیانیہ کے سیلاب کے گزر جانے کے بعد جو کھنڈرات آرکائیوز اور کتابوں کی صورت بچیں گے اسی سے تاریخ فیصلہ کرے گی کہ اصل اور ذمہ دار صحافت کس نے کی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے