گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان رؤیت ہلال کے حوالے سے پوری دنیا میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کی جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے۔ 79695 مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے اسلامی ملک کے رہنے والے ایک ہی دن رمضان کے آغاز اور ایک ہی دن عید منانے سے محروم ہوچکے ہیں اور اس افتراق و انتشار کی بنیادی وجہ علماء کا بعض اسلامی احکامات پر اصرار اور جدید سائنس سے عدم واقفیت ہے۔ اس سے تھوڑی سی مختلف صورتحال کا سامنا ہمارے ان مسلمان بھائیوں کو بھی ہے جو یورپ اور دیگر ممالک میں ہیں اور اپنے روزوں اور عید کو چند اسلامی ممالک کے فیصلہ کے ساتھ وابسطہ کرچکے ہیں۔
زیر نظر مضمون شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ایک ٹیلی فونک انٹرویو ہے جو انہوں نے برطانیہ کے ایک سیٹلائٹ چینل Vecteon-Urdu Sky.828 کو دیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی اس علمی و تحقیقی گفتگو میں قرآن و حدیث کی روشنی میں رؤیت ہلال سے متعلقہ جملہ ابہامات و اشکالات کا ازالہ فرمایا۔ آپ کی یہ گفتگو اصل بات و مفہوم کو قائم رکھتے ہوئے چند ضروری ترامیم کے بعد نذرِ قارئین ہے۔ (مرتب)
رؤیت ہلال کے حوالے سے گفتگو سے قبل اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہوں کہ وہ ذات امت مسلمہ کو دین کے شعائر میں اور ان پر عمل کرنے میں وحدت نظری اور وحدت فکری پیدا کرنے کی بصیرت عطا کرے تاکہ امت میں اجتہاد کی صورت جنم لے سکے۔
عرصہ دراز سے رؤیت ہلال کے حوالے سے ایک بحث چلی آرہی تھی اور اس کی بنیاد بہت ساری احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان مبارک ہے۔
صُوْمُوْا لِرُوْيَتِه وَاَفْطِرُوْا لِرُوْيَتِه فَاِنَّ غمَّ عَلَيْکُمْ فعدة ثلاثين.
’’چاند کی رؤیت کی بنیاد پر روزہ رکھو اور چاند کی رؤیت کی بنیاد پر افطار کرو اور جب چاند پوشیدہ ہوجائے تو مہینے کے 30 دن پورے کرلو‘‘۔ (جامع ترمذی)
یہ حدیث، دیگر کتب حدیث میں بھی الفاظ کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ روایت ہوئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ ہیں :
صُوْمُوْا لِروْيَتِه وَاَفْطِرُوْا لِرُوْيَتِه فَاِنَّ غمَّ عَلَيْکُمْ فَاَکْمِلُوْا الْعِدَّةِ.
’’چاند کی رؤیت کی بنیاد پر روزہ رکھو اور چاند کی رؤیت کی بنیاد پر افطار کرو اور جب چاند پوشیدہ ہوجائے تو اپنی گنتی پوری کرلو‘‘۔
امام احمد بن حنبل نے ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث روایت کہ
فَاِنَّ غُمَّ عَلَيْکُمْ الشَّهْر فَاَکْمِلُوْا الْعِدَّةِ ثَلَاثِيْن.
’’اگر ہلال پوشیدہ رہ جائے تو مہینے کے 30 دن پوری کرلو‘‘۔
ان احادیث مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ روزہ رکھنا اور افطار کرنا رؤیت کے ساتھ خاص ہیں۔ رؤیت سے مراد جیسے کہ اس زمانے میں ہوتا تھا رویت بصری ہے یعنی آنکھ سے دیکھنا۔ جس طرح آج بھی پاکستان میں اسی طرح ہوتا ہے کہ چاند آنکھ سے دیکھا جائے، شرعی شہادتیں لی جائیں اور پھر ان شہادتوں کی بنیاد پر رویت یا عدم رویت کا اعلان کیا جاتا ہے۔
رؤیت بصری پر اصرار درست نہیں
میرا موقف شروع سے یہی رہا ہے کہ رویت کا معنی صرف رویت بالبصر نہیں اور اس پر اصرار کرنا امت کے لئے درست نہیں ہے اور نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ منشاء تھا کہ صرف آنکھ ہی سے دیکھ کر چاند کی رویت کا اعتماد کیا جائے۔ بنیادی چیز جو آپ احباب کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس زمانے میں رؤیت بصری کے علاوہ چاند کے ہونے یا نہ ہونے کی خبر اور اطلاع کا اور کوئی ذریعہ نہ تھا لہذا رویت کا معنی آنکھ سے دیکھنے کے علاوہ کوئی اور ناممکن اور ناقابل عمل تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سوسائٹی کے حوالے سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
نَحْنُ اُمَّةٌ اُمِّیَ لَا نَکْتُبُ وَلَا نَحْسِبُ.
(صحيح البخاری، جلد 2، حديث 1814)
’’ہم ان پڑھ قوم ہیں جو لکھنا اور حساب کتاب کرنا نہیں جانتے‘‘۔
اور قرآن مجید میں فرمایا :
وَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّيِيْنَ رَسُوْلًا.
’’اور اللہ تعالیٰ نے ان پڑھ قوم میں رسول مبعوث فرمایا‘‘۔
یہ وہ لوگ تھے جو ابتدائی رسمی تعلیم بھی پڑھے ہوئے نہیں تھے، کسی مکتب، سکول، مدرسہ میں نہیں گئے تھے چونکہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لہذا ان کے پاس کوئی اور علم جیسے علم فلکیات، علم ہئیت، علم حساب، ذرائع مشاہدہ، سائنسی طریقے نہیں تھے کیونکہ اس وقت سائنس نے اتنی ترقی نہ کی تھی۔ لہذا جب چاند کے ہونے یا نہ ہونے، روزے رکھنے اور عید کرنے کے لئے چاند کی خبر کا کوئی اور ذریعہ پوری دنیا میں کسی کے پاس نہیں تھا سوائے اس کے کہ شہادت ملے اور آنکھوں سے دیکھ کر رؤیت یا عدم رؤیت کا اعلان کیا جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد مبارکہ سے کہ’’ قوم حساب کتاب کرنا نہیں جانتی تھی‘‘ میں موجودہ علت کی وجہ سے اس وقت اس ذریعہ یعنی آنکھوں سے دیکھ کر چاند پر اعتماد کیا جاتا تھا۔ ورنہ مقصود یہ نہ تھا کہ قیامت تک یا ہمیشہ میری امت آنکھ سے دیکھنے کے ذریعے پر ہی اعتماد کرے اور اگر اس سے زیادہ باوثوق اور بہتر ذریعہ ایجاد ہوجائے تو اس کو نظر انداز کیا جائے۔
اعلیٰ درجے کی سائنسی ترقی اور اعلیٰ ذرائع کے ایجاد ہونے کے بعد انہیں نظر انداز کروادینا مقصود نہ تھا۔ اس زمانے میں جو Available source of knowledge یا Available source of information (دستیاب ذرائع علم و اطلاع) تھا اس کی نشاندہی کر دی اور اس کے بارے میں بتادیا کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی بہتر ذریعہ اس قوم کے پاس نہ ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں مذکور علم الحساب کی طرف اشارہ
اگر آپ مذکورہ بالا احادیث پر غور کریں تو ان میں دو چیزیں بیان ہوئی ہیں۔
ایک یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ رکھنے اور افطار کرنے کو رؤیت پر قائم کریں۔
اگر چاند پوشیدہ ہوجائے تو 30 دن پورا کرلو۔
گویا رؤیت اور حساب یعنی گنتی پوری کرلینا، دو چیزیں ان احادیث مبارکہ سے واضح ہو رہی ہیں۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان احادیث مبارکہ میں واضح فرمایا کہ اگر رؤیت میسر نہ آئے تو گنتی پر اعتبار کریں۔ گنتی کو حساب کہتے ہیں اور جب یہ گنتی، علم میں بدل گئی تو یہ علم الہیت اور علم الحساب کہلانے لگا۔
پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 29 ویں دن پر اس وقت اور زمانے کے مطابق رؤیت بصری کی طرف نشاندہی کی اور 30 ویں دن پر رؤیت عقلی یا رؤیت بالحساب کی طرف نشاندہی فرمائی۔ یعنی گنتی پوری کرو، عدد پورا کرو۔
اب یہ حساب کے 30 سے آگے اسلامی مہینہ نہیں جائے گا، یہ کس طرح میسر آیا تھا؟ یہ اصل میں علم الہیت اور علم الحساب تھاجوکہ پرانے وقتوں سے Available Scientific Knowledge دستیاب سائنسی علم انسانیت کے پاس جو چلا آرہا تھا کہ 30 سے زیادہ کا مہینہ نہیں ہوتا، اس بنیاد پر فرمایا کہ 30 دن پورے کرلو۔
گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم الحساب کی طرف بھی واضح اشارہ فرمادیا اور مقصود یہ تھا کہ جب آنے والے وقتوں میںعلم الحساب قطعیت اختیار کر جائے گا اور اس کے اندر ثقاہت اور پختگی آجائے گی اور اس میں غلطی کا امکان کم ہوتا ہوتا ختم ہوجائے گا، جب علم الحساب اتنا قابل اعتماد درجے تک پہنچ جائے تو 29 کے معاملے کو بھی تم علم الحساب کی طرف لاسکتے ہو۔ اس وقت چونکہ امت کے پاس رؤیت بصری، آنکھ سے دیکھ کر خبر دینے کے علاوہ اور کوئی ذریعہ اطلاع نہ تھا۔ اگلے دن علم الحساب کی طرف اشارہ فرمانے کا مقصد یہ تھا کہ جب علم الحساب اور علم الہیت اور چاند اور سورج کے سفر کرنا اور ان کی منازل ان کا علم اتنا پختہ ہوجائے اور ان کا علم اتنا قائم دائم اور واضح ہوجائے تو پھر وہ مرحلہ آتا ہے کہ تم اپنے تمام تر علم کی بنیاد علم الحساب پر رکھ سکتے ہو۔ یہ اشارہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دراصل رؤیت بالعقل یا رؤیت بالحساب کی طرف اس وقت فرمایا تھا۔
رؤیت کے معانی
میرا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے اور میں نے ہمیشہ یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ رؤیت کو صرف رؤیت بصری، آنکھ سے دیکھنے تک محدود نہ کیا جائے اور اسی پر ہی انحصار نہ کیا جائے، آنکھ سے دیکھنے سے مراد خواہ ننگی آنکھ سے دیکھنا ہو یا مختلف آلات دور بین وغیرہ سے دیکھنا ہو، یہ آنکھ سے دیکھنے میں ہی شامل ہے بلکہ چاند کے ہونے کا علم اگر جدید سائنس کے ذریعے حتمی اور قطعی طور پر میسر ہوجائے تو اس علم کو بھی رؤیت کہا جاتا ہے اور یہ حدیث مبارکہ سے انحراف نہ ہوگا اور نہ ہی کوئی اجتہاد ہے بلکہ یہ عین حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ایک معنی ہے۔
اس موقع پر میں ’’رؤیت‘‘ ’’دیکھنا‘‘ کے معانی واضح کرتا ہوں تاکہ وہ مغالطہ دور ہوجائے جو تمام خلط مبحث اور ابہام کی بنیاد بنتا ہے کہ جب رؤیت کا لفظ آتا ہے تو لوگ اس سے مراد صرف ’’آنکھ سے دیکھنا‘‘ لیتے ہیں۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ استعمال نہیں کئے کہ ننگی آنکھ سے چاند دیکھ کر روزہ رکھو یا اپنی آنکھوں سے چاند کو دیکھ کر افطار کرو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’’رؤیت‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ضرورت امر کی ہے کہ رؤیت کا معنی متعین ہو کہ لغت عرب میں رؤیت کسے کہتے ہیں۔ یہ تو ہماری بادشاہی ہے کہ ہم نے اپنی تنگ نظری کی بنیاد پر رؤیت کو صرف ننگی آنکھ سے یا دوربین سے دیکھنے تک محدود کر دیا ہے۔
جبکہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رؤیت کو صرف ایک معنی تک محصور کیا ہی نہیں۔اب لغت کی رُو سے یہ جانتے ہیں کہ رؤیت کے کیا معانی ہیں :
٭ المفردات : المفردات میں امام راغب اصفہانی نے رؤیت کے درج ذیل معانی بیان کئے ہیں۔
1۔ رؤیت سے مراد رؤیت بالحاسہ یعنی آنکھ سے یا کسی متبادل حس سے دیکھنا یا جان لینا ہے۔ اس میں انسان کے پانچ حواس شامل ہیں۔
2۔ رؤیت سے مراد ’’حس واہمہ اور حس متخلیہ کی مدد سے اندازہ کرنا‘‘ ہے یعنی اس میںخالصتاً ذہنی عوامل کارفرما ہیں۔ اس کا تعلق حواس ظاہری سے نہ رہا حتی کہ آنکھوں سے تو تعلق ہی کٹ گیا۔ گویا دماغ کو جو علم کے ذرائع میسر آتے ہیں مثلاً حساب کتاب، علم الہیت، سائنسی تجزیے وغیرہ ان کے ذریعے کسی چیز کو سمجھنا، جان لینا اور اس بنیاد پر ایک تصور اور علم کا قائم ہونا بھی رؤیت ہے۔ گویا یہ رؤیت بالعقل ہوگئی۔
جس طرح آنکھوں سے دیکھنا، رؤیت کا صحیح معنی ہے اسی طرح عقل اور دماغ کے علم کے ذریعے دیکھنا بھی رؤیت کا اسی طرح 100 فیصد صحیح معنی ہے اور یہ آنکھوں سے دیکھنے سے انحراف نہیں ہے بلکہ آپ کا انتخاب ہے، معاشرے کے تقاضے ہیں، سائنسی ترقی ہے، امت کی ضرورت ہے کہ آپ اس میں سے کسی معنی کو اختیار کریں اور امت اس پر اتفاق کرلے۔ یہ ہر گز نہ کوئی اجتہاد ہے اور نہ کوئی نیا معنی ہے۔
3۔ اما م راغب اصفہانی نے رؤیت کا تیسرا معنی بیان کیا ہے کہ رؤیت سے مراد رؤیت بالتفکر ہے یعنی غوروفکر کرنا بھی رؤیت ہے اور یہ خالصتاً سائنسی تحقیق ہے اور اس غوروفکر کرنے کو بھی لفظ رؤیت سے بیان کیا گیا ہے۔
4۔ امام راغب اصفہانی رؤیت کا چوتھا معنی بیان کرتے ہیں کہ رؤیت سے مراد رؤیت بالعقل ہے، عقل کی مدد سے جاننا، آج ہم جو بھی علم الحساب، علم الہیت کی بات کرتے ہیں یہ رؤیت ہی ہے۔
اس بحث میں نہیں پڑنا چاہئے کہ رؤیت کا امکان ہوا یا نہیں۔ امکان کی ساری بحث اس وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ Vision اور Visibility کی طرف جاتے ہیں۔ Vision اور Visibility کا براہ راست تعلق آنکھ سے دیکھے جانے اور نہ دیکھے جانے سے ہے۔ میں نے ہمیشہ اس جانب توجہ مبذول کروانے کی کوشش کہ ہے ہر چند کہ یہ بات ابھی تک بہت لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی مگر میں سمجھتا ہوں کہ شاید میری بات آج نہیں 50 سال بعد آنے والی نسلوں کو ضرور سمجھ میں آئے گی اور لوگ لامحالہ اس نتیجے پر آئیں گے کہ عقل سے اگر آپ کو علم فلکیات، علم الہیت، علم الحساب اور سائنس سے ایک ثقہ و پختہ علم مل جاتا ہے اور آپ ایک نتیجہ پر پہنچتے ہیں تو یہ پختہ و ثقہ علم بھی رؤیت کہلاتا ہے۔
جواہر القاموس : جواہر القاموس میں رؤیت کا معنی بیان کرتے ہوئے رؤیت بالعقل کے ساتھ رؤیت بالقلب کا معنی بھی استعمال ہوا ہے۔
لسان العرب : لسان العرب نے بھی یہی معنی بیان کئے ہیں کہ آنکھ سے دیکھنا اور دماغ سے دیکھنا (مراد علم) بھی رؤیت ہیں۔
پس رائے اور رؤیت کا مادہ اور ماخذ بھی ایک ہی ہے اور وہ ہے رٰی ’’اس نے دیکھا‘‘، ’’اس نے غور کیا‘‘، ’’اس نے سمجھا‘‘، ’’اس نے تدبر کیا‘‘، ’’اس نے فکر کیا‘‘۔
قرآن حکیم کی روشنی میں رؤیت کا مفہوم
اب اس بات کی وضاحت قرآن پاک سے کرنا چاہتا ہوں۔
٭ سورۃ الفیل میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِO
(الفيل، 105 : 1)
بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ کیا :
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں (یعنی ابرہہ کے لشکر) کے ساتھ کیا کیا‘‘۔
یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے 50 دن پہلے کا ہے۔ لہذا آنکھ سے دیکھنے کا تو سوال ہی ختم ہوگیا اس لئے بعض مترجمین اس کا معنی کرتے ہیں۔
’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا‘‘۔
کوئی ترجمہ کرتا ہے۔ ’’کیا آپ نے نہیں سنا‘‘۔
کوئی ترجمہ کرتا ہے ’’کیا آپ نے نہیں جانا‘‘۔
آیت مبارکہ میں لفظِ تری ’’دیکھنا‘‘ استعمال ھوا مگر آنکھ سے دیکھنے کا معاملہ ہی نہیں ہے کیونکہ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے بھی پہلے کا ہے۔ اس لئے مترجمین نے مختلف تراجم کئے۔
٭ اس طرح سورۃ الملک میں ارشاد فرمایا :
الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَّا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِن فُطُورٍO
(الملک، 67 : 3)
’’جس نے سات (یا متعدّد) آسمانی کرّے باہمی مطابقت کے ساتھ (طبق دَر طبق) پیدا فرمائے، تم (خدائے) رحمان کے نظامِ تخلیق میں کوئی بے ضابطگی اور عدمِ تناسب نہیں دیکھو گے، سو تم نگاہِ (غور و فکر) پھیر کر دیکھو، کیا تم اس (تخلیق) میں کوئی شگاف یا خلل (یعنی شکستگی یا اِنقطاع) دیکھتے ہو‘‘۔
اب یہاں جن سات آسمانوں کے دیکھنے کی بات ہورہی ہے، اللہ تعالیٰ دکھانا چاہ رہا ہے کہ تم سات آسمانوں کے اندر ساری کائنات کو دیکھو کوئی عدم توازن نظر نہیں آئے گا۔ اب بتائیے کہ کون سی آنکھ ہے جو سات آسمانوں کے توازن اور عدم توازن کو دیکھ سکتی ہے۔ کون بندہ ہے جو یہ دیکھ کر بتاسکتا ہے۔ ایک چیز جب ننگی آنکھ سے نظر آنے والی ہی نہیں ہے تو کیا اللہ تعالیٰ اس چیز کو دیکھنے کی دعوت دے رہے ہیں جسے مکمل طور پر آنکھ دیکھ ہی نہیںسکتی، معاذاللہ اگر ننگی آنکھ سے دیکھنے کے ساتھ یہ معنی محصور کرلیں تو یہ انسانوں کے ساتھ مذاق بن جائے اور اللہ تعالیٰ تو مذاق سے پاک ہے۔ اس نے ماتری کہہ کر اشارہ دیا کہ تم غور کرو، عقل سے دیکھو، علم الہیت، سائنس، علم الحساب اور تحقیق، علم، تدبر، فکر سے دیکھو تمہیں ساری کائنات میں میری تخلیق میں کوئی تفاوت نظر نہ آئے گا۔ پس یہاں ننگی آنکھ کی بحث ہی نہیں، ننگی آنکھ تو ایک میل تک نہیں دیکھ سکتی، تو یہ اربوں، کھربوں میلوں سے بھی زیادہ پھیلی ہوئی کائنات کے تفاوت اور عدم تفاوت کو کون دیکھے گا، پس اس سے مراد جاننا ہے۔
آیت مبارکہ میں فَارْجِعِ الْبَصَرَ فرما کر لفظ آنکھ بھی استعمال کیا تو اس سے مراد بھی آنکھ سے دیکھنا نہیں ہے بلکہ دماغ مراد ہے، یعنی تحقیق، غوروفکر مراد ہے کہ بار بار پلٹ کر غور کرو، پلٹ کر تحقیق کرلو، پلٹ کر سوچ لو، کہیں کوئی عدم توازن نظر نہیں آئے گا۔ گویا بصر کہہ کر بھی مراد غوروفکر لیا گیا ہے۔
٭ اسی طرح سورہ الحج میں فرمایا :
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ.
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے ساری مخلوق اللہ کو سجدہ ریز ہوتی ہے‘‘۔
(الحج، 22 : 18)
کیا ننگی آنکھ سے زمین و آسمان کی ساری مخلوق، ساتوں آسمانوں پر رہنے والی مخلوق فرشتوں کو دیکھ سکتے ہیں کہ وہ سجدہ ریز ہیں یا نہیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے دعوت دی ہے کہ دیکھ لیں اللہ ہی کے لئے ساری مخلوق سجدہ ریز ہے اس میں دیکھنے سے مراد غور فکر ہے اور یہ رؤیت بالعلم ہے، رؤیت بالعقل، بالتفکر ہے۔
٭ سورۃ البقرہ میں ارشاد فرمایا :
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَآجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ..
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑا کرنے لگا‘‘۔
(الْبَقَرَة ، 2 : 258)
یہاں نمرود کی بات ہورہی ہے۔ اب نمرود، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے ہزارہا سال پہلے ہوگزرا تھا اور یہ نمرود اور حضرت ابراہیم کے درمیان توحید باری تعالیٰ پر ہونے والے مناظرہ کی طرف اشارہ ہے۔ یہ واقعہ ہزارہا سال پہلے کا ہے اور قرآن الم تر ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا‘‘ رؤیت کا لفظ استعمال کررہا ہے۔ پس اس سے ننگی آنکھ سے دیکھنا تو کوئی مراد نہیں لے سکتا۔ یہاں مراد ہوگا کہ ’’کیا آپ نے نہیں جانا‘‘، ’’کیا یہ بات آپ کے علم میں نہیں آئی‘‘، ’’کیا یہ بات آپ تک نہیں پہنچی‘‘، پس مراد خبر ہے، اطلاع ہے، علم ہے، جاننا ہے۔
٭ اس طرح سورۃ کہف میں ارشاد فرمایا :
وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ.
’’اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو ان سے بائیں جانب کترا جاتا ہے‘‘۔
(الکهف، 18 : 17)
اصحاب کہف کا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس سے ہزارہا سال پہلے کا ہے۔جب ان اصحاب کے غار میں قیام فرما ہونے کے دوران اس وقت سورج دائیں اور بائیں ہٹ کر گزرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے ’’آپ دیکھتے ہیں‘‘ کہ کسی طرح سورج ہٹ جاتا ہے۔ پس یہاں ننگی آنکھ کی بحث نہیں ہے بلکہ یہاں ’’تری‘‘ کا معنی علم ہے، علم بالوحی، علم بالعقل، علم بالکشف، اطلاع اور خبر ہے، انبیاء کو جو بھی ذریعۂ علم حاصل ہوتا ہے وہ سارے ذرائع اس میں شامل ہیں۔ پس علم جس ذریعے کے ساتھ بھی پہنچے تو اس کو رؤیت کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔
٭ آج سے کھرب ہا سال قبل جب کائنات کی ابتداء ہوئی اور کائنات کو ایک Unit سے پیدا کیا گیا اور فتق کا عمل شروع ہوا، جب زمین و آسمان کا وجود بھی نہ تھا expansion & creation (تخلیق و کشادگی) کا عمل شروع ہوا تھا۔ اس وقت کا ذکراس طرح سورۃ الانبیاء میں کیا جارہا ہے :
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا.
’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا‘‘۔
(سوره الانبياء، 21 : 30)
کھرب ہا سال پہلے وقوع پذیرہونے والے واقعہ کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ اس میں غور کریں اور یہ معاملہ Cosmology کا ہے، یہ معاملہ کائنات کی تخلیق اور اس کی توسیع Expansion سے متعلق ہے، سائنس کا مسئلہ ہے، مگر اس کو بیان کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا کہ کیاان کافروں نے نہیں دیکھا مراد یہ کہ کیا انہوں نے غوروفکر نہیں کیا، کیا ان کے علم میں یہ بات نہیں آئی، اگر آج نہیں آئی تو صدیوں بعد آجائے گی کہ کائنات کس طرح ایک اکائی تھی اور اللہ نے اسے پھاڑ کر جدا کیا اور پھر اسے بڑھادیا۔
میں نے چند آیات اس لئے کوڈ کی ہیں تاکہ یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہوجائے کہ لفظ رؤیت کا معنی ہر گز ہرگز آنکھ سے دیکھنے پر محصور نہیں ہے۔ علم، خبرو اطلاع کسی بھی ذریعے سے میسر آجائے تو اس کو رؤیت کہتے ہیں۔
لہذا اس تمام تفصیل اور شرح کی روشنی میں ان احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غور کریں تو مفہوم واضح ہوجاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جب تمہیں چاند کے ہونے کا علم ہو تو اس علم پر روزہ رکھو اور چاند کے ہونے کے علم پر افطار کرو‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کا معنی یہ ہے کہ جب تمہیں چاند کے ہونے کا علم ہوجائے، اطلاع ہوجائے، جب جان لو کہ چاند ہوگیا تو روزہ رکھو اور جب جان لو کہ چاند ہوگیا تو افطار کرلو۔
ذریعہ نہیں بلکہ مقصد بنیادی چیز ہے
اس وقت جو ننگی آنکھ سے دیکھنے کا ذکر احادیث میں آتا ہے وہ مقصود نہیں تھا بلکہ ذریعہ تھا کیونکہ جاننے اور علم ہونے کا کوئی اور ذریعہ اس وقت موجود نہ تھا۔ سوائے اس کے کہ ننگی آنکھ سے دیکھتے اور شہادت لے کر خبر دے دیتے۔ پس وہ اس دور کا ذریعہ تھا، ذرائع بدلتے رہتے ہیں، شریعت میں ذرائع بدلنے سے کوئی حرج واقع نہیں ہوتا، مقاصد وہی رہتے ہیں۔ مقصد تک پہنچانا بنیادی چیز ہے۔ ذرائع بدل کر آج آپ Astronomy پر پہنچ گئے اور مزید سائنسی ترقی کی بناء پر یہ علم بھی پیچھے رہ گیا، اب علم الحساب اتنا آگے بڑھ گیا ہے کہ آپ آنے والے 100 سال میں چاند کی پیدائش۔۔۔ اس کی منازل۔۔۔ سورج کے ساتھ چاند کا زاویہ۔۔۔ کتنا فاصلہ طے کرچکا۔۔۔ اس کی عمر کب کتنی ہوگی۔۔۔ غروب شمس اور غروب قمر میں کتنا فرق ہوگا۔۔۔ ان تمام چیزوں کے متعلق واضح بتاسکتے ہیں۔ گویا علم یہاں تک پہنچ چکا ہے، علم کے ذرائع یہاں تک آگے بڑھ چکے ہیں۔
آج سے کچھ عرصہ قبل ہمارے کچھ احباب پہلے رؤیت بصری پر اصرار کرتے تھے اور آلاتی رؤیت کی بات سننا بھی نہیں چاہتے تھے، رصد گاہی رؤیت کی بات سننا نہیں چاہتے تھے، یہ کہتے تھے کہ یہ کافروںکی ایجاد ہے۔۔۔ ایک وقت تھا کہ لوگ ریڈیو اور TV کی خبر پر بھی اعتماد نہیں کرتے تھے۔ میں جب 8th یا 9th کا طالب علم تھا اور اعتکاف بیٹھتا، اس وقت حکومتی سطح پر ریڈیو اور TV سے چاند نظر آنے کی خبر آتی تو ہمارے علماء ہمیں اعتکاف سے نہ اٹھنے دیتے تھے اور کہتے کہ یہ ریڈیو اور TV کی خبر ہے اور ناقابل اعتبار ہے۔ انگریزوں کی ایجاد ہے جب تک دو بندے بنفس نفیس آکر گواہی نہ دیں، چاند نظر آنے کی اطلاع کو نہ مانا جائے۔
کون ہے جو اس چیز کو جھٹلا سکتا ہے۔ یعنی ایک وقت وہ تھا کہ وہ ریڈیو، TV کی خبر کو کافروں کی ایجاد سمجھ کر اس کی شہادت قبول نہ کرتے تھے۔ آج الحمدللہ اس رویہ کو چھوڑ گئے ہیں۔
مزید ترقی ہوئی تو آلاتی رؤیت پر آئے اور جب ارتقاء ہوتا گیا پہلے موقف چھوڑتے چلے گئے، میں ان سے کہتا تھا کہ آپ جو دور بین کے ذریعے دیکھ رہے ہیں یہ بھی رؤیت بصری ہی کی طرح ہے، ایک وقت آئے گا آپ یہ آلاتی رؤیت بھی چھوڑ دیں گے اور الحمدللہ اب یہ بھی چھوڑ چکے اور اب ہمارے علماء ایک تیسری سٹیج پر پہنچ چکے جس کو امکانی رؤیت کہتے ہیں، میں نے جو بات کہہ رکھی ہے وہ اس سے بھی اگلی سٹیج ہے، وہ ابھی نہیں آئی، مجھے علم ہے، میری بنیادی تجویز کو آج کوئی نہیں مانے گا اسی طرح جس طرح اُس وقت بصری رؤیت کو کوئی چھوڑنے پر تیار نہیں تھا اور آج چھوڑ کر تیسری سٹیج پر آچکے ہیں یعنی امکانِ رؤیت پر، اب جب امکانِ رؤیت کہ طرف آگئے ہیں تو نہ ننگی آنکھ سے دیکھنا رہا، نہ 29 رمضان یا 29 شعبان کو رصد گاہ میں دوربین کے ذریعے دیکھنا رہا، گویا Vision بھی نہ رہا، اب تو آپ چند دن قبل بیٹھ کر بحث کررہے ہیں کہ پہلا روزہ یا عید کس دن ہو۔ پس جب آپ چاند کے ہونے کے متعلق چند دن قبل فیصلہ کرنے کی طرف آگئے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے آلاتی رؤیت بھی چھوڑی اس طرح جس طرح بصری رؤیت چھوڑی۔
امت آج مبارکباد کی مستحق ہے، جملہ علماء کرام مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ بصری رؤیت سے آگے بڑھ کر آلاتی رؤیت اور پھر اس کے دائرہ سے نکل کر امکان رؤیت کی طرف آچکے ہیں۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے گویا وہ دو سٹیجز عبور کرکے تیسری سٹیج پر آچکے۔
میری تمام گفتگو کا یہ مقصد نہیں ہے کہ میں رؤیت ہلال کے حوالے سے کوئی فارمولہ دینا چاہتا ہوں۔
ایک گذارش : میرا مقصود کوئی فارمولہ دینا نہیں بلکہ میں مختلف تجاویز امت کے سامنے مختلف اوقات میں رکھ چکا ہوں اور یہ تجاویز اس لئے دی ہیں تاکہ امت کسی ایک پر ہی اتفاق کرلے، اجماع ہو جائے کیونکہ یہ تمام گنجائش معانی میں نکلتی ہے۔ مقصود یہ نہیں تھا کہ میں نے پہلے ایک تجویز دی، پھر وہ بدل کر دوسری دی، تیسری دی، میں نے کبھی کوئی فارمولہ نہیں دیا میں کون ہوں جو فارمولہ دوں اور یہ بات بھی واضح کرلیں کہ کوئی فارمولہ دے بھی نہیں سکتا۔ فارمولے ماہرین فلکیات دیتے ہیں اگر کوئی سمجھے کہ فلاں عالم دین کا یہ فارمولہ ہے تو یہ غلط ہے، کوئی سمجھے کہ سعودی عرب کایہ فارمولہ ہے تو یہ غلط ہے، نہ کوئی ملک کوئی فارمولہ دے سکتا ہے، نہ ڈاکٹر طاہرالقادری دے سکتا ہے اورنہ دنیا کا کوئی اور عالم اور نہ کوئی سوسائٹی کوئی فارمولہ دے سکتی ہے۔ ماہرین علم فلکیات نے فارمولے دے رکھے ہیں۔ میں مختلف فارمولوں کی شکل میں تجاویز دیتا رہا ہوں کہ ان میں سے کسی ایک فارمولے کو اختیار کرلیا جائے۔
امکانِ رؤیت ہلال تاریخ کی نظر میں
اب میں اس بات پر آتا ہوں Visibility امکان رؤیت کے کئی فارمولے ہیں۔ یہ فارمولہ تاریخ کے تین ادوار میں سے گزرا ہے۔
1۔ دورِ بابل : سب سے پہلا زمانہ تھا جسے بابل کا زمانہ کہتے ہیں ان کا امکان رؤیت کا پہلا فارمولہ تھا کہ
i۔ پیدائش کے بعد چاند کی عمر دیکھتے تھے کہ کیا ہے؟
ii۔ غروب آفتاب و غروب ماہتاب کے درمیان وقت کو معلوم کرتے کہ کتنا گزرا ہے؟
قدیم ضابطے میں یہ دو چیزیں ہوا کرتی تھیں۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آج بعض لوگ چاند کی عمر کو دیکھتے ہیں اور وقفہ کو دیکھتے ہیں، جبکہ یہ فارمولہ متروک ہوچکا ہے۔ ہمارے بعض احباب ایسے بھی ہیں جو اکٹھے بیٹھ کر اس پر بحث کرتے ہیں، کسی چیز کو رد کرتے ہیں، کسی پر متفق ہوتے ہیں، کسی کی رائے کا مذاق اڑاتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ چاند کی عمر اور غروب آفتاب کے بعد اس کی موجودگی پر بحث کرتے ہیں۔ انہیں اتنا معلوم نہیں کہ جن شرائط کا ذکر وہ کررہے ہیں وہ شرائط قدیم زمانہ میں بابل کے وقت کی شرائط ہوا کرتی تھیں۔ اس کے بعد ارتقاء ہوا، تحقیق ہوئی اور ان کا اعتبار اب اس چیز پر نہ رہا۔
2۔ دورِ اسلام : دوسرا فارمولہ دور اسلام میں آیا اس میں امام یعقوب بن طارق (8 ویں صدی عیسوی)، امام موسی بن محمد خوارزمی، امام ابوجعفر الخازن، امام محمد بن ایوب طبری، شیخ موسی بن مامون آئے، ان علماء و سائنسدانوں نے اصول بدل دیئے اور چاند کی عمر اور غروب آفتاب کے بعد چاند کتنی دیر مطلع پر رہا پر انحصارکرنے کی بجائے سورج و چاند کے درمیان موجود زاویہ پر Visibility کا انحصار کیا۔ اسلام کے 8 سو سال کے دور میں انہوں نے زاویہ پر انحصار کیا اور نیا فارمولہ دیا اور کہا کہ سورج و چاند کے مابین موجود زاویہ کو دیکھا جائے کیونکہ ان دونوں کے درمیان کئی ایسے زاوئیے ہیں جس بناء پر چاند نظر نہیں آسکتا۔ Visibility ممکن نہیں اور اگر ان زاویوں سے نکل کر چاند فلاں فلاں زاویوں پر آجائے تو Visibility ممکن ہے۔
3۔ دورِ جدید : تیسرا فارمولہ/ ضابطہ جدید دور کا آیا اور دور جدید جس پر آج انحصار چل رہا ہے اس میں دو چیزیں نئی داخل ہوگئیں اور وہ یہ کہ
1۔ غروب آفتاب کے وقت چاند کی افق سے بلندی کتنی تھی یعنی Moon Altitude کیا تھا؟
2۔ غروب آفتاب کے وقت چاند کا افقی زاویہ کیا تھا؟ یعنی Relevant Azimuth کیا تھا؟
دور اسلام کا ضابطہ گزر گیا جس میں سورج اور چاند کے مابین زاویہ کو دیکھا جاتا تھا۔ اب Visibility کو Determine طے کرنے کا دور جدید کا ضابطہ ہے۔ پس پوری تاریخ کے تین فارمولے ماہرین فلکیات دے چکے ہیں، اب ان تین فارمولوں کے نتیجے میں 13ماڈل چل رہے ہیں۔
رؤیت ہلال کے 13 ماڈلز
اب میں وجہ بتاتا ہوں کہ میں نے مختلف تجاویز مختلف اوقات میں کیوں دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت 13 ماڈل چل رہے ہیں امت ان میں سے کسی ایک پر بھی اتفاق کرلے وہی جائز ہوگا تاکہ افتراق ختم ہو اور امت متحد ہوجائے۔
پہلا ماڈل بابل کے زمانے کا ہے جسے’’ زیرو ماڈل‘‘ کہا جاتا ہے۔
دوسرا ماڈل ابن طارق ماڈل ہے۔
Fothringham ماڈل
Monder ماڈل
انڈین شاٹس ماڈل
Broin ماڈل
الیاس ماڈلA (ملائیشیا کے مسلمان پروفیسر)
الیاس ماڈل B
الیاس ماڈل C
RGO67 ماڈل
SAAO ماڈل
شوکت ماڈل
ییلپ ماڈل (97-98ء)
یہ وہ ماڈل تھے جو مختلف ماہرین نے تاریخ کے تینوں ادوار کو سامنے رکھ کر بنائے ہیں اور اس کے نتیجے میں رزلٹ دیتے ہیں کہ چاند فلاں تاریخ کو Visible ہوگا یا نہ ہوگا۔
میرا موقف فقط اتنا تھا کہ لوگوں کو بصری رؤیت سے ہٹا کر سائنس فیصلہ جات کی طرف لے آنا، اس کے علاوہ میرا کوئی ماڈل اور فارمولہ نہیں ہے۔ آج کل کے دور میں جب علماء امکان رؤیت کی طرف بڑھ رہے ہیں میرا فارمولہ جو اس وقت میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر آپ نے امکان رؤیت پر رہنا ہے تو درج بالا مختلف سائنسی ماڈلز آچکے ہیں آپ کسی بھی ماڈل پر اتفاق کرلیں۔
میری اگلی گفتگو میرا وہ موقف ہے جب آج سے 25، 50 سال بعد آپ Visibility پر نہیں رہیں گے۔ امکان رؤیت سے بھی آگے کی منازل طے کریں گے۔ اس وقت میں اپنے بیان کردہ فارمولہ پر اصرار نہیں کرتا کیونکہ لوگ، احباب، علماء کرام ابھی اس بات پر آنے کے موڈ پر نہیں ہیں لہذا مجھے کوئی اصرار نہیں ہے میں ایسی کوئی بات نہیں کہنا چاہتا جو ایک نیا تیسرا مذہب پیدا کردے اور فتنے کا باعث بنے۔ اللہ تعالیٰ امت کو فتنے سے بچائے۔ اس وقت میں فتنوں اور افتراق کو ختم کرکے کسی بھی ایک ماڈل/ سٹینڈرڈ کسی بھی ایک Criterian پر امت کو ایک کرنے کا خواہاں ہوں۔
میں چاہتا ہوں کہ بیان کردہ کسی بھی ایک ماڈل، فارمولہ پر امت ایک ہوجائے اور دو دو اور تین تین عیدوں کے ہونے سے اسلام کا جو مذاق ہوتا ہے وہ ختم ہوجائے۔ لوگوں کو کسے ایک ملک کے فیصلہ پر انحصار کو چھوڑنا ہوگا اور اتفاق کے لئے کسی ایک ماڈل اور فارمولہ پر اتفاق کرنا ہوگا۔
رؤیتِ ہلال۔۔۔ عملی حل
اس مسئلے کے بنیادی مقدمات اور اصول علمی اور فلکیاتی اعتبار سے سمجھ لینے کے بعد اب اس مسئلہ کے عملی حل کی طرف آتے ہیں کہ کس طرح ہم اس مسئلے پر متفق ہوسکتے ہیں۔ اس مسئلہ کے حل کی طرف آنے کے لئے بھی چند بنیادی چیزوں کا سمجھنا از حد ضروری ہے۔
سب سے پہلی بنیادی بات جو ذہن نشین کرنے والی ہے یہ میری اپیل بھی ہے اور طویل غوروخوض اور مطالعہ کا لب لباب بھی ہے۔ میری امت مسلمہ اور جملہ علماء و خطباء کے لئے ایک Humble Suggestion بھی ہے کہ دو چیزوں کو چھوڑے بغیر ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔
1۔ کسی بھی ملک کے رؤیت و عدم رؤیت کے فیصلہ کی طرف دیکھنا چھوڑنا ہوگا خواہ وہ سعودی عرب ہے یا کوئی اور ملک۔ کسی اور ملک کے اعلان کا نہ انتظار کیا جائے نہ اسے Follow کیا جائے۔
2۔ دوسری بات جس کو چھوڑنا ہوگا وہ یہ کہ رؤیت بصری کے تصور کو چھوڑے بغیر اس مسئلہ پر متفق نہیں ہوسکتے۔ ہم جس طرح حقیقی رؤیت یعنی دیکھنے کو چھوڑ کر قابلِ رؤیت کی طرف آگئے ہیں یعنی چاند Visible ہے یا نہیں، گویا حقیقی رؤیت کو چھوڑ کر قابل رویت کی طرف آگئے۔ ہم اس تصور اور عمل کو چھوڑ کر ایک اور قدم آگے بڑھنا ہوگا اور وہ رؤیت بمعنیٰ علم، خبر اور چاند کے ہونے کی اطلاع ہے، اس کو قبول کرنا ہوگا۔
ہر ملک کے لوگ اگر اپنے فارمولے پر عمل کریں تو ان شاء اللہ پوری امت کے نتائج خود بخود یکساں ہوجائیں گے۔
سعودی عرب ام القریٰ کے نام سے ایک کیلنڈر جاری کرتا ہے اور اس سے قبل وہ تین مختلف فارمولے بناچکا ہے اور پھر انہیں چھوڑ چکا ہے، مسترد کرچکا ہے، عوام کو معلوم نہیں ہوتا وہ تو صرف اس حکومت کی طرف سے جاری کردہ اعلان کو سنتے ہیں۔ ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ اعلان آیا رؤیت کی بنیاد پر کیا ہے یا قابل رؤیت ہونے کی بنیاد پر کیا ہے یا کسی اور فلکیاتی فارمولے اور حساب کتاب کی بنیاد پر کیا ہے۔ پس اس امر سے آگاہی ضروری ہے۔
سعودی عرب میں King Abd-ul-Aziz City for Science & Technology کی طرف سے کیلنڈر شائع کیا جاتا ہے۔ اور یہ کیلنڈر ام القریٰ کیلنڈر آف سعودی عریبیہ کے نام سے چھپتا ہے۔ یہ ان کا سرکاری Version ہے اور Internet پر اس کو دیکھا جاسکتا ہے اور کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس کیلنڈر کے مطابق چاند کی رؤیت یا عدم رؤیت کا اعلان نہیں کرتے بلکہ اس سے ایک دن قبل یا بعد والے دن رمضان یا عید کا اعلان کرتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب اس وقت تک تین مختلف مراحل سے گزر چکا ہے اور نقائص کی بنیاد پر ان کیلنڈرز کو رد کرچکا ہے۔ انہوں نے پہلا فارمولا 16 اپریل 1999ء کو جاری کیا اس کے مطابق ام القریٰ کیلنڈر کی بنیاد غروبِ آفتاب کے وقت چاند کی عمر پر تھی۔
انہوں نے اس فارمولے کو اختیار کئے رکھا اور ایک عرصہ کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ فارمولہ غلط ہے اور لوگوں نے حتی کہ یورپی ممالک جو سعودی عرب کے مطابق رمضان اور عید کیا کرتے تھے نے بھی کئی رمضان اور کئی عیدیں Birth of new moon سے بھی پہلے کر ڈالیں۔
اس کے بعد انہوں نے دوسرا فارمولہ اختیار کیا۔
لیکن اس طریقے سے انہوں نے دیکھا کہ 85 فیصد چاند Visible نہ ہوتا تھا۔ لہذا انہوں نے اس فارمولے کو بھی ختم کردیا اور تیسرا فارمولہ 15 مارچ 2002ء میں اختیار کیا ۔ اس فارمولے میں قانون یہ بنایا کہ
اگر نئے چاند کی پیدائش غروب آفتاب سے پہلے ہوجائے اور چاند آفتاب غروب کے بعد غروب ہو تو آنے والا دن نئے مہینے کا پہلا دن ہوگا۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے اس فارمولے کے اندر بھی کچھ تبدیلیاں کیں۔
بتانا مقصود یہ ہے کہ سعودی عرب سمیت دنیا کا کوئی اسلامی ملک اس وقت رمضان اور عید کے فیصلے کو رؤیت Visiblity پر منحصر قرار نہیں دے رہا۔ ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہم بات Visibility کی کررہے ہیں مگر عملاً ایک اعلان بھی Visibility کے مطابق نہیں ہورہا اور اس کے اندر مشکلات ہیں۔
عملاً اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ہمیں جس طرف آنا ہے وہ یہ شکل ہے کہ اگر ہم Visibility رؤیت کی طرف آتے ہیں تو Visibility اتنی زیادہ Complicated مشکل ہے کہ اس میں صرف Sunset اور Moonset غروب آفتاب وماہتاب، Lag time غروبِ آفتاب وماہتاب کے مابین وقت کا فرق، اور چاند کی عمر ہی کے مسائل نہیں بلکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ Visibility چاند کی عمر کے 50گھنٹے بعد ہوتی ہے اور بعض اوقات Visibility چاند کی عمر کے 60 گھنٹے بعد ہوتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ چاند اور سورج کے مابین زاویہ بھی ایک اہم کامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں Moon altitude (چاند کی افق سے بلندی) اور Relevant Azimuth (چاند کا افقی زاویہ) بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے جس بناء پر ایک زاویہ پورا ہوتا ہے تو دوسرا زاویہ پورا نہیں ہوتا، دوسرا زاویہ پورا ہوتا ہے تو تیسرا زاویہ پورا نہیں ہوتا اس کی وجہ سے کبھی چاند کی پیدائش کو 3 دن تک گزر جاتے ہیں مگر Visible نہیں ہوتا، Visibility ایک اتنا Technical اور Complicated معاملہ ہے کہ ہم اس کو چھوڑے بغیر کسی متحدہ فارمولہ پر نہیں آسکتے۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ چاند کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے مگر چاند مطلع پر غروب آفتاب کے بعد بہت تھوڑی دیر رہتا ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ چاند کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے یعنی ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے مگر مطلع پر بہت زیادہ دیر رہتا ہے، لہذا میں نے ان تمام چیزوں کا طویل مطالعہ کرنے کے بعد جس فارمولہ یا Criteria یا Suggestion پر پہنچا ہوں وہ 3 نکات پر مشتمل ہے۔
1۔ Acctual Visibility کے تصور کو ترک کردیا جائے کیونکہ قابل رویت ہونے کی بات جیسے کہ واضح کرچکا صرف زبانی مکالمے اور مباحثے تک ہے اور الفاظ تک محدود ہے، اس Visibility کے تصور کے مطابق نہ رمضان کا روزہ رکھا جارہا ہے اور نہ عید کی جارہی ہے، عملاً عمل ہی نہیں ہورہا، سالہاسال سے یہی ہورہا ہے۔
2۔ دوسری چیز جو فارمولہ میں دینا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ایک شرط پوری ہونی چاہئے جس پر اعتماد اور اعتبار کیا جائے اور وہ یہ کہ نئے چاند کی پیدائش، ہر قیمت پر سورج غروب ہونے سے پہلے ہونی چاہئے، قطع نظر اس بات کہ سورج کے غروب ہونے سے کتنی دیر پہلے ہوئی ہو۔ وہ ایک گھنٹہ/ دو گھنٹہ کا وقت بھی ہوسکتا ہے اور 12، 14 گھنٹے کا وقت بھی ہوسکتا ہے۔ پس یہ شرط ضرور پوری ہو کہ چاند غروب آفتاب سے پہلے پیدا ہوچکا ہو۔
نیز یہ امر بھی ضروری ہو کہ اس دن شام کو چاند، سورج کے غروب ہونے کے بعد غروب ہو۔ گویا اگر یہ دو شرائط کہ نئے چاند کی پیدائش، غروب آفتاب سے پہلے ہو اور یہ چاند، غروب آفتاب کے بعد غروب ہو تو چاند کی رویت کے حوالے سے نئے اسلامی ماہ کے آغاز ہونے یا نہ ہونے کے بارے فیصلہ کیا جاسکتا ہے اور وہ اس طرح کہ
3۔ i۔ اگر چاند کی پیدائش غروب آفتاب سے پہلے ہوچکی تھی اور Lag Time 20 منٹ ہے مراد چاند کا غروب، آفتاب غروب کے کم از کم 20 منٹ بعد ہوا تو اس کو اسلامی مہینہ کی پہلی شام مانا جائے اور اگلا دن نئے مہینے کا دن مانا جائے۔
ii۔ دوسری شکل یہ کہ اگر چاند کی عمر غروب آفتاب کے وقت 12 تا 16 گھنٹے ہوچکی ہو اور غروب آفتاب کے بعد چاند خواہ 4، 5 منٹ ہی کیوں نہ مطلع پر رہے اس شام کو پہلی شام مانا جائے اور اگلا دن، نئے مہینے کا مانا جائے۔
ان دو میں سے جو کوئی ایک شرط پوری ہوجائے، خواہ مطلع پر Lag Time غروب آفتاب کے بعد 20 منٹ ہو اگرچہ چاند ایک گھنٹہ پہلے پیدا ہوا ہو۔ خواہ چاند کی عمر 14، 15 گھنٹے ہوچکی ہو اور غروب آفتاب کے بعد مطلع پر Lag Time 5 منٹ ہو۔ اگلا دن نئے اسلامی مہینہ کا پہلا دن ہوگا۔
مجھے امید ہے کہ اگر ہم اس فارمولے کے مطابق چلیں تو یقیناّ اس کا نتیجہ خود بخود یہ نکلے گا کہ جملہ اسلامی ممالک اور برطانیہ کی عید تقریباً ایک ہی دن ہوا کرے گی۔ میں نے پچھلے تمام کیلنڈرز کا تفصیلی مطالعہ کیا تو یہ چیز واضح ہوئی کہ مشرق و مغرب میں سورج اور چاند کے غروب میں جتنا فرق ہے اسی حساب سے Lag Time یعنی غروب آفتاب کے بعد مطلع پر چاند کے موجود رہنے کے وقت میں فرق آجاتا ہے، جتنا Lag Time میں فرق آجاتا ہے اسی تناسب سے دونوں اطراف چاند کی پیدائش کے وقت میں فرق آجاتا ہے۔ مجموعی طور پر اگر ہر ملک خواہ اس کا تعلق یورپ سے ہے یا کسی اور ملک سے بیان کردہ حساب کے مطابق اپنے فارمولے کے مطابق عمل کریں اور سعودی عرب یا کسی اور اسلامی ملک کے اعلان کا انتظار نہ کریں بلکہ ہر ملک مہینہ پہلے اعلان کرسکتا ہے کیونکہ چاند کی پیدائش کے اوقات ماہرین فلکیات کافی عرصہ پہلے معلوم کرلیتے ہیں کہ فلاں سال کے فلاں مہینہ کا چاند کب پیدا ہوگا اور کب غروب ہوگا۔ لہذا جب ہر ملک فارمولے کے مطابق اعلان کردے گا تو میں ان شاء اللہ بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ لامحالہ رزلٹ یہ ہوگا کہ نہ صرف برطانیہ کے جملہ ممالک کا رمضان اور عید ایک دن ہوگی بلکہ دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ بھی ان کی مطابقت پیدا ہوجائے گی۔ یہ میری ایک تجویز ہے۔
میں اسلامی ممالک کے تمام نمائندگان تک یہ پیغام پہنچانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ممالک کے اندر اگر مذکورہ فارمولہ اختیار کرتے ہیں تو ان کے اس عمل سے اس مسئلہ کے حوالے سے تمام امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوسکتا ہے۔
ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین