ایک وقت تھا کہ سارا سال اندرون اور بیرونِ ملک سفر میں گزرتا تھا۔ کہیں سیمینار، کہیں مشاعرہ، کہیں ’’بزبانِ قاسمی‘‘ کے عنوان سے میرے ساتھ سولو پروگرام۔ پھر یہ ہوا کہ مختلف علمی و ادبی کے علاوہ سفارتی ادارے کے لئے بھی میری خدمات مستعار لی گئیں اور یوں بہت کم وقت ملتا تھا کہ دوستوں کی فرمائش کے مطابق اُن کے شہر یا اُن کے نئے وطن میں جا سکتا۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ میرے پاؤں میں چکر ہے، چنانچہ جن دنوں سفر نہیں کرتا تھا اُن دنوں پاؤں سویا سویا سا لگتا تھا۔
گزشتہ ہفتے نوجوان شاعر علی یاسر کا فون آیا کہ سر وہاڑی میں ایک مشاعرہ ہے اور انتظامیہ آپ کی صدارت کی خواہش مند ہے۔ وہاڑی کا سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، میں نے سوچا وہاڑی، پانچ چھ گھنٹے کا سفر تو کہیں نہیں گیا۔ اوپر سے میرے گھٹنوں نے مجھے ذلیل کر کے رکھ دیا ہوا ہے، سو قدم سے زیادہ چلا نہیں جاتا اور دو سیڑھیاں چڑھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر گھٹنے بدلنے کا کہتے ہیں اور یار لوگ ڈراتے ہیں، چنانچہ میرا ووٹ چونکہ ڈرانے والوں کی طرف ہے لہٰذا تادمِ تحریر اُنہی کے مشورے پر کاربند ہوں۔ چنانچہ میں نے علی یاسر سے ’’ادّا پچدا‘‘ وعدہ کیا کہ بشرطِ صحت ضرور آؤں گا اور میرا ڈھیٹ پن ملاحظہ کریں کہ ملتان تک بنی ہوئی بہترین موٹروے سے عبدالحکیم انٹرچینج سے وہاڑی کے لئے سڑک لی اور چار گھنٹے میں وہاڑی پہنچ گیا۔
اور اب یہ بتانے کی تو پورے ہند سندھ میں کسی کو ضرورت نہیں کہ شاعر عزیر احمد بھی میرے ساتھ تھے اور صرف یہی نہیں بلکہ اپنے صدارتی اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے شروع میں اپنا کلام سنا کر لاہور واپسی کی بھی ٹھان لی۔ رات ایک بجے لاہور پہنچے اور اسی شام مجھے اپنے بھانجوں کے صاحبزادوں کی شادی میں شرکت کے لئے گوجرانوالہ جانا تھا اور اُس سے اگلے روز بھی یہ ایکسر سائز کرنا تھی۔ پس ثابت ہوا کہ انسان برے وقت کو بھی اچھے وقت میں ڈھالنا چاہے تو وہ ڈھال سکتا ہے کیونکہ میں نے یہ سارے سفر بہت انجوائے کئے۔ ابھی تو میں نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ کچھ روز قبل میں اسلام آباد بھی بائی روڈ ہی گیا تھا۔ اور اُس کے علاوہ بہت پیارے نوجوان راجہ تیمور کی دعوت پر پریس کلب کی تقریب میں شرکت کے لیے گجرات تک بھی ’’مار‘‘ کی تھی۔
خیر، گپ شپ تو میری عادت ہے بلکہ میری زندگی ہے سو وہ تو ہو چکی، اب میں آپ کو وہاڑی کے مشاعرے کا مختصر احوال بھی تو بتاؤں۔ وہاڑی کے جم خانہ کی تشکیل حال ہی میں ہوئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر وہاڑی عرفان علی کاٹھیا نے آفیسر کلب کو جم خانہ بنانے کے عزم کو عملی جامہ پہنایا چنانچہ وہاڑی جم خانہ میں پہلا کُل پاکستان مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ اے ڈی سی وہاڑی قمرالزمان بلوچ جو خود بھی شاعر ہیں اور اُن کی ٹیم نے بڑی محنت اور خلوص سے مشاعرے کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا۔ مشاعرے کے آغاز سے قبل مقامی گلوکار عقیل ارشد فتح علی خان نے ساز و آواز سے مختلف غزلیں اور کافیاں پیش کیں۔ اُسی طرح پٹھانے خان کے نواسے اویس نے شاہ حسین کی مشہور کافی ’’میڈا یار وی توں‘‘ سنا کر داد سمیٹی۔ مشاعرہ کے آغاز میں عرفان علی کاٹھیا ڈی سی نے جم خانہ کی طرف سے مہمانوں کے لئے خیرمقدمی کلمات پیش کئے۔
جم خانہ کے بی او جی کے دو ارکان نے جم خانہ اور تقریب کا تعارف کرایا۔ مشاعرے کی نظامت ڈاکٹر علی یاسر نے کی اور سچی بات ہے بہت خوب کی۔ شاعروں نے مہربانی یہ کی کہ اپنا منتخب کلام سنایا اور پذیرائی حاصل کی۔ حاضرین میں جم خانہ کلب کے ممبر اور اُن کی فیملیز نے شرکت کی۔ آخر میں قمر زمان بلوچ نے حرفِ تشکر پیش کیا۔ ویسے میرے لئے سب سے خوشی کی خبر یہ ہے کہ وہاڑی کے مکینوں کو اِس شعبے میں جم خانہ بنانے کا خیال آیا۔ اصل میں ڈپٹی کمشنر عرفان علی کاٹھیا جس شہر میں جاتے ہیں وہاں کے مکینوں کو خوشگوار زندگی گزارنے کے کاموں کی طرف راغب کرتے ہیں۔ کتنی اچھی بات ہے کہ جم خانہ کی تعمیر اور مشاعرے کے اخراجات میں حکومت کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ یہ سب جم خانہ کے ’’مستانوں‘‘ نے ادا کئے۔
[pullquote]آخر میں ایک دلچسپ خط:[/pullquote]
’’میں دل کی تاریک گہرائیوں سے آپ کا احسان مند ہوں کہ آپ کو خود سے زیادہ میری اصلاح و عاقبت کی فکر گھلائے جاتی ہے، تبھی تو آپ مجھے رات دن، صبح شام، جاگتے سوتے ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ لمبے اخلاقی، اسلامی، اصلاحی، تعزیری، تاریخی، تعمیری و تنقیدی میسج کر کر کے ہلکان ہو رہے ہیں۔ آپ یقیناً صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ میری اصلاح و فوز و فلاح کا عظیم الشان فریضہ خدائے قدوس نے آپ ہی کو سونپا ہے اور آپ بذریعہ وٹس ایپ و میسنجر یہ فرض انجام دینے پر اِس قدر تلے ہوئے ہیں کہ اکثر ایسے لمبے لمبے خطبہ نما میسج بھی مجھے فی الفور مرحمت فرما دیتے ہیں جو شاید آپ نے خود بھی پورے نہ پڑھے ہوں۔
میں آپ کے اخلاصِ نیت کا دل سے قدردان ہوں لیکن بنامِ خداوند عزوجل التماس ہے کہ اِن ؎طویل اصلاحی خطبات و تقاریر کے بجائے مجھے صرف اور صرف اپنی دلی اور زبانی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ ربِ کریم دلوں کے حال جاننے والے ہیں، میرے حق میں آپ کی ذرا سی سوچ یا دعا بھی ان شاءاللہ ضرور بالضرور مطلوبہ نتائج لے آئے گی اور آپ کو سوشل میڈیا کا لٹھ لے کر میری گوشمالی و سرکوبی کی زحمت نہیں کرنا پڑے گی۔ فقط والسلام مع الاکرام‘‘
اسلم شاہد بقائمی ہوش و حواس و بقلم خود