سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اپنے غیر آئینی اقدامات کی توثیق کے لئے پارلیمنٹ کی ضرورت پڑی تو 10اکتوبر 2002کو عام انتخابات کروا دئیے گئے۔ آئی ایس آئی میں سیاسی ونگ کے سربراہ میجر جنرل(ر) احتشام ضمیر نے پوری سرکاری مشینری کے ساتھ بھرپور کوشش کی مگر اُس وقت کی کنگز پارٹی مسلم لیگ (ق) حکومت بنانے کے لئے قومی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ایوان کے اندر پیپلزپارٹی اہم جماعت تھی، اُس سے مشرف حکومت کے معاملات طے نہ ہو پائے جبکہ متحدہ مجلس عمل اُس وقت دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے تناظر میں طاقتوں کو قبول نہ تھی۔
احتشام ضمیر مرحوم نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے 21ارکان قومی اسمبلی پر نقب لگائی اور مسئلے کا حل نکال لیا۔ راؤ سکندر اقبال اور ہمارے دوست فیصل صالح حیات کی سربراہی میں پیپلز پارٹی چھوڑ کر اُس وقت حکومتی صفوں میں شامل ہونے والے ارکان نے اپنی الگ جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی پیڑیاٹ کا اعلان کیا۔ یوں یہ ارکان ’’پیٹریاٹ‘‘ یا محب وطن کے طورپر جانے جانے لگے۔ ہم بھی صحافت کے کارزار میں نووارد تھے اور سوال کرتے تھے کہ اُن لوگوں نے تو اپنی جماعت یعنی پیپلزپارٹی سے غداری کی ہے، یہ پیٹریاٹ کیسے ہو سکتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ سمجھ آئی کہ ملک میں لغت تو کب کی تبدیل ہو چکی ہے۔ غدار محب وطن اور محب وطن غدار نجانے کب سے ایسے ہی چلے آرہے ہیں۔ پاکستان دنیا کا وہ منفرد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ غداروں کو جنم دیا جاتا ہے۔ کوئی سیاسی حقوق کی بات کرے تو غدار، سوال اٹھائے تو غدار، شاعری کرے تو غدار، خبریں دے تو غدار لیکن چاپلوس اور جی حضوری کرنے والے محب وطن۔
1951میں راولپنڈی سازش کیس میں اُس وقت کیمونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر فیض احمد فیض، جنرل اکبر خان، میجر اسحاق اور دیگر کو غداری کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن سب پر حکومت کا تختہ اُلٹنے کا الزام تھا۔ یہ سب قید ہوئے اور پھر ایک زمانہ اُنہیں غدار غدار کہتا رہا لیکن وقت نے فیض احمد فیض اور اُس کے ساتھیوں کو محبِ وطن قرار دے دیا۔
بانی پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے اقتدار پر غیر قانونی قبضہ کرنے والے جنرل ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی الیکشن لڑنے کی ٹھانی تو حکومت کی طرف سے اُنہیں غیر ملکی ایجنٹ اور غدار قراردیا گیا۔ یعنی آئین توڑنے اور اقتدار پر غیر قانونی قبضہ کرنے والا محب وطن اور بانی پاکستان کی ساتھی غدار۔ شاید یہ پہلا بڑا موقع تھا کہ ملک میں غدار کو محب وطن اور محب وطن کو غدار کہہ کرملک میں لغت تبدیل کردی گئی۔ آج اُسی جنرل ایوب کا پوتا عمر ایوب حکمران جماعت تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا ممبر ہے۔ اپنے دادا کے اقدامات پر نادم نہیں بلکہ سینہ تان کر ان کا دفاع کرتا ہے۔
معاملہ یہیں نہیں رکا۔ اُسی فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلانے والے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کو اگرتلہ سازش کیس میں غداری کے کیس کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ قید ہوئے اور پھر رہا۔ اُسی شیخ مجیب کی جماعت عوامی لیگ نے 1970کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرلی، اُسے وزیراعظم تسلیم کرنے کے بجائے مارچ 1971کو ایک بار پھر غدار کہہ کر گرفتار کر لیا گیا اور 16دسمبر 1971کو ملک ٹوٹ گیا۔ غدار محب وطن اور محب وطن غدار بن گئے۔ پہلے سے تبدیل لغت کو ایک اور تاریخی حوالہ مل گیا۔ کچھ عرصہ بعد شیخ مجیب کو بھٹو نے رہا کیا اور وہ ’’غدار‘‘ اپنے نئے ملک بنگلہ دیش کا محب وطن بن گیا۔
صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا) میں برطانوی سامراج کے خلاف خدائی خدمتگار تحریک چلانے والا خان عبدالغفار خان کو بھی غدار قراردیا گیا۔ 15سال برطانوی سامراج کی قید میں رہنے والے عبدالغفار خان عرف باچا خان کو قیام پاکستان کے بعد 15سال ہمارے حاکموں نے بھی غدار کہہ کر جیلوں میں قید رکھا۔ اُس نے ساری زندگی بندوق اٹھائی نہ تشدد کا راستہ اختیار کیا لیکن سیاسی حقوق کیلئے احتجاج ضرورکیا۔ وہ ہر بار احتجاج کرتا ہربار جیل بھیج دیا جاتا۔ آخر میں باچا خان نے ابدی نیند کیلئے افغانستان کے شہرجلال آباد کو چن لیا۔ اُسی باچا خان کی نسل نے اب اپنا آپ بدل لیا ہے، اب وہ باچا خان جیسے غدار نہیں بلکہ محب وطن بن چکے ہیں۔ اِسی لئے اُنہوں نے سوال اٹھانے اور حقوق کی بات کرنے والے افراسیاب خٹک اور بشریٰ گوہر کو غدار کہہ کر اپنی پارٹی سے نکال دیا ہے۔
سندھ چلے جائیں تو جئے سندھ قومی محاذ کے جی ایم سید بھی سندھی اکثریت کی آواز اٹھانے پر غدار قرار دئیے گئے۔ 90کے اوائل میں حکومت نے ایک بار غداری کا مقدمہ چلانے کی بات کی تو جی ایم سید نے مطالبہ کیا کہ یہ مقدمہ ضرور چلایا جائے کیونکہ وہ خود کو غدار مانتا ہے۔ جواب میں خاموشی چھا گئی۔ جی ایم سید کو بار بار نظر بند کیا گیا اور وہ نظر بندی کی موت مرا۔
سابق وزیراعظم نوازشریف نے آئین توڑنے کے جرم میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ دائر کیا تو یہ ایک پورے نظام کو ہلا دینے والی بات تھی۔ مشرف کو تو آج تک سزا نہ ملی، ہاں نوازشریف اقتدار سے ضرور نکال دئیے گئے۔ اب نوازشریف ایک عدالت میں صحافی سیرل المیڈا کو دیے گئے ایک انٹرویو کی پاداش میں خود غداری کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ طاقتور آئے روز اپنی فہرست میں نت نئے غدار شامل کرتے رہتے ہیں۔ یہ عمل جاری ہے اور نجانے کب تک جاری رہے گا۔
سوال یہ نہیں ہے کہ پاکستان میں کتنے غدار پیدا ہوتے ہیں، سوال تو یہ ہے کہ غدار پیدا ہونے کی اصل وجہ کیا ہے؟ جب تک ملک میں قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوگی، طاقتور ہمیشہ درست اور کمزور ہمیشہ غلط رہے گا۔ ’’غدار‘‘ محب وطن اور محب وطن ’’غدار‘‘ رہے گا۔ آپ خود سوچ لیجئے اور قانون کی بالادستی کے لئے ضرور آواز اٹھائیں لیکن یاد رہے کہ کہیں آپ بھی ’’غدار‘‘ ہی قرارنہ دے دئیے جائیں۔