کراچی: سپریم کورٹ نے تجاوزات کے خلاف کارروائی کے عدالتی احکامات نہ ماننے کے وزیر بلدیات سعید غنی کے بیان کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر میں تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل، سیکریٹری دفاع اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
سیکریٹری دفاع کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ رپورٹ مبہم ہے، عدالتی احکامات پر عمل کیوں نہیں ہوا، یہ رپورٹ غیر اطمینان بخش اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کا حکم ہے، مجھے وضاحت کا موقع دیا جائے۔
عدالت نے تجاوزات کے خلاف بیان دینے پر وزیر بلدیات اور میئر کراچی پر برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ کہاں ہیں وہ بلدیاتی وزیر جو کہتے پھررہے ہیں ہم ایک بھی بلڈنگ نہیں گرائیں گے، میئر کراچی بھی بولتے پھر رہے ہیں ہم عمارتیں نہیں گرائیں گے، کیا انہوں نے عدالت سے جنگ لڑنی ہے؟ ہم پہلے سب کوسن لیں پھر دیکھتے ہیں ان کو کہاں بھیجنا ہے۔
معزز جج نے مزید کہا کہ پورے شہر میں لینڈ مافیا منہ چڑھا رہا ہے اور یہ ایسی باتیں کرتے رہے ہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کی تقریر کا نوٹس لے لیا اور انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔
دوران سماعت ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے ان پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور استفسار کیا کہ ہم نے حکم دیا تھا کہ کراچی سے غیر قانونی تجاوزات ختم کروائیں اس کا کیا ہوا؟ کارروائی کہاں تک پہنچی؟ عدالت نے ڈی جی ایس بی سی اے سے سوال کیا کہ آپ کورٹ سے جیل جائیں گے؟
عدالت نے کہا کہ غیر قانونی تجاوزات کوختم کریں یہ سپریم کورٹ کاحکم ہے اس پر عمل کریں۔
جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ پنجاب کالونی، دہلی کالونی میں 8،8 منزلہ بلڈنگ بنائی جاتی ہے، بلڈنگس میں نہ پانی ہوتا ہے نہ ہی لفٹ، زینب مارکیٹ سمیت پورے صدر میں غیر قانونی پارکنگ بنی ہوئی ہے۔
ڈی جی ایس بی سی اے نے بتایا کہ صدر میں اب کارروائی کی ہے، جسٹس گلزار نے کہا کہ کوئی کارروائی نہیں کی، روز صدر جاتا ہوں، دیکھتا ہوں کہ صدر میں غیر قانونی پارکنگ ہے، آپ کب کارروائی کریں گے؟ کب نیند سے اٹھیں گے۔
عدالت نے ایس بی سی اے کو شہر بھر سے غیر قانونی تجاوزات فوری ختم کرانے کی ہدایت دی۔
سماعت کے موقع پر جسٹس گلزار نے میئر کراچی وسیم اختر سے مکالمہ کیاکہ مئیر صاحب آگے آجائیں۔
میئر کراچی وسیم اختر نے عدالت کو بتایا کہ جوہر میں مال میں آگ لگی رہائشی علاقہ ہونے سے مشکلات ہوئی، مجھے بھی ایسی مشکلات کا سامنا ہے۔
میئر کراچی کے مؤقف پر جسٹس گلزار نے وسیم اختر سے مکالمہ کیا کہ جبھی آپ نے اپنا سیاسی جنازہ نکال لیا ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ڈی جی کے ڈی اے پر بھی شدید برہمی کا اظہار کیا اور ان سے سوال کیا کہ ملیر روڈ کو آپ نے کیا بنایا کیا کیا اسکا؟آپ نے پورا شہر بیچ دیا کتنا پیسہ چاہیے؟ دبئی لندن میں پراپرٹی بنالی، نہ وہاں رہ سکتے ہو، نہ کھا سکتے ہو اور نہ وہاں کا موسم یہاں لاسکتے ہیں، آپ نے طارق روڈ دیکھا سارا کچرا وہاں ڈمپ ہورہا ہے، کسی پلازہ والے نے پارکنگ ایریا نہیں بنایا، شہر سے باہر نکلنے میں 3 گھنٹے لگتے ہیں، کراچی میگاسٹی کے معیار پر نہیں اترتا، روڈ سسٹم تباہ ہوگیا ہے۔
جسٹس گلزار نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 1950 سے اب تک کے تمام ماسٹر پلان پیش کیے جائیں،یہ بھی بتائیں کس ماسٹر پلان میں کس کی ہدایت پر کب تبدیلی کی گئی؟ یہ بھی بتائیں کونسی رہائشی عمارت کو کب اور کس کے کہنے پر کمرشل کیا گیا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے اپنے 22 جنوری کے فیصلے میں کراچی کو 40 سال پرانی حالت میں بحال کرنے کا حکم دیا تھا اور اس ضمن میں پارک، کھیلوں کے میدان اور اسپتالوں کی اراضی بھی واگزار کرانے کا حکم دیا۔
وزیر بلدیاتی سعید غنی اور مئیر کراچی نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ شہر میں رہائشی عمارتیں نہیں گراسکتے۔