رمضان میں ساٹھ سال

اللہ تعالیٰ کے مہینوں میں سے رمضان‘ مبارک مہینہ ہے۔ جمعہ مبارک دن ہے۔ آج10مئی 2019ء کو میں پورے ساٹھ سال کا ہو گیا ہوں۔ بعض لوگ سالگرہ مناکر خوش رنگ تقریب کا اہتمام کرتے ہیں۔ میں نے بھی اک اہتمام کیا۔ قرآن نازل ہوا تو آغاز رمضان میں ہوا۔ عمر کے سلسلے میں قرآن کا مقام نکالا تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سامنے آیا: ”اے انسانو! کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہ دی تھی کہ اس عمر میں اگر کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہتا تو (اپنے آپ کو درست کر کے) کر سکتا تھا‘‘۔ اگلی بات یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک خاص ڈرانے والا (حضرت محمد کریمؐ) بھی آئے‘‘ (فاطر:37) قارئین کرام! ہدایت اور نصیحت کی عمر کی جو حد ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اس کا تعین اپنے حبیب حضرت محمدؐ کی مبارک زبان سے یوں کروایا کہ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کا عذر ختم کر دیا (کہ مجھے زندگی کا ٹائم تھوڑا دیا گیا‘ وگرنہ میں ہدایت یافتہ ہو جاتا) جس کے ٹائم (زندگی) کو لمبا کرتے کرتے ساٹھ سال تک پہنچا دیا‘‘ (صحیح بخاری: 6419)

جی ہاں! میرا عذر ختم ہو گیا۔ معذرتوں کا ٹائم اختتام کو پہنچا کہ آج کے دن میں ساٹھ سال کا ہو گیا۔ خوشیوں کا اہتمام کیا کرنا تھا۔ میں تو گہری فکر میں ڈوب گیاکہ عذر اور معذرت کے ہتھیار سے میں محروم ہو گیا ہوں۔ میں حسرت اور افسوس کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں آپس میں مَل ہی رہا تھا کہ ایک اور حقیقت میری آنکھوں کے سامنے مجسم ہو کر کھڑی ہو گئی‘ وہ مجھے کہنے لگی: ارے! ذرا سنبھل کر سوچو‘ جن ساٹھ سال کی تم بات کر رہے ہو‘ یہ شمسی‘ یعنی سورج کے کیلنڈر کے حساب سے ہیں۔ چاند کے کیلنڈر ‘یعنی قمری حساب سے تم 62سال کے ہو گئے ہو۔ اللہ اللہ! اس نئی حقیقت نے میری فکر کو دوچند کر دیا کہ چاند کے حساب نے میرے عذر اور معذرت کی عمر کو آج سے دو سال پہلے ہی ختم کر دیا ہوا ہے۔ میں تو اب اپنی عمر کا بونس لے رہا ہوں۔ پچھلے دو سال سے بونس پر جی رہا ہوں۔ یہ بونس کسی وقت بھی واپس لیا جا سکتا ہے‘ لہٰذا اب مجھے واپسی کے سفر کیلئے پہلے سے کہیں زیادہ تیاری پکڑنا ہو گی۔

یاد رہے کہ حضرت محمدﷺ کی عمر مبارک 63سال تھی (بخاری:3902 ) یہ عمر مبارک قمری حساب سے تھی۔ شمسی حساب سے حضورؐ کی عمر مبارک 61سال کے قریب بنتی ہے‘ یعنی اوسط عمر کا جونہی آغاز ہوا‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو اپنے پاس بلا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسولؐ کو زیادہ عمر کا اختیار دیا‘ مگر اللہ کے رسولؐ نے طے شدہ عمر پر ہی اپنے اللہ سے ملاقات کو پسند فرمایا (مسند احمد: 489-3)۔ تورات میں حضرت آدمؑ کی عمر 930سال بتائی گئی ہے۔ دوسرے ابوالبشر‘ یعنی حضرت نوح ؑ کی موجودہ تورات میںعمر ساڑھے نو سو سال بتائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن میں فرمایا ”بلاشبہ ہم نے نوح کو ان کی قوم میں بھیجا ‘تو وہ ان لوگوں میں 950سال رہے‘‘ (العنکبوت:14)۔ بتلانے کا مقصد یہ ہے کہ پہلے رسولوں‘ نبیوں اور ان کی امتوں کی عمریں بہت زیادہ تھیں‘ پھر بتدریج کم ہوتی چلی گئیں۔ حضرت محمدؐ آخری رسول ہیں۔ آپؐ کی امت آخری امت ہے ‘لہٰذا سب سے کم عمر یہی امت ہے۔

پہلی امتوںکی عمریں زیادہ تھیں تو قد بھی زیادہ لمبے تھے۔ حضرت آدم ؑساری انسانیت کے باپ اور پہلے انسان ہیں۔ ان کے قد کے بارے میںحضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے؛آپؐ نے ارشاد فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو پیدا فرمایا تو ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا‘‘ (بخاری: 3366)یاد رہے! کہنی سے لیکر درمیانی انگلی کے آخر تک کی پیمائش کو عربی میں ہاتھ کہا جاتا ہے‘ اس کیلئے ”ذِراع‘‘ کا لفظ ہے‘ جبکہ کلائی سے اگلے حصّے کو ”یَد‘‘ کہا جاتا ہے۔ اُردو زبان ‘عربی کے مقابلے میں تنگ دامن کی حامل ہے‘ اس لئے اس میں دونوں حصوں کیلئے ایک ہی لفظ ہاتھ بول دیا جاتا ہے۔ بہرحال! کہنی والا ہاتھ ڈیڑھ فٹ کا ہے۔ یوں 60ہاتھ 90فٹ بنتا ہے ‘یعنی ہمارے باپ حضرت آدمؑ کا قد 90فٹ تھا۔ حضورؐ کا مزید ارشاد گرامی ہے ”ہر وہ شخص جو جنت میں داخل ہوگا۔‘حضرت آدمؑ کی شکل و صورت میں جنّت میں داخل ہوگا۔ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ تمام لوگ لگاتار جسامت میں اب تک کم ہوتے چلے آ رہے ہیں‘‘ (بخاری: 3326)

اللہ کے رسولؐ کی امت کی عمر 1440 سال ہو چکی ہے۔ صحابہ کے زمانے میں قد کتنے تھے اور آج کتنے ہیں؟ قبروں کو دیکھ کر اندازہ لگائیں تو چند ملی میٹر کا فرق پڑا ہوگا۔ اس لحاظ سے پیچھے کو جائیں‘ تحقیق اور ریسرچ کریں تو حضرت آدمؑ کے قد‘ یعنی 90فٹ تک پہنچنے میں انسانیت کی عمر کا میرے خیال میں کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے اور ہمارے باپ حضرت آدمؑ کے درمیان کتنے ہزاروں یا لاکھوں سال کی مدت بنتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ آج ساڑھے پانچ فٹ یا چھ فٹ کے قریب کا انسان حضرت نوحؑ کے زمانے کے انسان کے ہاتھ میں اسی طرح ہوگا ‘جیسے آج کا انسان پلاسٹک کا چند انچ کا انسانی شکل کا کھلونا ہاتھ میں پکڑ لے۔ قوم عاد کے ہاتھ میں بھی ایسے ہی کھلونا ہوگا۔ جی ہاں! یہ چھ فٹ کا کھلونا ذرا صحت مند ہو۔ اقتدار کی طاقت اس کے پاس ہو۔ مال کی قوت کا حامل ہو۔ اس کے اردگرد محافظوں کا دستہ ہو تو یہ کس قدر متکبر اور ظالم بن جاتا ہے‘ تو پچاس ساٹھ ہاتھ کا انسان کیسا متکبر ہوگا؟

لوگو! اللہ تعالیٰ نے جتنا قد بنایا ہے۔ اس کے اعضاء بھی اسی مناسب سے بنائے ہیں۔ نوے فٹ کے انسان کی آنکھ‘ کمپیوٹر کے حساب سے کوئی چار کلو کی بنتی ہے۔ چار اور چار کلو‘ یعنی آٹھ کلو کی دو آنکھوں کے ساتھ کوئی نوے فٹ کا انسان چھ فٹ کے انسان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اگر دیکھے‘ تو چھ فٹ کے کھلونے کی ویسے ہی جان نکل جائے۔ پانچ چھ فٹ کے انسان نے اگر عاجزی اختیار کرلی۔ اپنا کردار درست کر لیا توکامیاب ہو گیا۔ رمضان کا مہینہ اسلام کا موسم بہار ہے۔ اے انسان ! تیرا قد بھی انتہائی چھوٹا رہ گیا ہے۔ عمر بھی بہت تھوڑی رہ گئی ہے‘ لہٰذا اب تو سچا مسلمان بن چاہیں تو اسی فکر میں ہوں کہ بلاوے کا وقت انتہائی قریب ہے۔ میری عمر کے قریب‘ جو لوگ ہیں‘ وہ سارے مجھ سے قدرے چھوٹے‘ بڑے یا ہم عمر بھائی ہیں۔ ان میں کئی بہت موٹے بھی ہیں۔ پیٹ بڑھے ہوئے ہیں۔ فتنوں کے آخری دور میں حضورؐ نے ایک نشانی یہ بھی بتلائی کہ ”لوگوں میں موٹاپا ظاہر ہو جائے گا‘‘ (بخاری: 6428)۔

رمضان المبارک کے روزے اس موٹاپے کو کم کرنے کیلئے ہیں۔ چربی کو پگھلانے کے دن ہیں۔ جبر‘ تکبر اور ظلم کی چربی کو رمضان کی گرمی سے پگھلانے کے دن ہیں۔ دل کو نرم کرنے کے دن ہیں۔ امام بخاری ؒ مذکورہ حدیث کو ”کتاب الرّقاق‘‘ میں لائے ہیں۔ رقاق کا معنی نرمی ہے۔ دل بھی نرم ہو جائیں پیٹ بھی نرم ہو جائیں۔ سودی معیشت‘ حرام کا مال اس پیٹ میں ڈالنے سے باز آ جائیں۔ آج ‘جن ہاتھوں میں پاکستان میں بسنے والے لوگوںکے فیصلے ہیں‘ وہ سب ساٹھ سال سے اوپر کے ہیں۔ اے حکمرانو! اوپر جانے والے ہو۔ اوپر جانے کی فکر سامنے رکھ کر فیصلے کرو گے تو اہل ِپاکستان راحت و سکون میں ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے توفیق کی درخواست ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے