بلا شبہ رمضان کریم رحمتوں کا مہینہ ہے اور برکتوں سے بھر پور بھی۔ لیکن ہماری سوسائٹی کے کچھ کارٹل مافیا اور طاقت ور طبقات روزہ دار کے لیے رمضان کو مصیبتوں سے پُر کر دیتے ہیں۔ رمضان کریم سے ایک دن پہلے میں نے یہی بات ایک میڈیا ٹاک شو میں کہی۔ ساتھ اہل الرائے اور عُمالِ حکومت سے کہا، ذخیرہ اندوزی اور ہر سال روزہ داروں کے لیے منہ مانگی مہنگائی پھیلانے والوں کو بے نقاب اور قابو کریں۔
اگلے روز ایک ایسے روزہ دار سے ملاقات ہوئی جو عجیب سے لگے‘ چہرے پر بشاشت‘ لبوں پر مسکراہٹ‘ بے شِکن ماتھا۔ پُر جوش روزہ داروں کی شکایت کرنے لگے۔ مجھے اُن کی باتیں سُن کر اپنے سید ضمیر جعفری یاد آ گئے۔ حضرتِ ضمیر نے ایسے روزہ داروں کا نقشہ یوں کھینچ رکھا ہے؎
مجھ سے مت کر یار کچھ گُفتار میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار میں روزے سے ہوں
خُشک ترین اور انتہائی سنجیدہ موضوعات میں سے بھی مزاح کا پہلو ڈھونڈ نکالنا ضمیر جعفری صاحب کا شخصی کمال تھا۔ ایک مرتبہ کسی پینشنر نے اُن سے پینشنروں کے بارے میں طبع آزمائی کی فرمائش کر دی۔ پہلے انہوں نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا‘ جہاں خال، خال بھی کوئی بال بیکا کرنے کی گنجائش نہ تھی۔ پھر ریٹائرڈ حضرات کے پسندیدہ شوق سے جوڑ کر ضمیر جعفری یوں بولے؎
اب بھی ڈیوڈ ایک طرح کے جوتے پالش کرتا ہے
یعنی گنجے پینشنروں کے سر کی مالش کرتا ہے
رمضان کا موسم مہنگائی کے علاوہ اخباری دنیا میں افطار پارٹیوں پر کالم نگاری کا سیزن بھی واپس لے آتا ہے۔ کچھ دن بعد ایسے ”روزہ دار کالم‘‘ اپنی سالانہ رونمائی کا درشن کر دیںگے‘ جن میں خاص طور سے کاریگر بیورو کریٹ اور پُلسیے، وَن آن وَن افطاری کی پی آر کے ذریعے کمال کے کالم تخلیق کروانے کا باعث بنتے ہیں۔ ظاہر ہے اپنی کار گزاریوں پر ہی۔ حالانکہ ضمیر جعفری نے اپنی طرف سے اُن کے ہڈ حرام ہونے پر آخری مصرع کسا تھا؎
میں نے ہر فائل کی دُمچی پر یہ مصرع لکھ دیا
کام ہو سکتا نہیں سرکار میں روزے سے ہوں
کچھ لوگوں کا طرزِ عمل روزے کے دوران ایسا ہوتا ہے‘ جیسے انہوں نے روزہ رکھ کر فرض ادا نہیں کیا‘ لوگوں پر احسان چڑھایا ہے۔ ایسی مخلوق آپ کو کھجلا پھینی‘ پکوڑے جلیبی‘ ٹِکی کچوری کے سٹالوں پر دھکے مارتی اور ساتھ روزہ دار ہو نے کا اعلان کرتی ہر شہر میں مل جا ئے گی۔ ان کے خیال میں باقیوں کے روزے کا تو کچھ پتہ نہیں اُن کا اپناکھلنے سے پہلے ہی قبول ہو جاتا ہے۔ اس لیے ان کو بے تُکا بولنے کا لائسنس حاصل ہے۔ ضمیر جعفری کے بقول؎
میرا روزہ اک بڑا احسان ہے لوگوں کے سر
مجھ کو ڈالو موتیے کے ہار میں روزے سے ہوں
رمضان میں شیطان قید ہو جاتا ہے مگر اُس کے چیلے کہاں جاتے ہیں یہ راز معلوم کرنا پـڑے گا۔
ویسے یہ راز اب کوئی راز نہیں‘ سب اہلِ گلستان جانتے ہیں‘ آئیے اس کی چند مثالیں دیکھ لیں۔ حلیہ یا کاسٹیوم ایک طرف رہنے دیں۔ اگر کوئی شخص کھانے پینے کی سب سے گندی چیزیں رمضان میں ذخیرے سے نکال کر شو کیس میں لگا دے۔ 10 کی شے 110 روپے میں بیچنا شروع کر دے۔ گندے تیل کے پکوڑے، گھٹیا بیسن کا سموسہ، گدھے کا گوشت، مُردار مُرغی‘ گندے انڈے روزہ داروں کو کھلائے تو کیا پھر بھی یہ طے کرنا پڑے گا کہ وہ شیطا ن کا چیلا ہے یا نہیں۔
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ہم کیسا سماج ہیں جہاں سیاست‘ پارلیمان، تقدیس گاہیں ہر وقت رمضان میں نیکی کے دودھ اور بھلائی کے شہد کی نہریں بہاتی رہتی ہیں۔ فتوے نیکی کے‘ خُطبے نیکی کے‘ تحریریں نیکی کی‘ تقریریں نیکی کی۔
ذرا آگے چلتے ہیں۔ ہم شاید دنیا کے اُن چند ملکوں میں سے ایک ہیں جہاں 24 گھنٹے نیوز چینلز اصلاحِ معاشرہ کی اَنتھک مہم چلا رہے ہیں۔ 10/12 سال سے بے تھکان مسلسل مہم۔ اچھا معاشرہ‘ اچھا مُلک، اچھی حکمرانی کے پاک باز انسان اور تقریباً ولی اللہ کے درجے کے قریب قوم کو یہ سب کچھ بتانے والے۔ بول بول کر سپیکر پھٹ گئے، گلے بیٹھ گئے۔ مائیکرو فون پر منہ سے نکلنے والی جھاگ کی تہہ جم گئی۔ سننے والوں کے کان کا سائز ہاتھی کے کان سے بھی آگے نکل گیا۔ چھوٹی سی بات تو کوئی سمجھائے۔
اس سب طوفانِ بلا خیز کا نتیجہ کیا نکلا۔ ذخیرہ اندوز باز آ گئے، آٹا مافیا‘ چینی کارٹل‘ سبزی فروش‘ فروٹ مرچنٹ‘ بیکرز اینڈ کنفیکشنرز۔ ٹیکسی‘ رکشہ‘ چنگ چی۔ ڈاکٹر، وکیل، عادل، بیوروکریٹ، صحافی، تفرقہ باز، ہمارے سماج کے کس حصے میں اس شور شرابے سے تبدیلی آئی ہے؟ اور اس تبدیلی کا نام کیا ہے۔ جوش‘ جذبے‘ درد، کرب، چیخ چنگھاڑ‘ ناچ کود یا مائیک سر پر مار کر بولنے والوں میں سے کس کی بات سے مسیحائی کی تاثیر برآمد ہوئی۔
یہ ایک قومی مخمصہ ہے اور نئے زمانے کے تقریر کاروں، ان کے سرمایہ کاروں، پیچھے بیٹھے سکرپٹ کاروں اور اس سب سے آگے کھڑے پیش کاروں کے سامنے سب سے بڑا سوال بھی۔ 18/19 سال پہلے ایک دینی ایشو پر درگاہِ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف سے سیکٹر F/10 تک ایک بہت بڑا جلوس نکلا۔ چھوٹے لالہ جی حضرت شاہ عبدالحق پیر صاحب گولڑہ شریف نے مجھے بھی بات کرنے کی ہدایت کی۔ جلوس جلسے کے اختتام پر میں نے لالہ جی کے سامنے یہی سوال رکھ دیا کہ اتنی پُر جوش تقریروں اور جذباتی خُطبے کو لوگ 2 منٹ بعد ہی کیوں بھول جاتے ہیں؟ ان کی تاثیر کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ پیر شاہ عبدالحق صاحب دھیمے لہجے اور دل نشین انداز میں گُفتگو کرتے ہیں۔ فرمایا: جس تقریر کا مقصد سننے والوں پر علمیت جھاڑنا ہو‘ ابلاغ نہیں وہ بے تاثیر ہی ہو گی۔ ضمیر جعفری پھر یاد آ گئے؎
تو یہ کہتا ہے، لحن تر ہو، کوئی تازہ غزل!
میں یہ کہتا ہوں کہ برخوردار، میں روزے سے ہوں
بات چلی تھی رمضانِ کریم کی رحمت کو زحمت میں بدلنے والوں سے۔ اسے ختم کرتے ہیں خاندانِ سیاست کے ظالمانہ کھیل پر۔ جہاں ایک بھتیجے کی مسکراہٹ آج کل سوشل میڈیا پر وائرل کا رش لے رہی ہے۔ آئیے اس مسکراہٹ کے اندر چلیں۔ 7 مئی جیل مینول کے مطابق 6 بجے شام قیدیوں کی گنتی مکمل ہو گئی۔ ایک قیدی کم پایا گیا۔ قانونِ ضمانت میں (jumping the Bail) ایک گھنٹے کے لیے ہو تب بھی آئندہ ضمانت کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ جس سیاست میں دل نہیں اس میں رشتے داری کیسی؟
اے میری بیوی میرے رستے سے کچھ کترا کے چل
اے میرے بچو ذرا ہوشیار، میں روزے سے ہوں
ہا لی وُوڈ کی فلم (Burrid alive) یاد آنے کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی۔ ہاں اتنا ضرور یاد ہے مُسکرا ہٹ زہریلی بھی ہو سکتی ہے۔ سیاستِ دوراں، جہاںسینے میں دل نہیں ہوتا ایسی جگہ پہ زندہ دفنا دینے کا نتیجہ ہوتا ہے جونیئر کی پروموشن۔
کچھ لوگوں کا طرزِ عمل روزے کے دوران ایسا ہوتا ہے‘ جیسے انہوں نے روزہ رکھ کر فرض ادا نہیں کیا‘ لوگوں پر احسان چڑھایا ہے۔ ایسی مخلوق آپ کو کھجلا پھینی‘ پکوڑے جلیبی‘ ٹِکی کچوری کے سٹالوں پر دھکے مارتی اور ساتھ روزہ دار ہو نے کا اعلان کرتی ہر شہر میں مل جا ئے گی۔