علم و تحقیق

ہمارے ملک کی جامعات باقی دنیا سے “ذرا ہٹ کے”ہیں دیگر دنیا کی جامعات اپنے معیار تعلیم کے پیچھے پڑی رہتی ہیں وہاں کے سٹوڈنٹ بھی کلاسوں کے وقت لیکچرز سننے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جبکہ ہماری یونیورسٹیاں بنیادی طور پہ دو نظریات پہ قائم ہیں۔

ایک کا نظریہ ہے کہ مرد اور عورت دو الگ دنیا کے باسی ہیں وہ اپنی تمام توانائیاں انھیں الگ رکھنے پر مرکوز رکھتے ہیں۔ اور یہ کہ کچھ بھی ہو جائے ہر کسی کو مسلمان بنا کر چھوڑنا ہے(مسلمان سے یہاں مراد کلمہ گو نہیں بلکہ انکے مسلک و افکار کو اپنانے والا ہے) اسکے لیے وہ ڈنڈا پتھر اسلحہ سب کچھ استعمال کر چھوڑتے ہیں۔ اور جو اس نظریے کے خلاف ذرا بھی چوں چرا کرے جتھوں کی صورت اکٹھے ہو کر اسے “سیدھا” کیا جاتا ہے جو زیادہ ہی گستاخ ہو شخصی آزادی اور حقوق جیسی بےراہ رو باتیں کرے اسے براہ راست عزرائیل کے ہمراہ روانہ بھی کر دیا جاتا کہ یہ ناہنجار اب ہم سے نہیں سنبھلتا تو ہی اسے خالق کے پاس لے جا۔

پہلے پہل تو ان ڈنڈا برداروں کو سیاسی مقاصد کے لئے تعلیمی اداروں میں نصب کیا گیا تھا۔ لیکن بعد میں سیاسی منظرنامے کی تبدیلیوں کے باعث “بڑوں” کا دست شفقت ان پر سے ہٹ گیا۔ یاد رہے کہ ان بڑوں کا مقصد کوئی نوجوان نسل کو عملی سیاست کی تعلیم دینا ہرگز نہ تھا بلکہ وہ جوشیلے جوانوں کو پریشر گروپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ قصہ مختصر پھر نے درج بالا نظریاتی سرحد کی حفاظت کا بیڑہ اپنے کندھوں پہ اٹھا لیا۔

دوسرا نظریہ اسکے بالکل مخالف ہے وہاں آزادانہ ماحول مہیا کیا جاتا ہے آدم اور حوا کی اولاد درسگاہ کو جبل رحمت سمجھ کر اپنے بچھڑے ہوئے جوڑی دار کی تلاش میں آتے ہیں۔کلاسوں کے وقت کاریڈور اور لان میں رونق لگی رہتی ہے۔جیسے خوش گپیاں ہی زندگی کا اہم ترین فعل ہے۔ایسی ہی ایک یونیورسٹی میں میری اپنی ہی ایک دوست کی بیٹی کی “استاذ” نے “بس یونہی” کلاس کے طلبہ و طالبات کے جوڑے جوڑے بنائے اور انکی رسم حنا منعقد کی “بس یونہی”۔ پھر اس پروقار تقریب کی تصاویر سوشل میڈیا پہ جاری کر دی گئیں “بس یونہی”۔ اس بچی کے رشتہ داروں نے وہ تصاویر دیکھیں آگے آپ تصور کر سکتے ہیں کن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب لڑکی کی والدہ نے محترم استانی جی سے استفسار کیا تو انھوں نے فرمایا “یہ سب تو “جسٹ فار فن” تھا اب پتہ نہیں کس نے تصویریں اپ لوڈ کیں”۔

اب جامعات کی ان دو انتہاؤں کے بیچ تعلیم، معیارتعلیم ، فیکلٹی ، علم و تحقیق جیسی غیرضروری عناصر شرمسار سے کہیں منہ چھپائے پڑے ہوتے ہیں۔اب طلباء نظریات کی حفاظت کریں کہ ایجادات کرتے پھریں۔ کہیں کہیں پھر بھی کچھ بےوقوف پائے بھی جاتے ہیں جو اتنے سازگار ماحول میسر ہونے کے باوجود اپنا وقت لائبریریوں ضائع کرتے پھرتے ہیں۔ کوئی چھوٹی موٹی تحقیق کوئی ایجاد کوئی تھیوری لے بھی آتے ہیں۔ لیکن سلام ہے ہمارے سسٹم کو جو ایسے بےوقوفوں کو ذرا بھی لفٹ کرواتی ہو۔ مجال ہے جو انکے ہنر ہو ذرا بھی کہیں کھپاتے ہوں۔ ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی پتہ چلا مائیکرو بیالوجسٹ ہےپاکستان میں رہتے ہوئے کلوننگ جیسی بےکار تحقیق میں گولڈ میڈل لے رکھا ہے بےوقوف نے ۔ نوکری کی تلاش میں ہے سائنس میں نہ سہی درس تدریس میں مل جائے۔ پھر کافی عرصے بعد اس سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا ریڈی میڈ کپڑوں کا برانڈ بنا کر دکان پہ بیٹھا ہے۔

جب ہمارے سیاسی نعرے روٹی کپڑا اور مکان ہو گا تو ہمارے کاروبار کھابے، ملبوسات کے برانڈ اور رئیل سٹیٹ ہی تو ہوں گے۔ اور ہمارے سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے