[pullquote]آپ پاکستانی ہیں؟ [/pullquote]
جواب: دیکھیے، کسی پاکستانی کو اس کے پاکستانی ہونے کا سرٹیفکیٹ دینے کا اختیار صرف نادرا کے پاس ہے۔ نادرا نے یہ سرٹیفیکیٹ مجھے دیا ہوا، اگر آپ چاہیں تو میں دکھادیتاہوں؟
[pullquote]سوال : آپ کے پاس نادرا کا سرٹیفیکیٹ موجود ہے، آپ پاکستان کے شہری ہیں، اس کے باوجود بھی پاکستان کی اس قدر مخالفت؟ آخر کیا وجہ ہے؟[/pullquote]
آپ کہہ سکتے ہیں۔ آپ کو ایسا کہنے سے کون روک سکتا ہے۔ کہنے والوں نے تو صمد خان، باچا خان، بزنجو، ولی خان، عطاواللہ مینگل، جی ایم سید سب کے بارے میں یہی کہا کہ یہ پاکستان کے دشمن ہیں۔ یہاں تک کہ فاطمہ جناح کے متعلق کہا گیا کہ وہ غدار ہے۔ آپ سوچیں کہ یہ سب جنہیں غدار کہا گیا ان کے بیچ کون سی چیزیں یکساں ہیں۔ دو چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سارے لوگ اپنے لوگوں کے لیے حقوق مانگتے تھے۔ اب جب آپ حقوق مانگتے ہیں تو اس سے ریاست کی بالادست طاقتوں کے مفاد پر زد پڑتی ہے۔ جب زد پڑتی ہے تو وہ پروپیگنڈا شروع کردیتے ہیں کہ یہ ملک کے خلاف سرگرم ہیں۔ ایسا اس لیے کرتے ہیں تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسا جرم سبز ہلالی پرچم کے نیچے چھپ جائے۔
میرے خیال میں تو اس ملک کا ہمیشہ سے مسئلہ یہ رہا ہے کہ یہاں عوام کے مفادات اور ادارہ جاتی مفادات میں ٹکراو رہا ہے۔ وسائل کی فراوانی کی وجہ سے ہمیشہ ادارہ جاتی مفادات کو ہی جیت حاصل ہوئی ہے مگر اس کے نتیجے میں یہ ملک ہر حوالے سے غیر مستحکم ہوا ہے۔ ہمیں لگتا ہوگا کہ بنگالیوں کو غدار کہہ کر ہم اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ اپنے مفادات کے تحفظ کی جنگ میں آدھا ملک ہم سے الگ ہوگیا۔ ہم جیسے شہریوں کو تو شاید اس بات پر دکھ ہو کہ ایسے صورت حال کیوں پیدا ہوئی کہ بنگالی ہم سے ناراض ہوگئے مگر ریاست کا بالادست طبقے کو اس بات پر کوئی دکھ نہیں ہے۔ آج بھی وہی لوگ غدار ہیں جنہیں ستر کی دہائی میں پیدا کیے گئے حالات کا دکھ ہے۔ وہ لوگ محب وطن ہیں جنہوں نے وہ حالات پیدا کیے تھے۔ مجھے تو کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اس بات پر تسکین ملتی ہے کہ ان کے عوام ان سے ناراض ہوں۔ کیونکہ ناراض لوگوں کو یہ ہمیشہ مزید ناراض کرتے ہیں۔ رونے والوں کو ہمیشہ مزید رلاتے ہیں۔
[pullquote] سوال : چلیے مان لیا کہ آپ پاکستان کے مخالف نہیں ہیں، مگر آپ یہ بات جانتے ہوں گے ہر ریاست کی ایک ریڈ لائن ہوتی ہے جس کو عبور کرنے کی اجازت دنیا کی کوئی بھی ریاست نہیں دیتی۔ مگر آپ تو ہنستے کھیلتے بہت اطمینان سے ریڈلائن ایسے عبور کردیتے ہیں جیسے یہ کوئی مسئلہ نہ ہو؟ [/pullquote]
جواب: سوال یہ ہے کہ ریڈلائن ہوتی کیا ہے۔ میرے خیال میں تو ریاست کا آئین ریڈلائن ہوتا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ریڈ لائن اس کے علاوہ کوئی چیز ہوتی ہے تو مجھے سمجھا دیجیے۔ یہاں کچھ طاقتیں ہیں جنہوں نے آئین معطل کرکے، حکومتیں گراکے، سیاسی مداخلتیں کرکے، ماروائے قانون اقدامات کرکے ریڈلائن کو عبور کیا ہے۔ اپنی آٹا بائیو گرافیوں میں انہوں نے ریڈ لائن کو عبور کرنے کا فخر سے اعتراف کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ریاست کے مالکان چاہتے ہیں کہ ہم ریڈ لائن آئین کو نہیں بلکہ ان کے ذاتی مفادات کو سمجھیں۔ ہم شہری آئین کا نہیں بلکہ ان کا احترام کریں۔ اب دیکھو کہ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے لوگ لاپتہ ہیں، ہمیں "گڈ طالبان” کے حوالے کردیا گیا ہے، ہمارے ہاں یہی "گڈطالبان” ٹارگٹ کلنگ کررہے ہیں اور لینڈ مائنز ہمارا ایک مسئلہ ہے۔ تو یہ آگے سے کہتے ہیں کہ تم نے ریڈلائن عبور کردی۔ یعنی جو لوگ ان سارے غیر آئیںی اور ماورائے عدالت معاملات میں ملوث ہیں ان پر تو کوئی سوال نہیں ہے۔ جو آئین کی روشنی میں سوال اٹھارہے ہیں اور آئینی بنیادوں پر غلطیوں کی نشاندہی کررہے ہیں جمہوری بنیادوں پر اپنے بنیادی حقوق کی بات کررہے ہیں وہ ریڈ لائن عبور کرنے کے مرتکب ہیں۔ یہ کیسی عجیب سی بات ہے۔
[pullquote]سوال: ٹی ٹی پی کے کمانڈر قاری محسن آپ کے بھائی ہیں۔ آپ نے جو علم بلند کیا ہے، کیا آپ اپنے اسی بھائی کے مشن کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں؟ [/pullquote]
جواب: یہ الزام جب لگایا گیا تھا تو یہ میرے والدین کے لیے بھی ایک انکشاف تھا کہ ہمارا ایک اور بیٹا بھی ہے اور ہمیں ہی اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ بھائی میرے یہ تو آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ قاری محسن یا محسن نام کا کوئی شخص میرا بھائی ہے۔ میرا ایسا کوئی بھائی اگر کہیں ہو تو مجھے بھی اطلاع دیں تاکہ میں اس سے مل سکوں۔ میرا گھر چھوڑیں میرا خاندان بھی چھوڑیں اگر میری پوری ڈسٹرکٹ میں بھی اس نام کا کوئی شخص نکل آئے تو ہر سزا کے لیے تیار ہوں۔ ہمارے پاس محسن داوڑ جیسے محسن ہوتے ہیں قاری محسن جیسے محسن نہیں ہوتے۔
[pullquote]سوال: قاری نسیم نامی ایک شخص 2007 میں ٹی ٹی پی سے وابستہ ہوا اور ٹی ٹی پی کے لیے خود کش جیکٹیں سیتا رہا۔ کیا آپ اسے اپنا بھائی تسلیم کرنے سے انکار کرسکیں گے؟ [/pullquote]
جواب: میرا بھائی نسیم ہے قاری نسیم نہیں ہے۔ اس کا نام تب لیا گیا جب قاری محسن والا پروپگنڈا ناکام ہوگیا۔ مگر انہیں صرف اتنا ہی پتہ چل سکا کہ نسیم میرا بھائی ہے۔ انہیں یہ علم نہیں ہے کہ نسیم کی پیدائش سن 2008 کی ہے۔ اب آپ خود ہی حساب کرکے مجھے بتادیں کہ اس نے ٹی ٹی پی کو کب جوائن کیا اور کب ان کا درزی بنا۔
[pullquote] سوال : آپ کے ایک عزیز نے قندھار میں انڈین آفیشلز سے ملاقات کی، کیوں؟ [/pullquote]
جواب: یہاں تو میرے دو سوال آپ سے بنتے ہیں۔ پہلا یہ کہ میرا یہ عزیز کون تھا؟ دوسرا یہ کہ ملاقات کب ہوئی؟ ایک بالکل سیدھا سا سوال جو کہ اصل میں الزام ہے میرے اوپر اٹھادیا گیا ہے اور مجھ سے کہا جارہا ہے کہ میں ثبوت دوں کہ میرا کوئی عزیز کسی انڈین آفیشل سے نہیں ملا۔ ثبوت تو الزام لگانے والوں کو دینا ہوگا تاکہ پھر میں اس پر کوئی بات کرسکوں۔ آپ کسی سے کہو کہ تم چور ہو تو وہ لازمی طور پر دو سوال آپ سے پوچھے گا۔ ایک تو یہ کہ میں نے کیا چوری کیا اور دوسرا میں نے کہاں سے یا کس سے چوری کی۔ اس کے جواب میں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ آپ اس لیے چور ہو کہ ہم نے آپ کو چور کہہ دیا ہے۔
[pullquote]سوال: آپ کا تسلسل کے ساتھ افغانستان آنا جانا ہوتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ [/pullquote]
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ افغانستان جانے میں حرج کیا ہے؟ ہمیں کیوں ایسی جگہ لاکر کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہم افغانستان آنے جانے پر شرمندہ ہوں۔ افغانستان ہمارے پرکھوں کا وطن ہے وہاں ہمارے لوگ آباد ہیں ہم وہاں کیوں نہیں جاسکتے؟ اب یہ الگ بات ہے کہ میں کبھی زندگی میں افغانستان نہیں گیا۔ اور یہ جو میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ میں کبھی افغانستان نہیں گیا یہ فخریہ نہیں کہہ رہا۔ گیا ہوتا تو خوشی سے کہتا کہ گیا ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ میں نہیں گیا۔ یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ پروپگنڈا کتنا کمزور بنیادوں پر ہورہا ہے۔ یہ تو میں افغانستان گیا نہیں ہوں تو آپ لوگ میرے بارے میں یہ کہہ رہے ہو۔ اگر گیا ہوتا تو پھر یہ میرے بارے میں کیا کچھ نہ کہہ رہے ہوتے۔
[pullquote]سوال: ٹھیک ہے آپ نہیں گئے ہوں گے، لیکن آپ افغانستان سے فنڈ تو لیتے ہیں؟[/pullquote]
جواب: بالکل نہیں۔ یہ بھی الزام ہے جس کا ثبوت دینا الزام لگانے والوں کی ذمہ داری ہے۔ ویسے میں آپ کو ایک بات بتادوں کہ یہ بیرونی فنڈنگ والا الزام اس ملک میں اتنا دوہرایا جاچکا ہے اور اتنے شرفا پر یہ الزام لگ چکا ہے کہ اب لوگ اس الزام پر کان بھی نہیں دھرتے۔ اور جب بھی آپ بلادست قوتوں کی طرف سے فنڈنگ والا الزام سنیں تو سمجھ جا کریں کہ ان کے پاس دلائل کی کمی ہوگئی ہے۔
[pullquote]سوال : اچھا تو پھر پی ٹی ایم کے یہ اتنے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟ [/pullquote]
جواب: کون سے اخراجات؟ ہمارے ہاں ایسے کیا اخراجات ہیں جس کے لیے اتنا فنڈ درکار ہو؟ ہمارے جلسوں میں کرسیاں نہیں ہوتیں۔ سٹیج کچھ بھی خاص نہیں ہوتا۔ صرف ایک ساونڈ سسٹم لگتا ہے۔ لوگ اپنے خرچے پہ آتے ہیں اپنی ہی ٹانگوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اپنی ہی ٹانگوں اور گاڑیوں پر واپس چلے جاتے ہیں اس سب پر کتنا خرچہ ہوجاتا ہوگا آپ کے خیال میں؟ ہم نے کچھ ہی دن پہلے میرانشاہ میں ایک تاریخی جلسہ کیا ہے۔ اس جلسے میں تو سٹیج بھی نہیں تھا۔ ہم نے ایک عمارت کی راہداری میں کھڑے ہوکر تقریریں کی ہیں۔ نیچے ایک بھی کرسی نہیں تھی۔ صرف ایک ساونڈ سسٹم تھا۔ میں جلسے میں دوستوں کے ساتھ ان کی گاڑی پر گیا۔ باقی لوگ اپنی اپنی گاڑیوں پر آئے۔ کیا یہ اتنے زیادہ اخراجات ہیں کہ اس کے لیے ہم افغانستان انڈیا یا اسرائیل سے فنڈ لیں گے؟ اور ہمارے اخراجات اگر زیادہ ہوں بھی تو آپ کو کیوں لگتا ہے کہ ہمارے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت یہ سارا بوجھ نہیں اٹھاسکتے۔
[pullquote]سوال : تو آپ لوگ لر او بر یو افغان (اِس پار اور اُس پار ایک افغان) کا نعرہ کیوں لگاتے ہیں؟ [/pullquote]
جواب: مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ اس نعرے میں غلط کیا ہے؟ پشتون چاہے افغانستان میں آباد ہوں یا یہاں ہوں ہم سب ایک ہیں۔ ہماری زبان ہماری تہذیب ہمارا کلچر ہمارا مذہب ہماری تاریخ سب ایک ہیں۔ یہ جو آپ یہاں شنواریوں کا نام سنتے ہیں آپ جانتے ہیں یہ لوگ کہاں رہتے ہیں؟ یہ پاک افغان سرحد کے پاس رہتے ہیں۔ اب شنواریوں کا آدھا قبیلہ سرحد کے ایک طرف آباد ہے باقی آدھا دوسری طرف آباد ہے۔ یہ سب ایک دوسرے کے چاچے مامے بھانجے بھتیجے ہیں۔ اگر وہ سب ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں تو کیا غلط کرتے ہیں؟ یہ لراو بر والی بات تو پنجاب میں بھی موجود ہے۔ ہم سب مانتے ہیں کہ انڈین پنجاب اور پاکستانی پنجاب ایک ہی ہے۔ دونوں کی زبان ثفافت اور تہذیب وتمدن ایک ہے۔ وہاں تو ہم کرتار پور بارڈر بھی کھول دیتے ہیں تاکہ دونوں طرف رہنے والے ایک ہی زبان وثقافت اور مذہب رکھنے والے خاندانوں کے بیچ رکاوٹیں کم سے کم ہوں۔ جب ایسا وہاں ہوتا ہے تو ہم سب اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور میں خود ایسی کوششوں کو سراہتا ہوں۔ مگر اسی فطری پیار محبت کا اظہار ہم یہاں اپنے سرحد پار پشتونوں کے ساتھ کرتے ہیں تو پروپگنڈا شروع ہوجاتا ہے کہ ہم کوئی ملک توڑنے کی بات کررہے ہیں۔ اگر پنجاب کے لوگ سرحد پار پنجابیوں سے محبت کا اظہار کریں یا اپنے اور ان کے بیچ رکاوٹوں کو کم کرنے کی بات کریں یا حکومتی سطح پر اس کی کوشش بھی ہو تو کیا اس سے پاکستان ٹوٹ جاتا ہے؟ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ہمارے مسائل کا حل آئین کی روشنی میں نکلنا چاہیے تو اس سے مراد افغانستان کا آئین تو نہیں ہوتا نا۔ جب آئینِ پاکستان کی بات کرتا ہوں تو ظاہر ہے اس کا تعلق زمین پر موجود ایک خاص جغرافیے کے ساتھ ہے۔ مگر لوگوں سے یہ تقاضا کرنا کہ وہ خود کو افغان نہ کہیں، اپنے عزیزوں سے پیار نہ کریں، اپنی تاریخ کے نغمے نہ گائیں یا اپنی ثقافت پر سرحدوں سے ماوری ہوکر فخر نہ کریں یہ تو ریاستی جبر ہے۔ ہم اسی ملک کے شہری ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنا حسب نسب ہی بدل لیں۔
[pullquote]سوال: ایک اہم اور بہت بنیادی سوال یہ ہے کہ آپ کا اور طالبان کا بیانیہ ایک کیوں ہے؟ [/pullquote]
جواب: یہ بھی آپ نے مجھے سمجھانا ہوگا کہ ہمارا اور ان کا بیانیہ ایک کیسے ہے؟ طالبان تو آئین کو نہیں مانتے تھے، ہم کہتے ہیں کہ ہمارے بیچ فیصلہ کن حیثیت ہی آئین کو حاصل ہے۔ طالبان پارلیمنٹ اور جہوریت کو نہیں مانتے تھے۔ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے معاملے میں بات چیت کے لیے ہم پارلیمنٹ کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ طالبان کا مسئلہ اسلام کا نفاذ تھا ہمارا مسئلہ بنیادی انسانی حقوق کا ہے۔ طالبان بندوق کو برتری کی بنیاد سمجھتے تھے ہم عوام کی خواہشات کو سمجھتے ہیں۔ ہمارے اور طالبان کے بیانیے کو جو ایک کہا جارہا ہے اس کی بنیاد صرف ایک نقطہ ہے۔ وہ یہ کہ یہ باور کرواتے ہیں کہ طالبان بھی ان کے خلاف تھے ہم بھی ان کے خلاف ہیں۔ یہ بھی ایک گمراہ کن بات ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کو ریاستی سرپرستی حاصل تھی۔ ابھی بھی وہ ریاستی سرپرستی میں ہی وہاں موجود ہیں۔ ہم تو آپ سے کہہ رہے ہیں احسان اللہ احسان اور اس جیسے باقی طالبان کمانڈر جو اپنے اپنے علاقوں میں زندہ موجود ہیں ابھی بھی دہشت گردی کی تربیت گاہیں چلارہے ہیں ان کو پکڑ کے سزائیں دیں مگر آپ ہی نے ان کو سنبھال کے رکھا ہوا ہے۔ یہاں بایانیہ ایک جیسے ہونے کا سوال کیسے پیدا ہوگیا؟ یہ سوال صرف اس لیے پیدا ہورہا ہے کہ ہم صرف طالبان ہی نہیں ان کے سرپرستوں کا بھی احتساب چاہتے ہیں۔ اب چونکہ اس سے سرپرستوں پر زد پڑتی ہے تو وہ ہمیں دہشت گردوں کا روپ دینے کے خواہشمند ہیں۔
[pullquote] سوال: آپ حکومت کی بات نہیں کرتے، ہمیشہ ریاست کو نشانے پر رکھتے ہیں۔۔۔۔ کیوں؟ [/pullquote]
جواب: کیونکہ ہمارے جو معاملات ہیں اس کا تعلق حکومتوں سے نہیں ہے۔ ریاستی پالیسیوں سے اس کا تعلق ہے۔ سن سینتالیس سے اب تک بیسیوں حکومتیں آ کر چلی گئی ہیں مگر ریاست کی پالیسی وہیں کھڑی ہے۔ ریاست کی بالادست طاقت پارلیمنٹ ہے مگر سیکیورٹی اداروں نے اس کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ان اداروں نے اپنے ادارہ جاتی مفادات کو ملکی یا قومی مفاد قرار دیا ہوا ہے۔ عوامی مفاد اور عوامی فیصلوں کو ملک دشمنی اور جہالت سے تعبیر کیا ہوا ہے۔ ہم بات تو عوامی اداروں سے ہی کریں گے مگر اس احساس کے ساتھ کہ وہ بااختیار نہیں ہیں۔ ہم ان سے بات کرلیں گے مگر بات میں اگر کسی قسم کی کوئی رکاوٹ ہو تو پھر وہ قوم کو بتادیں کہ رکاوٹوں کا سامنا انہیں کہاں سے ہے۔
[pullquote] سوال: لیکن جب آپ کو جرگوں میں بلایا جاتا ہے تو آپ کیوں نہیں جاتے؟ [/pullquote]
جواب: آپ ایک جرگے کی نشاندہی کردیں کہ جہاں مجھے بلایا گیا ہو اور میں نہ گیا ہوں۔ میں ہرجرگے میں جاتا ہوں مگر جب میں وہاں کہتا ہوں اس جرگے کو نوٹیفائی کریں یا اس جرگے کو کچھ آئینی حیثیت دیدیں تو پھر اس جرگے کی اگلی تاریخ کا کوئی تعین ہی نہیں کرتا۔ بات وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ جرگہ میری خواہش نہیں ہے میں پھر بھی اس کا حصہ بننے کے لیے آمادہ ہوا ہوں۔
[pullquote]
سوال: جرگہ توآپ کے خطے کی ایک عظیم روایت ہے، اس روایت کے تحت بڑے بڑے تنازعات کا تصفیہ ہوتا ہے، پھر آپ کیوں کہہ رہے ہیں کہ یہ میری خواہش نہیں ہے؟ [/pullquote]
جواب: بات یہ ہے کہ جرگہ دو فریق کے بیچ ہوتا ہے۔ ہم ریاست کے مقابلے میں کوئی فریق نہیں ہیں بلکہ ہم تو اس کے شہری ہیں۔ ریاست اور شہری کے بیچ جرگے فیصلے نہیں کرتے بلکہ آئین فیصلہ کرتا ہے۔ ان تحفظات کے باوجود ہم جرگے کے لیے تیار ہیں مگر اتنا سا تقاضا ہم کرتے ہیں کہ جرگے کو کوئی آئینی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔
[pullquote]سوال: کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ ریاست یاریاستی اداروں کے خلاف سخت زبان استعمال کرکے اپنی حب الوطنی کو سوالیہ نشان بنارہے ہیں؟[/pullquote]
جواب: زبان سخت نہیں ہے بات سچی ہے۔ اردو کی کہاوت ہے کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔ باقی حب الوطنی جیسے فلسفوں پر میں زیاہ یقین نہیں رکھتا۔ میں اس ریاست کا شہری ہوں۔ میں ریاست کے آئین اور قانون کا پابند ہوں۔ اگر میں آئین و قانون کی پابندی کرتا ہوں تو میں اچھا شہری ہوں۔ اگر پابندی نہیں کرتا تو میں اچھا شہری نہیں ہوں۔ میرے ساتھ سزا و جزا کا معاملہ بھی اسی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کسی شہری کے اچھا اور برا ہونے کی بنیاد آئین وقانون نہیں ہے بلکہ سیکیورٹی اداروں کے مفادات ہیں۔ اگر کوئی ان کے مفادات سے متفق ہے تو وہ اچھا شہری ہے اب چاہے وہ آئین و قانون کی کتنی ہی خلاف ورزی کرتا ہو۔ جو ان کے مفادات کو قومی مفاد نہیں مانتا یہ اسے برا شہری قرار دیتے ہیں چاہے وہ آئین و قانون کا کتنا ہی پابند شہری ہو۔