تبدیلی سرکار تقریباً نو ماہ سے زائد عرصہ گزار چکی ہے۔تبدیلی کا وہ نعرہ جو پی ٹی آئی نے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانیوں کی زبان زدِ عام کیا تھا آج مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہا ہے۔جتنی سپورٹ اور تشہیر بیرون ممالک پاکستانیو نے عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کی اس کا آدھا بھی وزیراعظم عمران خان یا عمران خان کی حکومت نے بیرون ممالک پاکستانیو کے لئے ابھی تک حق ادا نہیں کیا۔
ماسوائے سعودی ولی عہد کے پاکستان دورے کے دوران بے گناہ یا کم جرائم والے پاکستانیوں کے لئے رہائی کی اپیل کرنا جسے سعودی ولی عہد نے فراخ دلی اور حقیقتاً بے گناہ اور کم جرائم والے قیدیوں کو رہا کرنے کی صورت میں قبول کیا۔
اورسیز پاکستانیز عمران خان کے وزیراعظم بننے سے پہلے اپنے دل و دماغ میں عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد پاکستان کے لئے دبئی،ریاض،دوحا،مسقط،بحرین،لندن،پیرس اور نیویارک کا نقشہ بنا چکے تھے۔لیکن اسوقت حالات اس کے برعکس چل نکلے ہیں۔جب پاکستانی اورسیز اپنے اہل خانہ کو ماہانہ رقم کی ترسیل کے لئے منی ایکسچینجز کا رخ کرتے ہیں تو وہاں کیش ریسونگ کاونٹر پر اکثر غیر ملکی سٹاف جن زیادہ تر بھارتی باشندوں کی ہوتی ہے حقارت بھرے لہجے میں پاکستان کی گرتی ہوئی روپے کی قدر کو بیان کرتے ہیں۔ان لمحات میں اورسیز پاکستانیز کے دلوں پر جو گزرتی ہے وہ نہ تو عمران خان محسوس کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے معاون خصوصی برائے اورسیز پاکستانیز زلفی بخاری۔
اس جذباتی صدمے سے دوچار ہونے کے چند دن بعد جب دوبارہ گھریلو ضروریات کے لئے اہل خانہ دوبارہ پیسوں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں اور اسکی وجہ کمر توڑ مہنگائی کی صورت میں بیان کرتے ہیں تو اورسیز پاکستانیز کے لئے پاکستان کے تمام سیاسی رہنماؤں اور حکومتوں کے ساتھ مایوسی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور انکی حکومت ابھی تک اورسیز پاکستانیز کے لئے کسی میگا پروجیکٹ یا پالیسی کو واضح نہیں کر سکے ہیں۔معاون خصوصی زلفی بخاری کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے اسکی وجہ زلفی بخاری کا اورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حوالے سے مکمل آگاہی نہ ہونا ہے۔زلفی بخاری بھی فوٹو سیشن اور پیپر ورک کے ذریعے تمام تر اچھا ہے کی روپورٹ کئے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں اورسیز پاکستانیز کے اصل مسائل جوں کہ توں ہیں۔آج بھی کویت کے ویزے پاکستان کے لئے بند ہیں۔ہوائی جہازوں کے ٹکٹوں کی قیمتیں طیاروں کی اونچائی سے اوپر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔
وزارت اورسیز پاکستانیز اور بیرون ممالک پاکستانی سفارت خانوں کی صورت حال ویسے کی ویسی ہے۔جو اورسیز پاکستانیز پاکستان میں واپس آ کر انویسٹمنٹ کرنا چاہ رہے تھے انکے لئے ایسی کسی پالیسی کا قیام نو ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود عمل میں نہ آ سکا۔اورسیز پاکستانی اسوقت انتہائی تشویشناک صورتحال سے دوچار ہے کیونکہ ملکی مہنگائی سے اس کے اہل خانہ پریشان حال ہیں اور وہ خود بھی اس حکومت کے قیام کے بعد ویسی ہی ذندگی گزارنے پر مجبور ہے جیسی پہلی گزر رہی تھی۔
وزیراعظم عمران خان صاحب آپ جب بیرون ممالک دورہ کرتے ہیں تو پاکستان کی اقتصادی اور معاشی حالت کے بارے میں بات کرتے ہوئے پچھلی حکومتوں کا رونا دھونا چھوڑیں اور اپنی نئی حکومت کی پالیسی پر گفتگو کیا کریں۔تاکہ اس سے پاکستان کا امیج بھی بہتر ہو اور نئے سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے راغب کیا جاسکے۔
پاکستان اسوقت وزیراعظم عمران خان اور انکی حکومت کے ہاتھ میں ہے اسلئے اس سے آگے کیا کرنا ہے وہ بیان کریں۔وزیراعظم عمران خان صاحب آپ جہاں کہیں بھی خطاب کرتے ہیں تو صرف پرانے حکمرانوں اور اپوزیشن پر تنقید کے نشتر چلانا شروع کر دیتے ہیں یہی روش آپ کے وزیروں نے بھی اپنائی ہوئی ہے اس طرح اپوزیشن بھی آپ پر تنقید کے تیر برسانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تو پھر پاکستانی اورسیز ہوں یا پاکستان میں بسنے والے عوام انہیں تو آپ کی حکومت سے مایوسی ہی ہو گی وجہ مہنگائی کا وہ طوفان ہے جو سونامی کی شکل اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان صاحب کیا آپ نے مہنگائی کی سونامی لانے کا وعدہ کیا تھا؟ پرانے حکمرانوں اور حکومتوں کے گناہوں کی سزا غریب عوام کو کیوں دے رہے ہیں اگر ٹیکس اور قیمتوں میں اضافے ضروری ہیں تو ان اشیاء کا انتخاب کریں جن سے غریب کی زندگی میں مشکل پیدا نہ ہوتی ہو۔ان سے ٹیکس اور اضافی قیمتیں وصول کریں جو دے سکتے ہیں سارے عوام کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی پالیسی پر نظر ثانی کیجیے وگرنہ پانچ سال تو کجا آپ کی حکومت آدھی مدت بھی پوری نہ کر پائے گی۔