مصنوعی طریقہ سے ڈالر کی قیمت کیسے مستحکم رکھی جائے

ایک دوست نے پوچھا ہے “مصنوعی طریقہ سے ڈالر کی قیمت مستحکم رکھ کر معیشت کو بچانا یا ترقی دینا ممکن ہے ۔ تفصیلی طور پر سمجھائیں” ۔

دیکھئے اس وقت کرنسی ریٹ یا ایکسچینج ریٹ پالیسی کے حساب سے دنیا میں تین طرح کے ممالک پائے جاتے ہیں ۔ جو اپنی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں ایک ہی ریٹ یا شرح پر منجمد کر دیتے ہیں ۔ جیسے یو اے ای میں ، پانچ سال پہلے بھی ڈالر کا ریٹ 3.675 تھا اب بھی یہی ہے ۔

جو اپنی کرنسی کو ایک حد کے اندر (floating ) اوپر نیچے ہونے دیتے ہیں ۔ جیسے چین یا انڈیا یا پاکستان کرتے ہیں ۔ان دونوں قسم کے ممالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ خزانہ میں کرنسی مینجمنٹ کے لئے ریزرو رکھیں اور جب کرنسی کی شرح بگڑنے لگے یعنی ڈیمانڈ زیادہ ہو یا سپلائی زیادہ ہو تو خود کرنسی بیچ کر یا خرید کر مارکیٹ ریٹ کو متوازن کریں ۔

تیسری قسم کے ممالک وہ ہیں جو اپنی کرنسی ریٹ کو ویسے آزاد چھوڑ دیتے ہیں جیسے مارکیٹ میں دیگر ریٹ ہوتے ہیں۔ امریکہ برطانیہ اور یورپی یونین سمیت ترقی یافتہ ممالک یہی کرتے ہیں ۔ اس لئے یہ ممالک کرنسی مینجمنٹ کے لئے ریزرو نہیں رکھتے اور نہ ان کی سنٹرل بنکس مارکیٹ میں ڈیمانڈ اور سپلائی کو بیلنس کرنے کے لئے مداخلت کرتی ہے ۔

اس پر ماہرین کے درمیان اختلاف ہے کہ کونسا نظام بہتر ہے اوپر والے دو مصنوعی یا آخری والا آزاد مارکیٹ کا نظام ۔ ماہرین کی اکثریت امیر ترقی یافتہ ممالک کے لئے تیسرے نظام کو سپورٹ کرتی ہے کیونکہ ان کی فنانشل مارکیٹ ایک تو well developed ہے دوسرا انکی مارکیٹ کا حجم اتنا بڑا ہے کہ سنٹرل بنک کنٹرول نہیں کر سکتا ۔ چین بھی آہستہ آہستہ اپنی کرنسی مارکیٹ کی باگیں ڈھیلی کر رہا ہے جب سے اس نے تجارتی خسارے کا سامنا کرنا شروع کیا ہے ۔ یو اے ای اس لئے یہ پالیسی کامیابی سے چلا رہا ہے کہ وہ تیل بیچ کر ٹھیک ٹھاک ڈالر کما لیتا ہے دوسرا اس کے پاس سرمایہ کا بہاؤ بھی ٹھیک ٹھاک ہے ۔

ترقی پزیر یا غریب ممالک کے ضمن میں ماہرین کے درمیان اختلاف زیادہ ہے مگر اس پر سب متفق ہیں کہ ایکسچینج ریٹ میں استحکام اہم ہے وگرنہ بزنس کمیونٹی فیصلہ کرنے سے کتراتی ہے اور بے یقینی کی کیفیت میں رہتی ہے کہ اگر وہ کوئی امپورٹ آرڈر کریں جو اب دس ملین ڈالر کی پڑتی ہے اور کرنسی ریٹ سو روپے ہے ۔ اگر دو ماہ بعد جب اسکی ڈیلیوری اور پیمنٹ کا وقت آیا اور کرنسی ریٹ ایک سو بیس ہوا تو ان کی ساری کیلکولیشن نہ صرف خراب ہو جائے گی بلکہ کیا پتا وہ اس وقت پیسوں کا انتظام بھی نہ کر سکیں یا مارکیٹ میں مہنگی ہونے کے سبب وہ چیز بیچ نہ سکیں وغیرہ وغیرہ ۔

اب اگر حکومت اسے مصنوعی طور پر ایک ہی ریٹ پر روکے رکھتی ہے تو یہ زیادہ مدت تک ممکن نہیں کیونکہ مارکیٹ نے خود کو ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے مختلف اسباب جیسے امپورٹ ایکسپورٹ remittances , سرمایہ کی آمدورفت وغیرہ وغیرہ کے سبب۔ جب مارکیٹ خود کو ایڈجسٹ کرتی ہے اور سنٹرل بنک اسے روکنے میں ناکام رہتی ہے تو ایک دم سے ریٹ جمپ کر جاتا ہے اور مارکیٹ میں ایکچینج ریٹ کا بحران آ جاتا ہے جو پوری اکانومی کو تقریبا ایک سال اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔

پاکستان میں ہر سیاسی یا عسکری حکومت اپنے دور میں کرنسی ریٹ ہر قیمت پر چاہے اس سے معیشت کا نقصان ہی کیوں نہ ہو عارضی طور پر کنٹرول کر کے رکھتی ہے ۔ جب اگلی حکومت آتی ہے وہ مارکیٹ ایڈجسٹمنٹ کے آگے بے بس ہو جاتی ہے تب مارکیٹ میں بحران آتا ہے ۔ مارکیٹ کی نئی ایڈجسٹمنٹ کے مطابق کرنسی ریٹ ڈویلپ ہوتا ہے مگر وہ حکومت بھی اسے مصنوعی طور پر روک لیتی ہے تاآنکہ ان سے اگلی حکومت اس عذاب کو آ کر بھگتی ہے ۔ یوں ہر ایک کو ورثے میں جو ملتا ہے وہ اگلوں کو منتقل کرتا جا رہا ہے ۔

اس لئے میری رائے میں بہتر یہی ہے کہ ایکسچینج ریٹ کو آزاد چھوڑ دیا جائے تاکہ اس میں کوئی بحران نہ آئے اور مارکیٹ ہی خود کو ایڈجسٹ کرتی جائے ۔ اگر کوئی بڑا شاک آ جائے جیسے ایک دم سے مارکیٹ میں سپلائی بڑھ جائے یا ایک دم سے ڈیمانڈ بڑھ جائے تو سنٹرل بنک عارضی طور پر اس میں استحکام لانے کی کوشش کرے مگر مستقل طور پر نہیں ۔ سرمایہ دار کرنسی ریٹ میں تھوڑی تھوڑی تبدیلیوں سے نہیں گھبراتا کیونکہ وہ اسے آسانی سے اپنی کاسٹ اور قیمتوں میں ایڈجسٹ کر دیتا ہے مگر ایک دم بڑی تبدیلی چاہے کرنسی ریٹ بڑھے یا کم ہو دیکھ کر اس کی جان خشک ہو جاتی ہے ۔

یہ مختصر کہانی ہے ۔ شکریہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے