ہر رمضان میں ہم شاخیں کاٹتے ہیں۔ اگلے برس پھر اُگ آتی ہیں۔ کیا کاروبارِ چمن یوں ہی چلتا رہے گا؟
اصل مسئلہ رویتِ ہلال نہیں ہے۔ یہ تو اس ابہام کی ایک فرع ہے جس کا تعلق مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق سے ہے۔ جب تک یہ ابہام باقی ہے، شاخیں اگتی رہیں گی۔ مذہب اور ریاست کو جب ہم نے غیر منطقی انداز میں جمع کر نے کی کوشش کی تو اس کے دو نتائج نکلے۔ ایک نظری ہے جو اس جملے سے برآمد ہوا کہ ”اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‘‘۔ ہم نے اس کا یہ مفہوم سمجھا کہ زندگی میں اٹھنے والا ہر مسئلہ جوہری طور پر مذہبی ہوتا ہے اور ہمیں مذہب ہی سے اس کا حل تلاش کرنا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار کے کھیل میں، روایتی کھلاڑیوں کے ساتھ‘ جن کا تعلق جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے سے تھا، اہلِ مذہب کی ایک نئی ٹیم بھی شامل ہو گئی۔ سیاسی کھیل میں ان کی شرکت کا جواز تب ہی پیدا ہوتا ہے جب ہر معاملے کو مذہبی بنا دیا جائے۔
چاند کا دیکھنا، کیا شرعی مسئلہ ہے؟ میں اس پر جتنا غور کر سکا، یہی جان سکا کہ مذہب کا کہنا بس اتنا ہے کہ ماہِ رمضان کے روزے، اہلِ اسلام پر فرض کیے گئے ہیں‘ اور یہ کہ یکم شوال عیدالفطر کا دن ہے۔ اب رمضان کا آغاز کب ہو گا؟ جس دن اس ماہِ مبارک کا چاند طلوع ہو گا۔ یہ جاننے کے لیے کہ چاند کب نکلا ہے، قدیم زمانے میں دو طریقے تھے۔ ایک یہ کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے افق پر بچشمِ سر دیکھ لے۔ دوسرا یہ کہ شعبان کے تیس دن پورے ہو جائیں۔ شعبان کے تیس دن پورے ہو گئے تو یہ یقینی ہے کہ رمضان کا چاند طلوع ہو گیا۔ اس کی وجہ عقلی ہے۔ کوئی قمری مہینہ تیس دن سے زیادہ کا نہیں ہو سکتا۔ اگر شعبان کے تیس دن پورے ہو گئے تو پھر کھلی آنکھوں سے چاند کا دیکھنا ضروری نہیں رہتا۔
یہ ساری بحث عقلی ہے۔ اگر آج علم کے ارتقا نے ہمیں کوئی اور ایسا طریقہ بتا دیا ہے جس سے یقینی طور پر معلوم ہو سکتا ہے کہ چاند طلوع ہو گیا ہے تو ہم اسے مان لیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند کی پیدائش کا تعلق نظمِ کائنات سے ہے۔ اس کو ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ شریعت نے نماز کے اوقات بتا دیے، جیسے ظہر‘ عشا وغیرہ۔ ہم ان اوقات کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ اب ظہر کب ہو گی اور عشا کب، یہ شریعت کا مسئلہ نہیں‘ اس کا تعلق گردشِ شام و سحر سے ہے۔ جدید دور میں گھڑی یہ جاننے کا یقینی ذریعہ ہے کہ کب ظہر کا وقت ہوا اور کب مغرب کا۔ میں اسے یوں بیان کر سکتا ہوں کہ نماز کن اوقات میں فرض ہے، یہ شریعت کا مسئلہ ہے۔ یہ اوقات کب شروع اور کب ختم ہوتے ہیں، اس کا تعلق عقلِ عام اور آغازِ شب و روز کے باب میں ہمارے دنیاوی علم سے ہے۔
ایک اور مثال دیکھیے: شریعت نے بتایا کہ نو ذی الحج کو یومِ عرفہ یعنی حج کا دن ہے۔ دن کا تعین شریعت نے کر دیا‘ جسے ہم تبدیل نہیں سکتے۔ اب نو ذی الحج کب ہے، اس کا تعلق شریعت سے نہیں، ہمارے کائناتی علم سے ہے۔ ان مثالوں سے بالکل واضح ہے کہ رمضان کے روزے شریعت کا حکم ہیں‘ لیکن رمضان کا چاند کس وقت طلوع ہوا، اس کو جاننے کا ذریعہ ہمارا دنیاوی یا سیکولر علم ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو مسئلہ اپنے جوہر میں غیر مذہبی ہے، اس میں علما کو کیوں زحمت دی جائے؟
رسالت مآبﷺ نے جب یہ فرمایا کہ چاند دیکھ کر روزے رکھو تو یہ اسی کائناتی علم کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ تھا اور اس کا تعلق عقلِ عام سے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عہدِ رسالت و صحابہ میں تیس شعبان کے بعد کسی نے چاند کو دیکھنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس بحث میں بعض الفاظ استعمال ہوتے ہیں جنہیں ان کی عربیت وغیرہ کی وجہ سے شرعی سمجھ لیا جاتا ہے‘ جیسے رویت، مطلع، جمِ غفیر۔ یہ عام لغت کے الفاظ ہیں جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔
چند سوال اور بھی ہیں: رمضان کے آغاز کا تعلق چاند کی پیدائش سے ہے یا رویت سے؟ کیا زمین کے مدار کے حوالے سے کسی ایک مطلع میں رہنے والے ایک ساتھ رمضان کا آغاز کر سکتے ہیں؟ یعنی جہاں قمری مہینے کی ایک ہی تاریخ ہوتی ہے،کیا ان ممالک میں ایک ہی دن روزہ اور عید ہو سکتے ہیں؟ اب ان سوالوں کے جواب ہمیں شریعت سے نہیں ملیں گے۔ چاند کی رویت ہو یا پیدائش یا مطلع، یہ سب کائناتی علم سے متعین ہوں گے۔
قدیم دور میں چونکہ رویت ہی یقینی ذریعہ تھا، اس لیے پیدائش کی بحث نہیں تھی۔ یہ بحث بھی اس وقت پیدا ہوئی جب ہمارے کائناتی علم نے ہمیں بتایا کہ چاند کی رویت اور پیدائش، دو مختلف مراحل ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جیسے ہمارے کائناتی علم میں اضافہ ہوتا جائے گا، ہمیں اس کی روشنی میں شرعی احکام کو سمجھنا ہو گا۔ شریعت کا حکم تبدیل نہیں ہوتا‘ لیکن اس کا اطلاق ہمیشہ حالات کے تابع ہو تا ہے۔
رویت ہلال کے باب میں، اس لیے میری رائے یہ ہے کہ چونکہ اس کا تعلق شریعت سے نہیں ہے، اس لیے اس کے لیے علما کی کسی مجلس کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ انتظامی مسئلہ ہے جس کا فیصلہ کائناتی علم کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ حکومت چاہے تو اسے کسی بھی نظم کے تابع کر سکتی ہے۔ وہ چاہے تو اسے چاند کی رویت سے متعلق کر دے یا پیدائش سے یا پھر ایک ہی مطلع میں واقع ممالک کے ساتھ مل کر کوئی نظم بنا لے۔
اس معاملے کا ایک پہلو تہذیبی بھی ہے۔ لوگ چاند دیکھنے کا اہتمام کرتے ہیں؛ تاہم شہروں کی طرف ہجرت نے اس تہذیبی حسن کو گہنا دیا ہے۔ شہروں پر جو آسمان تنا ہوا ہے، وہ دیہی آسمان سے مختلف ہے۔ شہروں میں چاند اور انسانی آنکھ کے درمیان کچھ فضائی اور کچھ تہذیبی آلودگی حائل ہو گئی ہے۔ تہذیبی آلودگی میں ٹی وی پروگراموں نے بہت اضافہ کر دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک سادہ مسئلہ، ہمارے ہاں پیچیدہ کیوں بنا؟ اس کے اسباب وہی دو ہیں جو میں نے ابتدا میں بیان کیے۔ جب ہر مسئلہ مذہبی بن گیا تو لوگوں نے رائے قائم کر لی کہ چاند کا دیکھنا بھی مذہبی کام ہے، لہٰذا یہ علما کو سونپ دیا جائے۔ اسی طرح جب ہمارے ہاں مذہبی سیاست کا آغاز ہوا تو مذہبی طبقہ ایک فعال سیاسی گروہ کے طور پر سامنے آیا۔ اس نے اقتدار کے اس کھیل میں اپنا حصہ مانگا۔ حصہ دینے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ رویتِ ہلال کمیٹی جیسے ادارے بنا دیے جائیں۔
فواد چوہدری صاحب اس باب میں جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس سے میں تو اختلاف نہیں کر سکتا۔ مسئلہ ان کے موقف کا نہیں، اسلوبِ کلام کا ہے۔ انسان چونکہ اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہے، اس لیے اس باب میں تو ہم بے بس ہیں۔ ہمیں گوہر سے دلچسپی رکھنی چاہئے‘ صدف سے نہیں؛ تاہم، جب تک حکومت اس باب میں کوئی فیصلہ نہیں کرتی، نظمِ اجتماعی کے لیے ضروری ہے کہ رویتِ ہلال کمیٹی کے فیصلوں کو تسلیم کیا جائے۔
ایوب خان کے عہد میں جب یکم شوال جمعہ کا دن تھا تو کسی نے انہیں بتایا کہ حکمران پر دو خطبے بھاری ہوتے ہیں۔ انہوں نے جمعرات ہی کو عید کا اعلان کروا دیا۔ مولانا مودودی جیسے چند علما نے اس سے اختلاف کیا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ مولانا کو بنوں کی جیل میں بند کر دیا گیا۔ جب مہینے بعد رہا ہوئے تو لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو کہاں لے گئے تھے؟ کہا: ”چاند دکھانے‘‘۔ بہتر یہی ہے کہ حکومت علما کو چاند دکھائے اور نہ انہیں چاند چڑھانے کا فریضہ سونپا جائے۔ اس کا تعلق کائناتی علم سے ہے، اس لیے اسے سائنس کے علما کو سونپ دیا جائے۔