کسی بھی ریاست کی اصل قوت کیا ہے؟ اس سوال پر ذرا غور کریں تو یہ دریافت کرنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اس کی اصل قوت ٹیکس جمع کرنا ہوتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے ہمارے ہاں ٹیکس کو مالیہ اور محصولات کہا جاتا رہا ہے۔ جلال الدین، اکبر اعظم کہلایا تو بنیادی سبب اس کا راجہ ٹوڈرمل کے ذریعے مغل سلطنت کے لئے مالیہ جمع کرنے کا نظام وضع کر کے اسے مؤثر ترین انداز میں لاگو کرنا تھا۔ بات مختصر کرتے ہوئے برطانیہ کے کئی دہائیوں تک زیر تسلط رہے "British India”تک آجائیں تو کلکٹر اور ڈپٹی کلکٹر کے عہدے یاد آجاتے ہیں۔ کلکٹر انگریزی زبان کے لفظ Collectیعنی جمع کرنے سے نکلا ہے۔اس عہدے کی بنیادی ذمہ داری اپنی ڈسٹرکٹ یعنی ضلع میں ہوئی آمدنی کا بہت جانفشانی سے حساب لگاکر اس پر سرکار کی جانب سے لگائے مالیے اور محصولات کو ہر صورت جمع کرکے قومی خزانے میں جمع کروانا تھا۔کلکٹر کا عہدہ طاقت ور اور کارآمد نہ ہوتا تو برٹش انڈیا برطانیہ کو Empireکی صورت نہ دے پاتا۔
سرکار انگلشیہ کا تمام کروفر اس عہدے کی بدولت دیکھنے کو ملا۔ اپنے زیر نگین علاقوں کو یہ کلکٹر حضرات خوب سمجھتے تھے۔ کئی دنوں تک ضلعی صدر مقام سے دور رہتے ہوئے خچروں اور گھوڑوں کے ذریعے دور دراز مقامات کے دورے پر رہتے۔ وہاں خیموں میں قیام کرتے۔ مقامی لوگوں کی ’’حاضری‘‘ سے اس علاقے کی تاریخ،روایات اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی نفسیات کو جاننے میں مصروف رہتے۔
اپنے مشاہدات کو تحریری صورت ریکارڈ پر لانا ان کلکٹر حضرات کی ایسی ذمہ داری تھی جس سے مفر ممکن نہیں تھا۔ آج بھی مجھے کسی ڈسٹرکٹ کی تاریخ سمجھنا ہو تو میں اپنی صحافتی تحقیق کا آغاز اس ضلع کے بارے میں انگریزی افسروں کے لکھے ہوئے گزیٹرز کو بغور پڑھنے سے کرتا ہوں۔انگریزپنجاب پر 1849میں قابض ہوا تھا۔ 1890کے ستمبر تک اس نے بیاس سے دریائے سندھ تک پھیلے پنجاب کے تمام علاقوں کی تفصیلات جمع کرلی تھیں۔1909میں ان کاازسرِ نو جائزہ لیا گیا۔ برسوں سے ریکارڈ شدہ معلومات کو ہر سال Updateکرنا ضروری تھا۔ آج بھی کسی ضلع کا انگریزی دور میں مرتب شدہ ریکارڈ دیکھ لیں تو آپ کو اس میں وہاں کی زراعت اور تجارت سے جمع کئے مالیے کا جزئیات سمیت حساب مل جاتا ہے۔
2019میں معلومات کے حصول کا یہ نظام تو مزید Advancedاور واضح ہوجانا چاہیے تھا۔ہمارے ہاں 1970کی دہائی سے کلکٹر وغیرہ نہیں رہے۔ ضلعوں کے بادشاہ ڈپٹی کمشنر ہوگئے۔وہ کمشنر کے ماتحت انتظامی معاملات پر نگاہ رکھتے ہیں۔بعدازاں پولیس اپنے تئیں خودمختار سروس بن گئی۔ مالیے اور محصولات جمع کرنے کی ذمہ داری ریونیووالوں کو سونپ دی گئی۔
وفاقی سطح پر ریونیو جمع کرنے کا ذمہ دار ادارہ FBRہے۔ سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد اس ادارے کے لئے کام کرنے والے افراد Internal Revenue Service (IRS)گروپ میں آجاتے ہیں۔ گریڈ 17سے ملازمت کا آغاز کرتے ہوئے IRSکے ہر افسر کی خواہش بالآخر ایک دن گریڈ 22تک پہنچنا ہوتا ہے۔ گریڈ 22کے بعد فقط ریٹائرمنٹ اور پنشن ہے۔ گریڈ 23ہرگز نہیں۔لمبی تمہید کے بعد ’’مکدی گل‘‘ کہوں تو وہ یہ ہے کہ اس وقت ہماری IRSمیں گریڈ 22کے میری اطلاع کے مطابق چھ افسر موجود ہیں۔ IRSکے نام سے قائم کئی برسوں سے قائم اس انتظام کے ہوتے ہوئے بھی FBRلیکن اس سال ٹیکس کی مد میں وہ رقم جمع نہیں کرپایا جس کا ہدف شاہد خاقان عباسی کی حکومت کے دوران مفتاح اسماعیل کی معاونت سے 2018میں طے ہوا تھا۔ سنا ہے کہ جمع شدہ رقم طے شدہ ہدف سے 350ارب روپے کم ہے۔ یہ خسارہ ’’تاریخی‘‘ بتایا جارہا ہے۔ گزشتہ بجٹ میںطے شدہ اہداف کے حصول میں ناکامی کے باوجود IMFاب IRSکے افسروں پر مشتمل FBRسے 700ارب روپے مزید جمع کرنے پر زور دے رہا ہے۔
عمران حکومت نے پریشان ہوکر پرایئویٹ سیکٹر سے شبر زیدی کو FBRکا ’’اعزازی‘‘ چیئرمین مقرر کردیا ہے۔IRSکے افسر ’’غیر‘‘ کی اپنے محکمے میں آمد پر بہت دلبرداشتہ ہیں۔ بخدا ان کی خفگی کو میں ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ یہ خیال بھی مگر ستائے چلے جارہا ہے کہ گریڈ 22کے چھ افسروں کے ہوتے ہوئے بھی FBRاگر اپنے ہدف کو حاصل نہ کرپایا تو حکومت کسی ’’غیر‘‘ سے رجوع کیوں نہ کرے۔اس سوال کا معقول جواب اب تک مجھے IRSافسروں کے ہمدرد دے نہیں پا ئے ہیں۔ شاید یہ کالم چھپنے کے بعد کوئی مہیا کرنے کی کوشش کرے۔معقول جواب کی عدم موجودگی میں مجھ ایسے دو ٹکے کے رپورٹر یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ IRSوالی سروس ایک ’’ناکارہ‘‘ بندوبست ہے۔
عمران خان شاید درست وجوہات کی بنا پر طیش میں آکر FBRکو مکمل طورپر ختم کرنے کے بعد ٹیکس جمع کرنے کے کسی نئے نظام کو لاگو کرنے کی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔وہ ایسا نظام لیکن ڈاکٹر عشرت حسین جیسے جہاندیدہ افسر کی معاونت کے باوجود اب تک متعارف کروانے میں ناکام رہے۔کلکٹر کے ذریعے برطانوی سرکار نے ہمارے ہاں جو انتظامی ڈھانچہ متعارف کروایا تھا اسے کئی دہائیوں تک Steel Frameکہا گیا۔
یہ اس سرکار کے لئے ریڑھ کی ہڈی رہا۔ FBRمگر پاکستانی ریاست کے لئے ریڑھ کی مضبوط ہڈی نہیں بن پایا۔ اس ہڈی کی کمزوری کے باعث ہماری سرکار کو IMFکے سامنے جھکنا پڑا ہے۔ ورلڈ بینک کے تربیت یافتہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو تحریک انصاف کے بانی اراکین میں سے ایک -اسد عمر- کو قربان کرکے وزارتِ خزانہ دے دی گئی ہے۔ سٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر اپنا عہدہ سنبھالنے سے محض چند دن قبل تک مصر میں IMFکے مدارالمہام تھے۔ انہوں نے 2016میں مصر کو دئیے ایک بیل آئوٹ پیکیج کو من وعن لاگو کرنے کا فریضہ سرانجام دیا۔ مصر کی ریاست معاشی اعتبار سے اب نام نہاد Macroسطح پر اپنے پائوں پر کھڑی ہوئی نظر آرہی ہے۔
انتہائی غریب عوام کی تعداد اس ملک میں لیکن اب 2016سے تقریباََ دوگنا ہوگئی ہے۔ڈاکٹر رضاباقر کی تعیناتی کے بعد سے عمران حکومت کے دل وجان سے پرستار ماہرین معیشت بھی برملا اعتراف کررہے ہیں کہIMFسے جس پیکیج کی بات چل رہی ہے وہ لاگو ہوگیا تو ہمارے ہاں کم از کم 80لاکھ افراد آئندہ تین برس میں خطِ غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ یقین مانیے نئے بندوبست کی وجہ سے فقط عمران سرکار ہی کمزور ہوتی نظر نہیں آرہی۔سوالات ریاستِ پاکستان کے برسوں سے قائم مالیاتی اداروں کی افادیت کے بارے میں اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنا تو دور کی بات ہے کوئی ان کا ذکر بھی میڈیا میں شدومد سے کرنے کو تیار نظر نہیں آرہا۔