گذشتہ ہفتے بلوچستان اسمبلی کی ایک رکن ماہ جبین شیران اپنی گود میں بچہ لے آئیں۔ کچھ ارکانِ اسمبلی نے ایوان میں ایک غیر رکن یعنی بچے کی موجودگی پر اعتراض کیا چنانچہ قانون کے مطابق ماہ جبین کو اجلاس چھوڑنا پڑ گیا۔
ماہ جبین نے بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس لیے بچے کو ساتھ لے آئیں کیونکہ وہ فوری طور پر اسے کہیں نہیں چھوڑ سکتی تھیں اور کام پر توجہ کے لیے ضروری تھا کہ بچہ ان کے ساتھ رہے۔
توقع تھی کہ اس واقعہ کے بعد اسمبلی کے اسپیکر حکم جاری کرتے کہ اسمبلی بلڈنگ میں چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک ڈے کیئر سینٹر بھی قائم کیا جائے تاکہ جو خواتین بھلے وہ رکن اسمبلی ہوں یا اسمبلی کی ملازم، اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے بارے میں مطمئن ہو کر قانون سازی اور کام پر توجہ دے سکیں۔ مگر تاحال اسپیکر یا وزیرِ اعلی کی جانب سے ایسا کوئی حکم سامنے نہیں آ سکا۔
یہ معاملہ صرف ایک اسمبلی کا نہیں بلکہ تمام کارکن خواتین کے لئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اور اس بارے میں قانون سازی فوری توجہ کی متقاضی ہے۔
ضروری نہیں کہ ہر پروفیشنل خاتون یا رکنِ اسمبلی چھوٹے بچوں کی مسلسل نگہداشت کے لئے نینی یا کئیر ٹیکر رکھ سکے۔ لہذا یہ حکومتوں اور اداروں کا فرض ہے کہ ان کی ذمہ داریوں کو جتنا سہل بنا سکیں بنائیں۔
ویسے شیر خوار یا اپنی دیکھ بھال خود نہ کرنے والے بچوں کو کام کی جگہ پر اپنے ساتھ رکھنا کوئی معیوب بات نہیں۔ سنہ 2003 میں آسٹریلوی ریاست وکٹوریہ کی رکنِ اسمبلی کرسٹی مارشل جب اپنے بچے کو اسمبلی اجلاس میں لائیں اور انھوں نے دودھ پلانے کی کوشش کی تو سپیکر نے انہیں اجلاس چھوڑنے کا حکم دیا اور تاویل یہی پیش کی کہ انہیں دودھ پلانے پر نہیں بلکہ اس پر اعتراض ہے کہ بچہ اسمبلی کا رکن نہیں لہذا وہ ایوان میں نہیں آ سکتا۔
اس واقعہ پر خاصی تو تو میں میں ہوئی اور پھر شیر خوار بچوں کے تعلق سے اسمبلی ضوابط میں ترمیم کی گئی۔چنانچہ بعد ازاں ایک رکنِ اسمبلی ایلن سینڈل اپنی بچی کے ساتھ باقاعدہ اسمبلی کی کارروائی میں بھی حصہ لیتی رہیں اور اس کی نگہداشت بھی کرتی رہیں۔
لیسیا رونزولی سنہ 2010 میں یورپی پارلیمان کی رکن بنیں۔ وہ اپنے ہمراہ ڈیڑھ ماہ کی بیٹی وکٹوریہ کو باقاعدگی سے ہر اجلاس میں اگلے چار برس تک لاتی رہیں۔
ننھی وکٹوریہ پارلیمانی آداب کی اتنی عادی ہو گئی تھی کہ جب کسی قرار داد کے حق میں ووٹنگ ہوتی تو وہ بھی اپنا ہاتھ بلند کر دیتی۔ پوری پارلیمان ننھی وکٹوریہ کی اداؤں سے محظوظ ہوتی تھی اور اسے یورپی پارلیمان کا اعزازی رکن سمجھا جاتا تھا۔
آسٹریلوی پارلیمنٹ میں لاریسا واٹرز اپنی بچی ایلیا جوائے کو کینیڈین پارلیمنٹ میں، کرینا گولڈ اپنے بچے اولیور کو اور ارجنٹینا کی رکنِ کانگریس وکٹوریہ ڈونڈا اور آئس لینڈ کی رکنِ پارلیمان انر کونراڈ اوسدوتر اپنے بیٹے کو جب جب مناسب سمجھتی ہیں اجلاس میں لاتی ہیں۔ حالانکہ ان ممالک کی پارلیمانوں میں چھوٹے بچوں کو لانے کی اجازت کے بارے میں کوئی واضح قانون بھی نہیں۔
گذشتہ برس اپریل میں امریکی سینیٹر ٹیمی ڈک ورتھ کا پیش کردہ بل منظور ہوا جس کے بعد اب امریکی سینیٹ کی رکن ماؤں کو بھی شیر خوار بچے ساتھ لانے کی اجازت ہے ۔
نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈرن کو تو اب دنیا کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ گذشتہ برس اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں وہ اپنی تین ماہ کی بچی نیوتی آروہا کو بھی ساتھ لے آئیں۔
بطور کئیر ٹیکر نیو کے والد گیفرڈ کو بھی اس اجلاس میں شامل ہونے کی خصوصی اجازت ملی۔ ایوان میں داخلے کے لئے نیو کا اجازت نامہ بھی بنا۔ اس پر لکھا تھا ’نیو آرڈرن ، فرسٹ بے بی آف نیوزی لینڈ`۔
جنرل اسمبلی کے صدر سمیت اجلاس کے کسی مندوب نے طعنہ نہیں دیا کہ ایک بچے اور اس کے کئیر ٹیکر کو ایوان میں کیوں بیٹھنے کی اجازت دی گئی۔ بلکہ اجلاس کے بعد اقوامِ متحدہ کی ترجمان سٹیفنی دوگارچ نے میڈیا کے سامنے تبصرہ کیا کہ ’وزیرِ اعظم جیسنڈا نے ثابت کیا کہ ایک ملازمت پیشہ ماں کتنی خوش اسلوبی سے اپنے ملک کی نمائندگی کر سکتی ہے۔ اس وقت عالمی قیادت میں خواتین کا تناسب صرف پانچ فیصد ہے۔ ان حالات میں ایسی خواتین کا ہر طرح سے خیر مقدم ہونا چاہئے۔‘
ممکن ہے ہماری اسمبلیوں میں اس لئے شیرخوار بچوں کو لانے کی اجازت نہ ہو کیونکہ اگر وہ روئیں گے یا بے چین ہوں گے تو اسمبلی کی کارروائی ڈسٹرب ہو جائے گی۔ مگر جتنا غل غپاڑہ ہمارے ایوانوں میں مسلسل ہوتا ہے کیا کوئی تین چار ماہ کا بچہ اتنا شور کر سکتا ہے ؟
البتہ میں ذاتی طور پر بچوں کو اسمبلیوں کے ایوان میں لانے کے اس لئے خلاف ہوں کیونکہ اگر انھوں نے بھی وہی زبان اور اشارے سیکھ لئے جو بڑے برتتے ہیں تب کیا ہوگا؟
پھر بھی اگر پارلیمانی مائیں بچوں کو لانا چاہیں تو یہ سہولت ان کا حق ہونا چاہئے۔